مصنف نے مختلف انتہائی موثر تشبیہات استعمال کی ہیں تاکہ قارئین کو ایک مضمون سے دوسرے مضمون تک لے جائیں اور ان کے دلوں میں ایک مسئلے پر غور کی خواہش پیدا کریں۔ اس کالم میں اسلامی تعلیمات، تاریخی واقعات اور معاصر سیاست کے اثرات پر بات چیت کی گئی ہے، جو قارئین کو موجودہ حالات کی روشنی میں مختلف تصورات اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
اصل مضمون کے علاوہ، کالم میں انسانی ذہانت، فہم و بصیرت کی بڑی قدریں، یعنی علم کی اہمیت پر توجہ دلائی گئی ہے۔ مصنف نے پاکستانیوں کو انفرادی اور قومی سطح پر ذمہ داری کا احساس دلایا ہے اور انہیں اسلامی اصولوں کی روشنی میں قومی اور انفرادی ترقی اور فلاح کی راہ دکھائی ہے۔
کالم کا موضوع اور اس کی متعدد باتوں پر غور، موجودہ دور کے مسلمانوں کے لئے موجب فکر اور غور کیلئے اہم ہوسکتے ہیں
" />

پانچ لال گائیں

یہ تحریر محمد سرفراز ذوق کے کالموں کے سلسلے " زاویہ ذوق" کا ایک نیا اضافہ ہے۔یہ کالم ایک اہم موضوع پر مبنی ہے جو بظاہر ایک حالیہ بڑے واقعہ یعنی زیونسٹ کی لال گائے کی دستیابی کو موضوع بحث بناتا ہے۔لیکن دراصل یہ کالم فلسطینی مسئلہ اور اسلامی تاریخ کے مختلف پہلووں پر غور کرتا ہے، خصوصاً جب اس کا تعلق انجامِ دنیا کی باتوں سے ہوتا ہے۔ اس میں مختلف مذاہب خصوصا یہودی لوگوں کی روایات اور اعتقادات کی تحقیقی اور فکری جڑوں پر بھی غور کیا گیا ہے۔
مصنف نے مختلف انتہائی موثر تشبیہات استعمال کی ہیں تاکہ قارئین کو ایک مضمون سے دوسرے مضمون تک لے جائیں اور ان کے دلوں میں ایک مسئلے پر غور کی خواہش پیدا کریں۔ اس کالم میں اسلامی تعلیمات، تاریخی واقعات اور معاصر سیاست کے اثرات پر بات چیت کی گئی ہے، جو قارئین کو موجودہ حالات کی روشنی میں مختلف تصورات اور رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
اصل مضمون کے علاوہ، کالم میں انسانی ذہانت، فہم و بصیرت کی بڑی قدریں، یعنی علم کی اہمیت پر توجہ دلائی گئی ہے۔ مصنف نے پاکستانیوں کو انفرادی اور قومی سطح پر ذمہ داری کا احساس دلایا ہے اور انہیں اسلامی اصولوں کی روشنی میں قومی اور انفرادی ترقی اور فلاح کی راہ دکھائی ہے۔
کالم کا موضوع اور اس کی متعدد باتوں پر غور، موجودہ دور کے مسلمانوں کے لئے موجب فکر اور غور کیلئے اہم ہوسکتے ہیں

ہمارا المیہ دیکھیں کہ صرف پچھلے اکتوبر سے لیکر اب تک فلسطین میں چالیس ہزار بچے ،مائیں، بہنیں، بیٹیاں ،جوان و بزرگ شہید کر دیے گئے ،سینکڑوں بیٹیوں کو قید میں رکھ کر انکی عزتیں پامال کرکے مار دیا گیا،ہمارے جوانوں کو قید کرکے انکے جسم کے ایک ایک اعضا کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر مارا گیا،وحشیانہ کارپپٹڈ و ٹارگٹڈ بمباری کر کےاسپتال و تعلیمی ادارے تک تباہ و برباد کر دیے گئے۔۔۔
لیکن ہم اِن تمام معاملات کو سیریس نہ لے سکے،کوئی قومی و مجموعی سوچ و فکر نہ بنا سکے اور اب اگر سیریس موضوعِ باعث یا اہم ترین معاملہ سمجھا ہے تو وہ بھی زیونسٹ کی ٹیکساس سے لائی گئی پانچ لال گائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں ہم کچھ دیر کیلئے یہ فرض کر لیتے ہیں کہ وہ پانچ لال گائیں جنکا چرچا ہر سو ہو رہا ہے، اپنے متعلقہ مقام تک پہنچ چکی ہیں ،پھر انہیں ذبح کر کے ان کی خاک بنا کر اس کو بنائے جانے والے تیسرے ہیکل سلیمانی کی دیواروں میں ڈالا جائے گا، اس خاک سے ہزاروں( زیونسٹ) یہودی طہارت حاصل کریں گے، پھر تابوت سکینہ بھی ان کو مل جائے گا،دجال جس کو زیونسٹ اور اناجیلی اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور اُسکے استقبال کو وہ بے چین ہیں آ کر دنیا پر حکومت کرے گا۔۔۔اور یوں بقول زیونسٹ دنیا پر ان کا غلبہ ہو جائے گا ۔
یہ ان کی روایات ہیں۔۔۔سچی بھی اور ملاوٹ شدہ بھی۔۔۔
سوال یہ ہے کہ اِس میں ہماری دل چسپی کی کیا بات ہے؟
اگر ہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ سرخ گائیں مطلوبہ مقام تک پہنچنے کا مطلب ہے کہ قیامت آنے والی ہے۔۔۔
تو ہماری اجتماعی قیامت تو پچھلے ڈیڑھ دوسو سال سے آ چکی جب سے ہم دنیا میں صرف مفتوح قوم کے طور پر طاغوتی حکمرانوں اور اناجیلی و زیونسٹ کو فالو کرنے والے،ہر طرح کی مدد کیلئے قومِ اغیار سے مانگنے والے بھکاری بن کے رہ گئے،باقی رہ سہی قیامت انفرادی طور پر اسی وقت آ جائے گی جب روح جسم سے جدا ہو گی۔۔۔اس کا وقت کسی کو نہیں معلوم۔۔۔
مومن نہ قیامت سے ڈرتا ہے نہ موت سے۔۔۔
اصل خوف تواُس ذہنی پسماندگی و ابتری کا ہے جس کا ہم مسلمان بحثیت مجموعی شدید شکار ہیں ، ڈر تو اُس سوچ سے ہے کہ ہم اپنی جماعت،قوم یا انسانیت کی بھلائی کا کوئی عمل کریں یا نہ کریں اور ہم خیر تقسیم کرنے والے ہوں یا نہ ہوں لیکن ہم اپنے تئیں خوامخواہ سب سے افضل و معتبر ہیں۔۔۔۔
ہمیں تو اس ذہنیت کا ماتم کرنا چاہیے کہ تابوت سکینہ کو زیونسٹ ابھی تک اپنے معراج کی علامت سمجھتے ہیں۔۔۔۔
یہ تو بالکل ایسی بات ہوئی کہ ہم کہیں کہ غزوہ بدر کی فلاں تلوار فلاں عجائب گھر میں جب تک موجود ہے مسلمانوں کی شجاعت و غیرت پر آنچ نہیں آ سکتی یا نبی پاک یا کسی اصحاب کی فلاں دستار یا چوغہ اگر ہمارے کسی مقام پر موجود ہے تو یماری عزت قائم رہے گی یا کعبہ کے غلاف کی ہمارے گھروں میں موجودگی یمارے لئے خوشحالی ،اطمینان و کامیابی کا باعث ہوگی۔۔
قرآن مجید کتنی ناراضگی کے ساتھ لال گائے کے قصے کوبیان کرتے ہوئے یہودیوں کی ذہنیت پر افسوس کا اظہار کرتا ہے اور وہ بچھڑے اج بھی ان کے دلوں میں بسے ہوئے ہیں حالانکہ وہ خود کو انبیاء کی اولاد سمجھنے کا زعم بھی رکھتے ہیں۔۔۔

یہاں یہ یاد رہے کہ جو اصل یہودی ہیں وہ تو دنیا میں منتشر ہیں،جو بنی اسرائیل ہیں وہ ایک جگہ جمع ہونے سے گھبراتے ہیں کیونکہ خود ان کی اپنی روایات میں ہے کہ وقتِ آخر وہ ساری دنیا سے کھینچ کر ایک جگہ جمع کر دیے جائیں گے۔
یہ تو زیونسٹ ہیں جو یہ پروپیگنڈے کر رہے ہیں۔۔
یہاں قابلِ غور سوال یہ ہے کہ بچھڑا یا گائے کی ان کی ٹرانسکرپٹ میں اس کی اہمیت ہے ہمارے مذہب میں الحمدللہ اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایک امت یہود جو اپنی ان خرافات کی وجہ سے تباہ برباد ہوئی اس کا ذکر قران میں محفوظ ہے۔اور آج بھی وہ ان خرافات کے پیچھے چل رہی ہے۔۔
دنیا کے سارے نبی ایک ہی شریعت لائے تھے وہ سب ایک ہی مذہب اسلام لائے تھے،دیگر اقوام نے عموماً اور زیونسٹ نے خصوصاً اسے بگاڑ کے کچھ سے کچھ کر دیا اور اج تک وہ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی پہ اڑے ہوئے ہیں اور اِسی کے تسلسل میں آج بھی وہ سرخ گائے کے راکھ سے طہارت حاصل کریں گے اور ہیکل سلیمانی کی بنیادوں میں ڈالیں گے۔۔
اسرائیلی روایات میں اپنی جگہ جتنی بھی سچائی ہو مگر یہ تو ہمیں پتہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بشارتیں اپنی جگہ 100 فیصد صحیح ہیں کہ آخری زمانہ پھر مسلم امہ کے عروج کا زمانہ ہوگا۔ مسلم امہ سے مراد ہم خود کو نہ لیں ہم تو اپنی منافقتوں کے ساتھ اپنی تاریخ لکھ رہے ہیں ،یہ مسلمِ امہ شائد یورپ سے نکلے،یا عرب و عجم کے باعمل مسلمان جوان ہوں۔
اگر خدانخواستہ مسجد اقصی کو وہ مسمار کرتے ہیں جو زیونسٹ پروٹوکول کا حصہ ہے تو پھرآپ کیا سمجھتے ہیں کہ خود اہل عرب کے جوانوں کا ایمان جوش نہیں مارے گا؟؟
بہت ممکن ہے اہل عرب ہی ان کے لیے کافی ہو جائیں۔۔۔
اور دنیا بھر کے نو مسلم کھینچ کر ایک جگہ جمع ہو جائیں اورزیونسٹ پروٹوکول کو دیوار سے دے ماریں۔۔۔
کیونکہ غلبہ دین اسلام کی بشارتیں تو سچی ہیں۔۔۔
اب یہ سر انجام کس کے ہاتھوں ہوتی ہیں۔۔
اللہ کی مشئیت کے تحت کیا ہونے جا رہا ہے؟؟مستقبل کا احوال کوئی نہیں جانتا ۔۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ ہم اس وقت شدید ترین آزمائش سے دوچار ہیں خاص طور پر ہم پاکستانی، کیونکہ ہمارا ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ان حالات میں بھی قومی بیداری کی کوئی لہر نہیں۔۔
کم سے کم یہودی اپنی روایات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرخ گائے کا پرچار تو کر رہے ہیں ہم تو یہ تحریک بھی نہیں اٹھا رہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آخری زمانہ اسلام کا ہوگا۔۔۔
اب میری ناقص رائے میں ہماری انفرادی و قومی ذمہ داری کیا ہے؟؟؟

اس غلبے کے لیے تو ہم خود کوہر طرح سے تیار کریں۔۔

خلافت ہمارامنبع و مقصد ہو۔۔۔۔
غلبہ دین ہمارے نوجوانوں کا کیریئر ہو۔۔۔
اسلام اپنے مکمل اسپرٹ کے ساتھ ہمارے جسم میں خون کی طرح رواں دواں ہو۔۔۔
قرآنی آصول،منطق اور علم کو مکمل سمجھ بوجھ کر پڑھنا ,سمجھنا، زندگی کی تمام جہتوں میں باقاعدہ اپلائی کرنا اور اپنے لئے حقیقی مشعلِ راہ سمجھنا۔۔۔
ہر فرد قومی و انفرادی طور پر غیرت و حمیت کا پیکر ہو
سرکار نبی پاک ،اہلِ بیت و اصحاب کی محبت ہماری روح،
قرآن ہمارا دل،
اور۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس،علم و ریسرچ ہمارا دماغ ہو۔

Sarfaraz Zouq
About the Author: Sarfaraz Zouq Read More Articles by Sarfaraz Zouq: 6 Articles with 3037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.