“ برہمنوں کو یقین تھا کہ مسلمان جهوٹا قرآن نہیں اٹهاتا”

شورش کاشمیری مرحوم انگریز دور میں قید کے دوران کا ایک واقعہ تحریر کرتے ہیں۔
جب وہ اپنی دوران قید میں تھے کہ ایک دن اچانک ہماری بیرک میں دو ہندو برہمن نوجوان لائے گئے ان کی عمریں بهی کچھ زیاده نہیں تهیں، ایک 18 اور دوسرا 20 کے پیٹے میں ہوگا،
لیکن دونوں بے انتہاء خوبصورت، اتنے خوبصورت تهے کہ اودھ کی شام اور بنارس کی صبح میں گوندھے ہوئے معلوم ہوتے،
شاعری کہہ لیجیئے،،،،
کچھ دو ماہ کے قریب ہمارے ساتھ قید رہے،
ہندوستان چهوڑو دو "تحریک کے دنوں میں ایک فوجی گورے کو الہ آباد میں قتل کیا، کانپور کے قریب ریل کی پٹڑی اکهاڑی اور بهاگ کر پنجاب آگئے، یہاں لاہور میں پکڑے گئے، جیل حکام نے ان کے ساتھ وہی کیا جو ان کی فطرت بن چکا تها، پہلے دن زد وکوب کیا، پهر الٹا لٹکایا مشکیں باندھیں منہ میں پیشاب ڈالا،،،،،،
ان نوجوانوں نے جیسا کہ وه کہہ رہے تهے ہر بات سے انکار کیا ان کا ایک ہی جواب تها کہ ہم بےگناہ ہیں، ہمارا کسی سیاسی تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہم گهر سے بهاگ کر آئے ہیں،
آخر جب پولیس مار مار کر تهگ گئی تنگ آگئی تو،،،،، ایک دن سی آئی ڈی کے مسلمان انچارج سپرنٹنڈنٹ ان کے پاس گئے؛ پہلے دم دلاسا دیتے رہے، پهر پهسلانے لگے، ان نوجوانوں کی روایت (یعنی خواہش کے ) مطابق مسلمان افسر نے سر پر قرآن کریم اٹها کر کہا تم دونوں میرے بیٹے ہو، یقین کرو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، ہمارے پاس سرکاری اطلاع ہے کہ تم نے سیاسی واردات کی ہے صرف میری تسلی کے لیے بتاو کہ اس میں صداقت کہاں تک ہے؟،، وه دونوں ہندو برہمن نوجوان اس مسلمان افسر کی چکنی چپڑی باتوں اور قرآن شریف پر قسموں کے فریب میں آگئے، اور سب کچھ بتا دیا، وه اس روز سن سنا کر چلا گیا، اگلے دن آیا اور کہنے لگا فکر نہ کرو صبح تک چهوٹ جاو گے ، سرکار کو خط لکھ دیا ہے حکم آتے ہی رہا ہو جاو گے، ظاہر ہے دونوں فریب کا شکار ہوگئے تهے۔
لیکن ان بهولے بهالے برہمن نوجوانوں کو اپنے منہ بولے مسلمان باپ پر بهروسہ تها۔
ان ہندو برہمنوں کے ذہن میں یہ بات نقش تهی کہ مسلمان سبھی کچھ کرسکتا ہے لیکن " جهوٹا قرآن" کبهی نہیں اٹهاتا، وہ ہفتہ عشره میں رہائی کے منتظر تھے، ہفتہ بهی نہ گزرا تها کہ انہیں رہائی کے نام پر دفتر بلا کر بیڑیاں پہنا دی گئیں وه چیختے رہے کہ ہمیں رہائی کے لیے بلایا گیا ہے اور ہم سے وعدہ بهی کیا۔
خیر کون سنتا،کون سا وعدہ۔
انہیں یہاں سے لے جاتے وقت یہی کہا گیا کہ اپنے صوبہ میں رہا ہو جاو گے پنجاب گورنمنٹ تمہیں یہاں رکهنا نہیں چاہتی، پهر عرصہ تک پتہ نہ چلا کہ انہیں کہاں پہنچایا گیا اور ان پر کیا بیتی؟،،،
پهرایک دن اچانک ان دونوں کا خط ملا

بهائی شورش
ہم دونوں کل صبح پهانسی کے تختہ پر جا رہے ہیں۔
اس مسلمان باپ کو ہمارا سلام کہنا۔
جس نے قرآن شریف سر پر اٹها کر اپنے دو ہندو بیٹوں کو بچانے کا یقین دلایا تها، لیکن ہم اس کے دغا کا شکار ہو گئے مسلمان باپ نے کافر بیٹوں کو (قرآن شریف کا سہارہ دے کر )تختہ دار پر لٹکوادیا ہے
اور یہ خط ہمیں اس دن ملا جب انہیں پهانسی پائے ہوئے ہفتہ ہو چکا تھا اور اگر ان کی کوئی چتا جلائی گئی تهی تو اس کی آگ بھی اب ٹهنڈی ہو چکی تهی--------

(پس دیوارِ زنداں صفحہ 334
شورش کاشمیری رحمہ اللہ)

حالیہ 2024 کے الیکشن میں مختلف جماعت اور آزاد اُمیدواروں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے اپنی جماعتوں و حلقہ کے ووٹروں سے قرآن پر وعدہ کرکے پھر مُکر گئے اور دوسری جماعتوں میں شامل ہوگئے. یہ شرفا کس بے باقی سے جھوٹے قرآن اُٹھارہے ہیں. ان کو پتہ نہیں جھوٹا قرآن کی مار جب پڑتی ہے تو کیا ہوتا ہے تھوڑے مفاد کے لیے اپنے مسلمان کا جو چوغہ پہنا ہوا ہے وہ بڑے مفادات کے لیے یہ اپنا دین بھی بیچ سکتے ہیں. اللہ تعالی اس طرح کے لوگوں سے پاکستانی لوگوں کو بچا کر رکھے.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 284 Articles with 94064 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.