پاکستان کی سیاسی جماعتیں وفاق میں حکومت لینے سے کیوں خوفزدہ

پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں ہونے والے ملک گیر انتخاب کے %98 نتیجہ آنے کے باوجود مُلک کی تینوں بڑی جماعتیں وفاق میں حکومت بنانے میں وہ دلچسپی نہیں دیکھارہی جو یہ جماعتیں صوبائی حکومت بنانے کے لیے دن رات بیٹھک چل رہی ہیں. ملک میں ہونے والے انتخابات کو گزرے ہوئے ایک ہفتے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے لیکن پاکستان میں سیاسی بحران کا نہ ختم ہونے وآلہ سلسلہ ابھی تھم نے کے بجائے ہر روز بڑھتا چلا جارہا ہے.

ایک طرف مُلک کی اکثر سیاسی جماعتیں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ریلیاں و دھرنے ، جلسہ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہی ہیں تو دوسری جانب کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
جبکہ ملک میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کیے گئے حتمی اور غیر سرکاری نتائج کا اعلان بھی ہوگیا ہے. ان نتائج کے مطابق مسلم لیگ ن قومی اسمبلی کی 75 نشستوں پر کامیاب ہو پائی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے 54، ایم کیو ایم پاکستان کے 17 اور دیگر جماعتوں کے 25 امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
جبکہ اس الیکشن کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار 93 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ یعنی کسی بھی سیاسی جماعت کو بھی سادہ اکثریت حاصل نہیں کرپائی ہیں.
اس ڈرامائی صورتحال کے نتائج کے آنے کے بعد وہ تمام سیاسی جماعتیں آغاز میں تو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتی اتحاد بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی نظر آئیں لیکن پھر جس طرح کی اسمبلی میں ان جماعتوں کی پوزیشن واضع نظر آنے لگی اس ہی طرح یہ جماعتیں بھی پھر آہستہ آہستہ آگے کی صفوں سے اپنے آپ کو پیچھے دھکیلتی نظر آنے کو مل رہی ہیں . اور اپنے اعلان حکومت بنانے میں ہچکچاہٹ دیکھنے کو مل رہی ہے۔
جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے آٹھ فروری کو جب اپنے حلقے میں واقع پولنگ سٹیشن سے ووٹ ڈال کر باہر نکل رہے تھے تو انتخابات کے نتائج سے متعلق صحافی کے ایک سوال پر انھوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ ’جو بھی حکومت بنے بہلے سادہ اکثریت سے ہی بنے تو بہتر ہے۔‘ مگر ان کی ’خواہش‘ اس دفعہ پوری نہ ہو سکی اور انھوں نے انتخابات کے اگلے ہی روز پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، ایم کیو ایم اور آزاد اراکین کو مخلوط حکومت بنانے کی دعوت دی تھی۔
ادہر اگر صوبائی حکومتوں کی بات کی جائے تو مسلم لیگ ن پنجاب، پیپلز پارٹی سندھ اور پی ٹی آئی کے آزاد ارکان خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے لیے پر عزم نظر آتے ہیں مگر مرکز میں حکومت سازی کے حوالے سے اب تک سیاسی جماعتوں کے درمیان پاور شئیرنگ فارمولہ طے نہیں ہو پایا ہے۔
8 فروری الیکشن کے اگلے روز 9 فروری کو ن لیگ کے سربراہ نواز شریف کی جانب سے لاہور میں ایک تقریر میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ن لیگ وفاق میں حکومت بنانے کے لیے دیگر جماعتوں سے رابطے کریگی ، جبکہ حالیہ دن چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر شہباز شریف اور آصف زرداری سمیت دیگر جماعتوں کی سربراہان کی موجودگی میں وفاق میں مل کر حکومت بنانے کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔
اس ہی دوران بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے اس سے قبل ایک پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں یہ کہا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی قومی اسمبلی میں ن لیگ کے وزیرِ اعظم کے امیدوار کو ووٹ تو دے گی لیکن اس دفعہ کوئی پی پی کا اُمیدوار کابینہ کا حصہ نہیں بنے گا۔
جبکہ مولانا فضل الرحمن ( جمعیت علمائے اسلام ) نے اس دعوت کو مسترد کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کی جانب سے بھی تین روز قبل یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنا لیں گے اور بعدازاں ان کی جانب سے پنجاب اور مرکز میں وزیرِاعلیٰ اور وزیرِ اعظم کے ناموں کے لیے بھی امیدوار نامزد کر دیے گئے تھے۔ مگر اس کے لیے کوئی کوشیش نظر نہیں آرہی تھیں.
مگر گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے ایک رہنما بیرسٹر سیف نے قومی وطن پارٹی کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد اعلان کیا ہے کہ پی ٹی آئی نے وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس طرح کی کوئی واضع تصویر ابھی تک سامنے نظر نہیں آرہی ہے اور اس تمام تر صورتحال میں سیاسی و صحافتی حلقوں میں ہونے والی چہ میگوئیوں سے یہ تاثر سامنے دیکھتا نظر آرہا ہے جیسے مُلک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں مرکز میں حکومت بنانے سے گریزاں ہی نظر آرہی ہیں۔
اس ہی دوران مسلم لیگ ن کے چند سینیئر اراکین کی جانب سے حال ہی میں دیے جانے والے جذباتی بیانات نے اس تاثر کو مزید تقویت بخشی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کو کانٹوں کا یہ تاج اپنے سر پر سجانے کا کوئی شوق نہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ ’وفاقی حکومت کی تشکیل مسلم لیگ ن کی نہیں بلکہ پارلیمان میں موجود تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ موجودہ قومی اسمبلی میں کسی کو اکثریت حاصل نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین پہل کریں، پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مرکزی حکومت بنا لیں، ہم مبارکباد پیش کریں گے۔
اگر ان تینوں سیاسی جماعتوں نے اس پر حکومت بنانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو وہی 1977 والی صورتحال نہ بن جائے اور رات کے اگلے پہر میں الیکٹرونک میڈیا سے ایک آواز کی صدا پورے مُلک میں ایک ہی صدا گونجے.

میرے ہم وطنو

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81191 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.