کیا 5500 سال پہلے ایک قوم کو ایٹمی تابکاری کے ذریعے عذاب دیا گیا تھا؟

کیا ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے فنا ہونے والی ایک قوم کو ایٹمی تابکاری کے ذریعے عذاب دیا گیا تھا؟؟؟

تقریبا" ساڑھے پانچ ہزر سال پہلے کی بات ھے ۔ ایک بہت ہی زبردست قوم ہوا کرتی تھی ۔ وہ لوگ سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقیوں کی معراج پر تھی ۔ وہ لوگ پہاڑوں کو اس خوبصورت طریقے سے تراش کر مضبوط ترین محلات اور تعمیرات کیا کرتے تھے کہ آج کی سائنس ان کی عقل دانش پر اش اش کر اٹھے ۔ وہ لوگ اس قدر زہین اور ماہرین تعمیرات تھے کہ اللہ کے مقابلے (نعوذ باللہ) میں جنت بنا دیا کرتے تھے ۔ وہ انتہائی طاقتور قدآور اور جینیئس تھے ۔ اپنی انہی خصوصیات کی وجہ سے وہ اس دور کی سپر پاور کہلاتے تھے۔

اپنی ترقی تعمیرات اور خصوصیات کی وجہ سے سرکش ہوتے چلے گئے ۔ وہ خدائے وحدہ لاشریک کے وجود سے منکر ہوگئے تھے ۔ انبیاء ان کو ہدایت کی بات سمجھاتے تو وہ ان کا مذاق اڑاتے اذیتیں پہنچاتے ، اپنی بستیوں سے تشدد کرکے نکال دیا کرتے ۔

وہ خطہ بہت سر سبز وشاداب تھا۔ لیکن جب ان پر عذاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو ان کے ہاں بارشیں روک دی گئیں لیکن وہ پھر بھی باز نہ آئے ۔ ان کے ہاں بارشوں اور بادلوں نے اپنے رب کے حکم سے بالکل رخ پھیر لیا جس کی وجہ سے وہاں قحط سالی والی صورتحال پیدا ھوچلی تھی ۔ پھر ایک روز انتہائی عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا۔

انہوں ایک روز آسمان پر اٹھنے والے ایک دھوئیں کے بادل کو دیکھا جو تیزی سے ان کی طرف بڑھ رہا تھا اس بادل کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور سمجھے کہ ان کی قحط سالی ختم ہوگئی ہے یہ بادل خوب برسے گا اور ایک بار پھر ان کے ہاں ہر طرف ہریالی اور سبزے کا دور دورہ ہو جائے گا۔ لیکن یہ بادل قہر برسانے والا تھا ۔ یہ وہ بادل نہیں تھا بلکہ اس بادل نے سوائے ان کے مضبوط مکانات محلات کے کچھ بھی نہیں چھوڑا تھا۔
قرآن پٌاک میں اس واقعہ کا ذکر کچھ اس طرح ملتا ھے ۔

فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِيَــتِهِمْ ۙ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَا ۭ بَلْ هُوَ مَا اسْـتَعْــجَلْتُمْ بِهٖ ۭرِيْحٌ فِيْهَا عَذَابٌ اَلِيْمٌ 24؀ۙ

تُدَمِّرُ كُلَّ شَيْءٍۢ بِاَمْرِ رَبِّهَا فَاَصْبَحُوْا لَا يُرٰٓى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْ ۭ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ 25؀

پھر جب انہوں نے اسے دیکھا کہ وہ ایک ابر ہے جو ان کے میدانوں کی طرف بڑھا چلا آ رہا ہے، کہنے لگے کہ یہ تو ابر ہے جو ہم پر برسے گا، (نہیں) بلکہ یہ وہی ہے جسے تم جلدی چاہتے تھے یعنی آندھی جس میں دردناک عذاب ہے۔ وہ اپنے رب کے حکم سے ہر ایک چیز کو برباد کر دے گی پس وہ صبح کو ایسے ہو گئے کہ سوائے ان کے گھروں کے کچھ نظر نہ آتا تھا، ہم اسی طرح مجرم لوگوں کو سزا دیا کرتے ہیں۔ 24/25 سورہ احقاف
وہ ایک ایسی تندوتیز اور تابکاری اثرات والی ھوا تھی جس نے ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی اس خطہ زمین کو آباد نہیں ھونے دیا تھا۔ وہاں پر کسی نباتات اور ہریالی کو نہ تو چھوڑا تھا اور نہ ہی کسی کو سلامت رھنے دیا تھا۔ وہ ہوا جہاں جہاں سے گزرتی انسانوں کے جسموں سے گوشت کو اتار کر اسے صرف ہڈیوں کا پنجر رھنے دیتی (ایٹمی حملے کی طرح انسانوں کے جسموں کا گوشت پگھل کر بھاپ میں تبدیل ہوگیا۔ )۔۔ وہ ھوا ایسی بانجھ کر دینے والی تھی جیسے تابکاری کسی جگہ کی زمین کے اندر تک اثر کرکے اس کو بانجھ کر دیتی ھے کسی چیز کو پیدا نہیں ھونے دیتی ۔

اللہ تعالی قرآن حکیم میں ارشاد فرماتا ہے ۔

وَفِيْ عَادٍ اِذْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الرِّيْحَ الْعَقِيْمَ 41؀ۚ
اور (تمہاریی لیے نشانی ہے) عاد میں ، جبکہ ہم نے ان پر ایک ایسی بے خیر ہوا (بانجھ ہوا)بھیج دی۔(41)

مَا تَذَرُ مِنْ شَيْءٍ اَتَتْ عَلَيْهِ اِلَّا جَعَلَتْهُ كَالرَّمِيْمِ 42؀ۭ

وہ جس چیز پر سے گزرتی اسے بوسیدہ ہڈیوں کی طرح کئے بغیر نہ چھوڑتی ۔ الذاریات 41/42

اس تابکاری نما ھوا نے ان کے جسموں کو گوشت کے بغیر بوسیدہ ہڈیوں جیسا بنا دیا۔ سب کچھ مٹ گیا۔ نہ نخلستان رھے نہ خوشنما باغات نہ سبزہ ۔ ھر طرف اڑتی ریت اور انسانی ڈھانچے رہ گئے ۔ یہ پورا خطہ خالی ہوگیا۔ آج بھی یہاں دور دور تک صرف ریت اڑتی نظر آتی ھے ۔ آج کے زمانے میں اس خطے کو ربع خالی کے نام سے ہی پکارا جاتا ھے ۔
چار ہزار سال گزر گئے ۔۔

ایک روز اسی علاقے سے دنیا کے بہترین انسانوں کا ایک لشکر گزرا جس کی قیادت کائنات کے سب سے بہترین انسان کر رھے تھے۔ لشکر ایک طویل مسافت طے کرکے آ رھا تھا۔ اھل لشکر نے اس خطے میں کچھ کھنڈرات دیکھے تو وھاں کچھ دیر رک کر آرام کرنے اور کھانے پینے کا ارادہ کیا۔ وہیں ایک کنواں بھی موجود تھا۔ اھل لشکر نے کنوئیں سے پانی لیا وھاں کچھ خشک لکڑیاں اکٹھی کی اور ان کو جلا کر روٹی اور سالن تیار کرنے لگے۔

جب دوجہاں کے سردارﷺ اور لشکر کے قائد کو اس بارے معلوم ھوا تو آپ ﷺ نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ کنوئیں سے نکالا ھوا پانی ، پکائی ھوئی روٹیاں اور تیارشدہ سالن کو ضائع کر دو اور اس میں سے کچھ بھی نہ کھاؤ اور نہ ہی پیو ۔۔ جتنی جلدی ھوسکے یہاں سے آگے نکل جاؤ ورنہ تم سب پر بھی بلا آ سکتی ھے ۔ یہاں پر ایک قوم کو عذاب دیا گیا تھا۔ یہاں کی کسی چیز کو مت استعمال کرنا۔

یہ کھانا جو ایک بڑے لشکر کے لئے تیار کیا گیا تھا۔ بہت بڑی مقدار میں تھا۔ لیکن آپ ﷺ کے حکم پر سارے کا سارا ضائع کر دیا گیا۔

یہ آپ ﷺ کا علم جو اللہ نے عطا کیا تھا کہ آپ ﷺ نے اس جگہ پر نہ نظر آنے والی وبا یا بلا کا پتہ لگا لیا تھا جو انسانوں کے لئے مہلک تھی ۔

قران پاک میں اس ھوا کے لئے لفظ ریح العقیم استعمال کیا گیا ھے۔ ریح کا مطلب ھوا اور عقیم بانجھ عورت مرد یا زمین کو کہا جاتا ھے ۔

علماء ا کرام اس لفظ بانجھ ھوا کے معنی عرصہ دراز تک تلاش کرتے رھے لیکن ایسی بانجھ ھوا کے بارے میں نہ جان سکے جو اتنی ہلاکت خیز تھی کہ جسم سے گوشت پگھلا کر ھڈیوں کو بوسیدہ کر دے اور اس جگہ پر موجود ھر چیز کوایسا بانجھ کردے کہ وہاں ھزاروں سال بعد بھی کوئی چیز کچھ نہ پیدا کر سکے ۔ موجودہ دور میں جب ایٹمی تجربات اور ان کی نابکاری کے بارے جاننے کے بعد خیال اس طرف جاتا ھے اور قران پاک کی ان آیات کے مفہوم واضح ھونے لگے ۔ ایک ایسا بادل جو نہایت برق رفتاری سے بڑھتا ھے۔۔ اور پھر آناً فاناً تباہی مچا دیتا ھے۔۔ کسی کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ پھر اس کے بعد ایک ایسی بانجھ ھوا جو سب کچھ ختم کرکے ہزاروں سال تک وہاں کچھ پیدا نہیں ھونے دیتی ۔۔

اللہ پاک ھم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور اپنے حبیب ﷺ کے صدقے کسی بھی ایسی پکڑ سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.