“ فروری 2024 کے الیکشن عوام کی روزمرہ زندگی پر کوئی اثر ڈالیں گے”

جیسے جیسے پاکستان میں الیکشن قریب سے قریب تر آرہے ہیں. پاکستانی عوام اور خاص کر نوجوانوں میں مایوسی اور بڑھتی جارہی ہے. پاکستانی شباب کی آدھی اکثریت تو یہی کہتی ہے کہ ان انتخابات سے عام عوام کی زندگی پر کوئی اثر نہی پڑنے والا ہوسکتا ہے ان نوجوانوں کی اکثریت اپنے محبوب قائد پی ٹی آئی کے بانی کی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اور پھر ان کے قائد کو دو عدالتوں سے سزا پر مایوس اور دل گرفتہ ہوں کیونکہ سزا سنانے کے بعد بانی پی ٹی الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے.

پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں نوجوانوں کی ان الیکشن کے بعد ان کی مایوسی بجا ہے کیونکہ دوسری جماعتوں جن میں مسلم لیگ ( ن ) کی حالیہ ڈیڑھ سال سے زائد حکومت میں ان کی پورے پاکستان میں کارگردگی بہت مایوس ترین رہی عوام کو دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑگئے اور اس کے بعد اگر پیپلز پارٹی کی کارگردگی جس نے سندھ میں مسلسل 15 سال اور ٹوٹل 35 سال سے سندھ میں حکمرانی کرتی آرہی ہے. اس کی کارگردگی شہر کراچی و حیدرآباد کی حالت سے تو پورا پاکستان واقف ہے مگر اس کی کارگردگی اندرون سندھ کی حالت تو بہت ہی ناگفتہ ہے. ان جماعتوں کے زیر اثر علاقوں میں بھی بالترتیب پنجاب اور سندھ میں نوجوان بھی آئندہ انتخابات کے نتائج کے بعد اپنی زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھتے۔ ان علاقوں کے رہائشی رائے دہندگان کی یہ رائے آئندہ آنے والی ان دونوں جماعتوں سے اُمید کی آس لگانا اپنے آپ کو بےوقوف بنانا ہے.اس وقت پاکستان میں اس طرح کی جمہوریت پر عوام کا اعتماد پہلے سے زیادہ متزلزل ہے۔

اس وقت پاکستان کے نیوز چینل اور انٹرنیشنل نیوز چینل اپنے پروگرام میں اس ہی طرح کا اظہار کررہے ہیں کہ آٹھ فروری کا انتخاب شفاف و غیرمنصافانہ قطعی نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی انکا اداروں ، عدلیہ، سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ پر بھی ان کا اعتماد اب نہیں رہا ہے۔ اس طرح کی پاکستان میں سیاسی حالات میں یہ رائے صیح لگتی ہے کہ لوگوں کو انتخابات کے بعد بھی اپنے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ جب سے پرائیوٹ نیوز چینل اور سوشل میڈیا کہ آنے ماضی میں تو انتخابات میں پہلے مداخلت در پردہ ہوتی تھی لیکن اب براہِ راست عوام کو نظر آ رہی ہے۔ ایسی صورت میں یہ دیکھنا ہوگا کہ آئندہ کی حکومت میں کس طرح ایسا سیاسی نظم و نسق قائم ہو سکتا ہے جو مستحکم و پائیدا بھی ہو اور جس پر پاکستانی عوام کو اعتبار بھی ہو۔

اکثر ہمارے کچھ سیاسی جماعتوں کے اکابرین عوام کو یہ اُمید دلاتے ہیں کہ الیکشن سے سیاسی استحکام آئے گا اور اس سے عام لوگوں کی زندگی پر کوئی فرق پڑے گا، وہ دراصل مغربی جمہوریت کو دیکھتے ہوئے یہ رائے دیتے ہیں۔ جبکہ مغرب میں سیاسی جماعتیں اپنا اپنا منشور عوام میں پیش کرتی ہیں جن میں ان کا اقتصادی پروگرام ہوتا ہے اور اسی پروگرام پر انہیں ووٹ ملتا ہے۔ اس پروگرام پر عمل درآمد سے کسی طبقے کو ریلیف ملتا ہے اور کسی پر بوجھ بڑھتا ہے۔

جبکہ ہمارے یہاں کی سیاسی جماعتیں کوئی اپنا 1973 کا آئین کا ڈھنڈورا تو کوئی اپنا موٹر وے کا واویلہ تو کوئی تبدیلی کی چنگاڑ وغیرہ وغیرہ اپنے جلسوں و ریلیوں میں اس ہی طرح کا بھجن سنارہے ہوتے ہیں.

اگر پاکستان میں ان سیاسی جماعتوں کے منشور کا مشاہدہ کریں تو وہ منشور سے زیادہ ان کی ’وش لسٹ‘ یا ان کی خواہشات کی غزل کا کوئی دیوان لگتا ہے جس میں ہمارے سیاسی اکابرین چھنگاڑتے ہیں کہ اتنے لاکھ نوکریاں دے دیں گے یا اتنے گھر بنا دیں گے، مہنگائی بے روزگاری کم کر دیں گے اور ٹیکس ختم کر دیں گے۔ بچوں کو مفت تعلیم دیں گے، گھر گھر صحت دینے کے لیے عوام کو مُفت سہولت وغیرہ وغیرہ جب ایسی خواہشات اور وعدوں سے عام آدمی کے حالات پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

جبکہ مغرب اور ہمارے پڑوسی مُلک چین و مڈل ایسٹ کے حکمران اپنے عام شہریوں کو درپیش معاشی مشکلات کا اندازہ لگانے کے لیے ’اکنامک مزری انڈیکس‘ بنایا جاتا ہے۔ معاشی پریشانیوں کا یہ انڈیکس امریکی ماہرِ معیشت آرتھر آکن نے بنایا تھا جس کے مطابق جب بھی کسی مُلک میں بے روزگاری اور مہنگائی بڑھتی ہے جس کی وجہ سے غربت میں اضافہ بڑھتا ہے اور عام شہریوں کے معاشی حالات کے لیے انہی دو اشاریوں کو دیکھا جاتا ہے۔

اس وقت بھی پاکستان میں مہنگائی اور بے روزگاری کی صورتِ حال میں بہتری نہیں آئی ہے۔ اور حکومت اپنی کامیابی کا چشن تو منانے میں کوئی وار نہیں جبکہ عام آدمی ان دو چیزوں سے ہی متاثر ہوتا ہے اور یہ دونوں ہی ابتری کا شکار ہیں۔

پاکستان کے ان ہی سیاسی ، معاشی یا داخلی اور خارجی حالات کی وجہ سے اگر 50 فیصد نوجوان انتخابات کو اپنی روز مرہ زندگی کے لیے غیر مؤثر سمجھتے ہیں تو یہ ایک خطرناک رجحان پاکستان میں ہر الیکشن میں بہت تیزی سے بزھ رہا ہے جس کا اثر ٹرن آؤٹ پر بھی آتا ہے.

ہمارے مُلک کی پاکستانی عوام کی اکثریتی نوجوانوں کا یہ ہی کہنا تھا کہ انتخابات کے نتائج اسی صورت میں کسی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں جب یہ شفاف ہوں اور منتخب ہونے والے نمائندوں کو اپنے منشور کے مطابق کام کرنے دیا جائے۔

اب بھی ہماریے مُلک کے حکمرانوں نے اگر غلط فیصلے کیے گئے تو انتخابی نتائج ان کی روز مرہ زندگی پر منفی اثر مرتب کریں گے۔

جب کہ انتخابی نتائج اسی وقت مؤثر ہوں گے جب نئی حکومت اپنی ذمے داریاں بخوبی انجام دے گی اور غریبوں کی مشکلات کا احساس کرے گی تو یہ ملک پھر صیح ٹریک ہر آئیگا.

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 187 Articles with 81241 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.