جیسے قوم،ویسے حاکم

عبد الصمد مشوری

اﷲ تعالیٰ نے ہمیں ایک عظیم ملک عطا کیا ہے۔جس کا نام ہے "پاکستان"اور اُس کا مطلب ہی ہے کہ "خدا ایک ہے" اور خدا کی صفتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کے خدا سب سے بڑا حاکم ہے جس کی حکومت اس ساری زمین و آسماں کی مخلوقات پے ہے۔اور اُس حاکم نے ہمیں دنيا کی ہر نعمت ہر موسم اور دنیا کے ہر اشائش سے نوازا مگر ہمارے کُچھ لالچی حکمرانوں نے اس کے بھی ٹکڑے کروا دیئے۔پھل فروٹ، ادویات، خوراک، سبزی دودھ سمیت ہر چیز میں ملاوٹ دھوکہ لوٹ کھسوٹ شامل ہیں۔مسلم ممالک تو پھر مسلمان ملک ہیں۔غیر مسلم ملکوں نے بھی اپنے مسلم شہریوں کو ﷲ کے گھر عمرہ و حج کے لئے خصوصی پروگرام بنا کر دیئے تاکہ غیر مسلم ممالک کے شہری بھی عمرہ و حج آسانی سے سستا ادا کر سکیں مگر پاکستان کے لوگ پائی پائی جوڑ کر برسوں اس سفر کے لیے رقم جمع کرتے ہیں لیکن ملکی کرنسی کی قدر میں کمی اور مہنگائی کی وجہ سے ہر برس اس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

شکر الحمد ﷲ نماز، روزے، عمرے، حج سمیت صدقہ خیرات زکوٰۃ سب کچھ پاکستانی باشعور عوام دل جمعی سے ادا کرتے ہیں۔مگر پھر بھی دونمبری کیوں کرتی جا رہی ہے ہمارے حکومت؟بچوں کی ٹوفی سے لیکر بوڑھوں کی لونگی تک دونمبری۔مطلب کے کسی کی جاں جائے یا کسی کی عزت کسے کوئی پرواہ نئی۔اس اس مسلمان کو اس جگہ تک پہچانے میں سارا ہاتھ حکومت کا ہے.اگر حکمراں اچھے ہوتے تو یوں نہ عوام کو ذلیل ہونا پڑتا۔ ایک قوم اپنے حاکم سے پہچانی جاتے ہے۔اور قوم حاکم کی حاکمیت کا اہینا ہوتا ہے۔

پتا نہیں اس قوم کا کیا مستقبل ہوگا جو ایک ہے غلطی بار بار کرتے ہے۔پھر بھی ان لوگوں کا انتخاب کرتی ہے جو انکو رسوائی، بےبسی، مجبوری، اور اپنی غلطی کا بار بار احساس دلاتے ہے کے اپنے ہمیں چن کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔پاکستان کی عوام کو سمجھدار کا لقب دے کر پاگل بنایا جاتا ہے۔ہر پانچ سال کے بعد کوئی بھی ووٹ مانگنے والا آکر یہی کہتا ہے کہ"آپ سمجھدار ہے! گزشتہ سال کُچھ حالات ٹھیک نہیں تھے، ہماری حکومت کے پاس کُچھ تھا ہی نہیں، اس لیے ہمیں کُچھ ملا ہی نہیں ہمارے پاس آپکو دینے کے لیے کُچھ نہیں تھا"مگر 30%بیوقوف تو یہ پاکستان کی عوام ہے جو ووٹ مانگنے والے کو چارپائی یا پھر کسی اچھی کُرسی پے بیٹھا کر اُن کی اسی خدمات کو سرانجام دیتے ہیں جیسے کے اُنہونے آکسیجن پروڈیوس کر کے دے ہے۔میں تو اس بات کو لکے پریشان ہوگیا ہوں کہ جو کل تک عوام کا مذاق اڑاتے رہے آج وہی لوگ اُسے عوام کے سامنے اُمید کے آس لگائے بیٹھے ہیں۔اور کل تک جو عوام سرکار کو بدعائیں دے رہیں تھی آج وہی عوام اُس سرکار کے امد پے پھول نچھاور کر رہی ہیں۔ ایسے صورتحل میں، ایسے شرم کے مقام میں، ایسے حالات میں کیا کِیا جائے؟کونسے سمندر میں ڈوبا جائے یا کونسے پہاڑ سے سر پھوڑا جائے؟مگر ایک بات تو ہے نا کہ "جیسے قوم ہوتی ہے اُسے حاکم بھی ویسا ہی ملتا ہے"۔

جو اسلام نے ہم مسلمانوں کو سمجھائی بتائی ہے کہ ﷲ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کر سکتا ہے مگر جو حقوق العباد (مطلب کہ انسانوں کے حق انسانوں پے)ہے وہ نہیں۔کیونکہ و انسان کے دوسرے انسانوں پر ہیں۔

جس دن ہمارے پاکستان کے سیاستدانوں ، جرنیلوں، ججوں بیوروکریٹس سمیت تمام سیاہ و سفید کے مالک حکمرانوں کو یہ بات سمجھ آگئی کے انسانوں سے خدا کتنی محبت کرتا ہے۔اس دن حج کا سرکاری کوٹہ ختم کر دیا جائے گا۔ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ عبادات کا مطلب’’ﷲ تعالیٰ اور نبی کریم ؐ کی خوشنودی ہے‘‘ جو جو لوگ بھی سرکاری خرچہ پر عمرہ و حج کی سعادت حاصل کرتے ہیں ان کو ملک پاکستان میں سسکتے تڑپنتے بھوکے پیاسے خودکشیاں و جسم فروشیاں کرتی عوام کیوں یاد نہیں؟ﷲ معاف کرے اگر عوام درد بھوک افلاس سے مر رہی ہو اور حکمران طبقہ عمرہ و حج ادا کر رہا ہو تو یہ عبادت نہیں خود کو کامیاب سمجھ کر سیر سپارٹہ ہے۔

Abdul Samad
About the Author: Abdul Samad Read More Articles by Abdul Samad: 2 Articles with 99 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.