چین کا ابھرتی ہوئی منڈیوں کے ساتھ تعاون

ابھی حال ہی میں یکم جنوری سے سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات، ایران اور ایتھوپیا کی برکس رکنیت کا باضابطہ طور اطلاق ہوچکا ہے۔جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں 15 ویں برکس سربراہ اجلاس کے بعد اگست 2023 میں ان ممالک کو اس گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔بنیادی طور پر برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل برکس، ابھرتی ہوئی مارکیٹوں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان تعاون کے لئے ایک اہم پلیٹ فارم ہے، جسے حالیہ برسوں میں رکنیت کی متعدد درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

اس توسیع کے بعد یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ ترقی کے لئے ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان یکجہتی اور تعاون کا ایک نیا باب رقم کرنے کے لئے مل کر کام کیا جائے گا۔برکس کی توسیع تاریخی ہے اور برکس تعاون کے لئے ایک نیا نقطہ آغاز ہے۔اس سے برکس تعاون کے طریقہ کار میں نئی روح پھونکی جائے گی اور عالمی امن اور ترقی کے لئے قوتوں کو مزید تقویت ملے گی۔برکس کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے چین کا ماننا ہے کہ جب تک برکس ممالک ایک ساتھ رہتے ہیں، برکس تعاون کے ذریعے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے اور ایک امید افزا مستقبل رکن ممالک کا منتظر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ برکس گروپ میں شمولیت ترقی پذیر دنیا کے ممالک کے لئے ایک پرکشش ہدف بن چکا ہے۔برکس میں توسیع برکس ممالک کے دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ اتحاد اور تعاون کرنے کے عزم کی عکاسی کرتی ہے، بین الاقوامی برادری کی توقعات پر پورا اترتی ہے اور ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے مشترکہ مفادات کی تکمیل کرتی ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ برکس شراکت داری کی تعمیر میں دوسرے ممالک کے مفادات کو قدر کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے۔برکس نے ایک ایسی دنیا قائم کرنے کی کوششوں میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے جو منصفانہ، جامع اور خوشحال ہو۔ساتھ ساتھ برکس میں شامل ہونے کے لئے دوسرے ممالک کی دلچسپی ظاہر کرتی ہے کہ ایک نئے عالمی اقتصادی نظام کی جستجو کس قدر اہم ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بین الاقوامی منظر نامے میں ہلچل کے باوجود ، برکس ، جس کا عالمی آبادی میں شیئر 40 فیصد سے زائد اور عالمی معیشت میں ایک چوتھائی حصہ ہے ، نے تعاون میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں ، مشترکہ ترقی کو فروغ دینے اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کی ہے ، جس میں شمال اور جنوب کے مابین بڑھتے ہوئے معاشی فرق ، موسمیاتی تبدیلی اور ڈیجیٹل گورننس شامل ہیں۔برکس کے قائم کردہ نیو ڈیولپمنٹ بینک (این ڈی بی)، جس کا صدر دفتر شنگھائی میں ہے، اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے 2030 کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے ابھرتی ہوئی معیشتوں کو درپیش بنیادی ڈھانچے اور ترقیاتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے گروپ کی کوششوں کی ایک عمدہ جھلک پیش کرتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک کی جانب سے شروع کیے گئے پہلے عالمی کثیر الجہتی مالیاتی ادارے کی حیثیت سے این ڈی بی نے 33 ارب ڈالر سے زائد کی مجموعی مالیت کے 98 منصوبوں کی منظوری دی ہے جو ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر معیشتوں میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پائیدار ترقی کے لیے مضبوط ضمانت فراہم کرتے ہیں اور عالمی ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں۔ بینک کے تقریباً 40 فیصد منصوبے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور موافقت پر مرکوز ہیں۔ڈیجیٹل شعبے میں گروپ نے برکس ڈیجیٹل اکانومی پارٹنرشپ فریم ورک تیار کیا ہے جس میں ڈیجیٹل معیشت میں برکس ممبران کی مشترکات اور تکمیل پر زور دیا گیا ہے۔

یہ بھی ماننا پڑے گا کہ چین برکس گروپ میں ایک اہم سرمایہ کار اور تجارتی شراکت دار ہے۔ برکس کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ چین کی درآمدات اور برآمدات سالانہ 330 ارب ڈالر سےزائد ہو چکی ہیں۔ چین نے ویسے بھی سبز ترقی، نئی قسم کی صنعت کاری اور ڈیجیٹل معیشت کو ترجیح دے کر جدت طرازی کی طاقت کو بھی فروغ دیا ہے اور ساتھ ہی اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دینے کے لیے نئے صنعتی انقلاب پر شراکت داری کو آگے بڑھایا ہے جس سے برکس ممالک کے لیے بھی نئے ترقیاتی امکانات سامنے آئے ہیں۔ چین کی یہ تمام کوششیں برکس سمیت دیگر ترقی پزیر ممالک کے بہتر مستقبل لیے چین کے خلوص اور عزم کو ظاہر کرتی ہیں۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1139 Articles with 432238 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More