امت مسلمہ کا مجرم کون

طاقتور لوگ برادریاں خاندان اور قبیلے حد تک کے ریاست اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا انتقام ضرور لیتی ہیں اپنے مجرم کو ڈھونڈ نکالتی ہیں اور اسے قانون کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتی ہیں یہی حال طاقتور قوموں کا بھی جو اپنے مجرموں کو ساتھ سمندر پار تک پیچھا کرتی ہے انہیں ڈھونڈ نکالتی اور کیفر کردار تک پہنچاتی ہیں ۔لیکن میرا دکھ اس امت مرحوم کا دکھ ہے یہ امت جس کے بارے میں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جسد واحد ہے اگر اس کے ایک عضو کو تکلیف ہوگی تو پورا جسم درد محسوس کرے گا (مفہوم حدیث) آج اس کی پہچان گم ہو چکی ہے اگر امت زندہ ہوتی تو اپنے حکمرانوں کو امت مسلمہ کے ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا کرتی اور پوچھتی کہ کیسے ہمارے کلمہ پڑھنے والے فلسطین مسلمانوں کی مدد کے لیے افواج کو کیوں نہیں بھیج رہے۔

کیوں خاموش ہیں امریکہ اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے اور اسرائیلی مسلسل غزہ پر حملے کر رہا ہے مسلمانوں کی ہستی بستی آبادیوں پر بم برسا رہا ہے اور مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے یہ مسئلہ تو کئی سال پہلے سے شروع تھا اسرائیل فلسطین کے مسلمانوں پر ظلم کر رہا تھا اور باقی مسلم ممالک خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے تھے سوائے چند ایک کی لیکن 17 اکتوبر 2023 کو ہفتے کے روز حماس نے اسرائیل پر طوفان اقصی کے نام سے جو حملہ کیا اس نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ فلسطین دفن نہیں ہوا بلکہ آج بھی زندہ ہے اس حملے سے اسرائیل اور اس کے سرپرست ہل کر رہ گئے اگر حماس کے پاس اسرائیل کے مقابلے میں 10 فیصد بھی اسلحہ ہوتا تو آج اسرائیل قصہ پارینہ بن چکا ہوتا ۔اسرائیل نے حماس کے حملے کے جواب میں کئی راکٹ فلسطین پر برسائے اسرائیل کی تباہ کن بمباری سے نہ کوئی گھر محفوظ رہا اور نہ ہی کوئی ہسپتال.

سینکڑوں معصوم بچے ایسےجن کو دوائی اور علاج کی سخت ضرورت ہے مگر ان کوکوئی ضروری سہولت بھی حاصل نہیں ہے اگر غیر مسلم آبادی میں کوئی ایک بچہ بھی اس صورتحال سے دوچار ہوتا تو طوفان آ جاتا مگر ان بےچاروں کے مصائب اور قتل عام پر مغربی دنیا کے حکمران تو جشن منا رہے ہیں اور جبکہ مسلم حکمران تو اپنی آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہوئے ۔ افسوس ہوتا ہے کہ جب روزانہ نیوز پر فلسطینیوں کی شہادت کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور ہم سن کر باتیں کر کے افسوس کا اظہار کر کے بس خاموش ہو جاتے ہیں میں نے یہ بات ہمیشہ سے اپنے بڑوں سے سنیں ہیں جیسے قوم کے اعمال ہوتے ہیں ویسے ہی ان کو حکمران ملتے ہیں۔

لیکن یہاں اعمال کا تو پتہ نہیں لیکن ہم پاکستانی قوم بزدل ضرور ہے تبھی ہمیں بزدل حکمران ملیں جب قوم کے دل ہی یہ منظر دیکھ کر نہیں دہیلتے تو حکمران کے دل کیا دہلیں گے ہماری قوم ایسی ہے چند پیسوں اورکھانوں کے لیے ایسے حکمرانوں کے جلسے میں چلی جاتی ہے جن کو صبح شام برا بھلا کہہ رہی ہوتی ہے جو قوم ایک دن بھی بھوک برداشت نہیں کرسکتی تو وہ کیسے ان فلسطینی مسلمانوں کے لیے آواز اُٹھائے گی ۔چند لوگوں اور جماعت کے علاوہ کوئی فلسطین کے لیے آواز نہیں اٹھا رہا ہم تو اپنے ملک میں ہونے والے ظلم نہیں روک پا رہے تو فلسطین اور کشمیر جیسے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کے لیے کیا کا کیا آواز اٹھائیں گے.

اگر ہمیں بہادر قومیں دیکھنی ہے تو کشمیریوں اور فلسطینیوں کو دیکھو جو آج تک لڑ رہے ہیں بنا ڈر کے کئی سال بیت گئے ہیں ہزاروں اہل ایمان مہلک اسلحے کے اندھا دھن بمباری سے جام شہادت نوش فرماتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں مگر ان کی آہ و پکار سننے والا کوئی نہیں ہے اسرائیلیوں کے چند سو لوگ جن میں سے کچھ فوجی بھی تھے مارے گئے تو ہر جانب چیخ و پکار اور رونا دھونا پوری دنیا نے سنا اسرائیل میں ہی نہیں وائٹ ہاؤس میں بھی یہی منظر تھا اور آج فلسطین کے 9 ہزار سے زائد مسلمان بچوں عورتوں اور مردوں کو شہید کر دیا گیا ہے اور یہ کسی کو نظر نہیں آرہا۔

غیروں سے تو آس لگانا بیکار ہے یہاں تو اپنے ہی مسلمان بے حس ہو کر بیٹھے ہیں۔ مسلمان کبھی غیروں کے ہاتھوں تباہ نہیں ہوا ان کو ہمیشہ منہ توڑ جواب ملا ہے۔ مسلمان جب بھی برباد ہوا ہے ہمیشہ اپنوں کے ہاتھوں ہوا ہے ۔ مسلمہ امت کا مجرم خود مسلم ہے اس کو غیروں کی ضرورت نہیں ہے۔

tooba ashraf
About the Author: tooba ashraf Read More Articles by tooba ashraf: 3 Articles with 736 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.