لڑا دے ممولے کو شہباز سے

طنطورہ: بحیرہ روم کے ساحل پر فلسطین کا ایک خوبصورت، زرخیز اور ہنستا بستا گاؤں جس پر اسرائیل نے بدترین وحشیانہ مظالم کر کے 1948 میں قبضہ کیا۔

موشے دایان نے چلڈرن کلب کی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ تاحد نگاہ پھیلے بحیرہ روم کے نیلے پانیوں پر سورج غروب ہو رہا تھا۔ "تل ابیب کی بندرگاہ! دنیا کی جدید، مصروف اور بارونق بندرگاہوں میں سرفہرست.... مجھے اپنے اسرائیلی ہونے پر فخر ہے۔" وہ خوشی سے مسکرایا "اور صبح چھٹی بھی تو ہے۔" وہ گنگنایا۔ پارکنگ لاٹ میں اس کے گرینڈ فادر کی چمکتی دمکتی کار کھڑی تھی۔ وہ اس لیے بھی بہت پرجوش تھا کہ اس کے گرینڈ فادر نے ان کے ساتھ چھٹی گزارنے کا فیصلہ بھی کیا تھا اور اب اسے چلڈرن کلب بھی لائے تھے۔ وہ خود اس وقت بیچ ریزورٹ پر انجوائے کر رہے تھے۔ "گھر واپسی کا وقت ہو گیا۔" وہ اچھلتا کودتا کلب سے باہر آیا تو گرینڈ فادر کے ساتھ انہی کی عمر کا ایک اجنبی کھڑا تھا۔
"موشے! ان سے ملو، یہ ہیں مسٹر ڈایامونٹ، میرے ایک دیرینہ دوست آج کئی سالوں بعد یہاں ان سے اچانک ملاقات ہو گئی۔ یہ ہمارے ساتھ ہی گھر چلیں گے۔"
موشے نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ مسٹر ڈایامونٹ کی طرف بڑھا دیا۔
گھر واپسی کے سفر میں دونوں عمر رسیدہ دوست تل ابیب بندرگاہ، پارکنگ لاٹ اور بیچ ریزورٹ کی خوبصورتی اور اسرائیل کی ذہانت، طاقت اور تمام دنیا پر اس کی برتری و فوقیت کے گن گاتے رہے۔
" یہ علاقہ کیا تھا، ایک بنجر صحرا جہاں کچھ وحشی و جنگلی غیر مہذب لوگ تھے۔" مسٹر ڈایامونٹ کہہ رہے تھے۔
اسے خوبصورت، سرسبز و شاداب، لہلاتے اور زرخیز نخلستان میں تو ہم نے تبدیل کیا ہے۔ سائنس ٹیکنالوجی، اکنامکس کیا نہیں جو اسرائیل دنیا بھر میں بانٹ رہا ہے۔
موشے یہ سب باتیں بہت غور سے سن رہا تھا۔
"مجھے اپنے اسرائیلی ہونے پر فخر ہے۔" وہ زیر لب بڑبڑایا
=====
اوائل شب تھی، ایک چھوٹے سے کمرے کے مرکز میں ایک میز پر مقبوضہ فلسطین کا نقشہ پھیلا ہوا تھا۔ میز کے گرد فلسطینی جوان خاموش مگر مستعد کھڑے تھے۔ اس خاموشی میں ان جوانوں کے کمانڈر کی آواز ابھری،
اللہ کے شیرو!
تم سب جانتے ہو کہ اسرائیلی ناجائز ریاست اپنے قیام کے آغاز سے ہی بدترین ظلم و بربریت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ہماری لاکھوں کی آبادی بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر کے غزہ کے چھوٹے سے رقبے میں قید کر دی گئی ہے۔ جسے یہ نام نہاد مہذب قومیں خود دنیا کی سب سے بڑی اوپن ائیر جیل کہنے پر مجبور ہیں۔ آئے دن ہمارے معصوم شہری جن میں بیمار، عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں اسرائیل کی بلاجواز بمباری کا نشانہ بنتے ہیں۔
جوانو! دہشت گرد اسرائیل نے ہمیں ہمارے گھروں سے نکالا، ہمارے کاروبار، باغات دفاتر تباہ کیے۔ ہماری ہنستی بستی لہلاتی بستیوں کو قبرستانوں میں تبدیل کر دیا۔ ہمارے مقدس مقامات کی حرمت کو پامال کیا۔
انہیں ناں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا پاس ہے اور نہ ہی ان کے پاس انسانی حقوق کی کوئی قدرو قیمت ہے۔ یہ بار بار امن معاہدے بھی پامال کرتے آئے ہیں۔ اور ان کے ظلم و جبر کی کوئی حد نہیں، یہ کسی ایک مقام پر رکنے کو تیار نہیں، سب سے بڑھ کر خطرناک بات یہ ہے کہ محبوب و مسجود الانبیاء مسجد الاقصی ان کے رحم و کرم پر ہے۔
ہم چلا چلا کر غاصب اسرائیل کو خبردار کرتے ہیں کہ ظلم بند کرو، ہم دنیائے عالم سے اپیل پر اپیل کرتے ہیں کہ آزاد فضاؤں میں سانس لینے والو! آؤ دیکھو ہمیں سانس لینے کی بھی آزادی نہیں۔ ہم مسلم امہ سے بھی مسلسل فریادیں کر رہے ہیں کہ آؤ مسجد الاقصی تو ہم سب کی ہے۔ آؤ اس کے تحفظ کے لیے آؤ۔
مگر ہمیں کہیں سے جواب نہیں ملتا۔
لیکن اے اقصٰی کے محافظو!
اب وقت آگیا ہے کہ تم ظلم اور جبر پر، الاقصی کے دشمنوں پر طوفان بن کر ٹوٹ پڑو۔ اسے صیہونی ناپاک عزائم کے خلاف مکمل تحفظ دینے کے لیے اپنی آخری سانس اور اپنے لہو کے آخری قطرے تک لڑو۔ ہم جانتے ہیں دشمن خاموش نہیں بیٹھے گا وہ چیختا چنگھاڑتا ہماری جانب لپکے گا، مگر دیکھو جب ہم کچھ بھی نہیں کرتے تو تب بھی تو یہ ہمارا قتل عام کرتے ہیں اور اب اس مقام تک آ کر
ہم اتنا سب کچھ لٹا چکے ہیں کہ ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا ہاں البتہ طاقت کے نشے میں بدمست اس ہاتھی کو ہمیں یہ باور ضرور کروانا ہے کہ ہمارے ایمان و یقین کے سامنے ان کی حیثیت مکڑی کے جالے سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
سب جوان اپنے کماںڈر کا پیغام سمجھ رہے تھے۔ ان کے دل اللہ اور اس کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ کی محبت سے سرشار تھے اور اب وہ سب میز پر پھیلے نقشے کی جانب متوجہ تھے جہاں کمانڈر کچھ نشان لگا کر انہیں ہدایات دے رہا تھا۔

موشے دیال کی آنکھ کھلی تو صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ وہ منہ ہاتھ دھو کے باہر آیا تو
لاؤنج میں گرینڈ فادر اور مسٹر ڈایامونٹ کے قہقہے سن کر رک گیا۔
"یہ کیوں ہنس رہے ہیں؟" وہ بھی مسکرا دیا۔
گرینڈ فادر کہہ رہے تھے۔
سچ جب کل رات میں نے کار پارکنگ میں تمہیں دیکھا تو 1948 کے سارے مناظر نگاہوں کے سامنے گھوم گئے
سچ ہے طنطورہ ایک بہت سرسبز و شاداب گاؤں تھا۔ طنطورہ کے کھجوروں کے باغات جیسے باغات پھر کبھی میری نظروں سے نہیں گزرے۔ کجھوروں سے لدے پھندے درخت آج بھی میری نگاہوں میں جیسے جمے ہیں۔ ہمارے بیچ ریزورٹ کی خوبصورتی تو ان باغات کے آگے کچھ بھی نہیں۔
ہاں یہ تو ہے۔ مسٹر ڈایامونٹ نے تائید کی۔
تم بیچ روزرٹ کی بات کرتے ہو سچ کہوں تو ان کی یافا کی بندرگاہ بھی زبردست تھی۔ میں 1948 سے پہلے بھی کئی بار یہاں آیا۔ یافا کی بندرگاہ پر میں نے ہمیشہ بہت چہل پہل دیکھی۔ اس بندرگاہ کا انتظام بھی یہاں کے لوگ بڑے منظم طریقے پر چلا رہے تھے۔
ڈایامونٹ نے کھلے دل سے اعتراف کیا۔ حکومت نے اس بندرگاہ کو تل ابیب بندرگاہ کا نام دے کر بہت اچھا کیا۔ ہم ان فلسطینی عربوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے ہیں اس لیے ان کے قتل عام کے ساتھ ساتھ ان کی عمارتوں کو تباہ کرنا اور شہروں وغیرہ کے نام تبدیل کر دینا بے حد ضروری ہے۔ وہ دونوں اس وقت بے تکلفی سے باتیں کر رہے تھے۔
چھوڑو یہ سب اچھا یہ بتاؤ
کیا تمہیں یاد ہے اس دن ہم کیسے جنونی اور پاگل ہو رہے تھے۔
گاؤں کی عورتیں کتنی حسین تھیں اور ان کے لباس کیسے شاندار تھے۔ وہ دونوں خباثت سے ہنسے
اور وہ جو نو عمر لڑکی تم نے پکڑ لی تھی اور اس کے کپڑے پھاڑ کر اسے بے آبرو کر دیا تھا۔ وہ دونوں ایک بار پھر قہقہ لگا کر ہنسے۔
اور ہمارے پاس جو پنجرے تھے جن میں ہم ان عربوں کو قید کر کر کے جلا رہے تھے۔
اور ان کے وہ چند لڑکے جو ہم سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے اور ہم نے آگ کے گولے پھینک کر انہیں جلا دیا تھا۔
زیادہ ہنسنے کی وجہ سے ان دونوں کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔
موشے دیال گم صم، کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کی مثال بنا جہاں کھڑا تھا وہیں جم سا گیا تھا تو وہ سب باتیں جو اس دن مسجد اقصی کے احاطے میں ایک بوڑھی فلسطینی عورت ایک اسرائیلی فوجی کو جو اسے دھکے دے رہا تھا کہہ رہی تھی سچ تھا۔ آنسو تو موشے کی آنکھوں سے بھی بہہ نکلے تھے مگر یہ آنسو گرینڈ فادر اور مسٹر ڈایا مونٹ کے آنسوؤں سے یکسر مختلف تھے۔
کیا مجھے اپنے اسرائیلی ہونے پر فخر ہے؟ آنسوؤں کا گولہ اس کے گلے میں جا اٹکا تھا۔
یکدم سائرن بجنے لگے۔
گرینڈ فادر اور مسٹر ڈایا ماؤنٹ ہنسی مذاق اور پچھلی یادیں بھول کر خوف سے کانپنے لگے تھے۔ لگتا ہے ہم پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا ہے۔ وہ جان بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے لگے اور موشے دیال جہاں کھڑا تھا وہیں کھڑا سوچنے پر مجبور تھا کہ دہشت گرد اصل میں ہوتا کون ہے وہ جو دوسروں سے زندگی چھین لے یا وہ جو اپنی زندگی بچانے کے لیے مزاحمت کرے؟

غزہ، بیرونی دنیا سے بالکل کٹا ہوا ایک جیل خانہ جہاں گزشتہ سترہ برس سے دنیا کے بدترین مظالم مسلسل ہو رہے ہیں اور بلا جواز ہو رہے ہیں۔ ظالم اپنے وقت کا وہ فرعون ہے جسے قتل عام کرنے کے لیے کسی بہانے کی ضرورت نہیں۔ وہ اس مقدس سرزمین پر فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی کے ناپاک عزائم لے کر وارد ہوا ہے۔ کوئی مزاحمت کرے یا نہیں اسے یہ نسل کشی اپنے شیطانی نصب العین کو پانے کے لیے کرنا ہی کرنا ہے۔
اسی جیل خانے کے ایک کمرے میں
شبیح اور عبدل اپنے دادا جان عدنان یحییٰ کے بستر کے ساتھ لگ کر بیٹھے تھے جہاں وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ وہ آج بھی انہیں وہ ہی سب بتا رہے تھے جو ہمیشہ بتایا کرتے تھے
میں اس وقت 17 سال کا تھا جب اسرائیلی فورسز نے طنطورہ کے علاقے پر قبضہ کیا، جہاں اب کار پارکنگ ہے، یہ زمین ہمارے خاندان کی ملکیت تھی جہاں ان بھیڑیوں نے مجھے اور میرے دوست کو اجتماعی قبریں کھودنے اور درجنوں لاشیں دفنانے پر مجبور کیا تھا۔
میں اس دن کو کبھی نہیں بھول سکتا، اس دن میرا انسانوں پر یقین ختم ہو گیا تھا اور اب جب میری سانسیں ختم ہو رہیں ہیں تو تم عہد کرو کہ دنیا کو بتاؤ گے کہ طنطورہ میں ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا۔
باہر ہر جانب بھیانک اندھیرا اور دھواں تھا جس میں وقفے وقفے سے آگ برساتے بم گر رہے تھے۔ ہر گھر میں زندہ کم اور میتیں زیادہ تھیں۔
عبدل اور شبیح جانتے تھے ان بم برسانے والوں نے 1948 میں تقریباً  ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے  گھروں سے بے دخل کر دیا تھا اس سانحہ کو وہ نکبہ کہتے تھے۔
وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انہیں سرزمین انبیاء کی حفاظت اپنے سروں کی قیمت دے کر ادا کرنا تھی۔ مگر وہ اللہ رب العزت سے کی گئی اس تجارت پر راضی اور خوش تھے کیونکہ وہ سپورٹس اور فیشن ورلڈ کے بجائے اس مقدس سرزمین پر جی رہے تھے جو انبیاء و صدیقین و صالحین و شہدا کا مسکن چلی آ رہی ہے ان کے بزرگوں کے قاتلوں کی تاریخ تو انبیاء کے قتل سے بھری پڑی ہے۔ وہ قاتل یہود کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اپنی تاریخ سے بھی واقف تھے کہ جس میں کم سن حضرت معاذ اور حضرت معوذ رضی اللہ عنھم، حضرت رافع بن خدیج اور سمرہ بن جندب رضی اللہ عنھم باطل سے ٹکرا کر اسے نیست و نابود کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
انہوں نے دادا کی آخری ہچکی کے ساتھ ان کی آنکھیں بند کیں، دعائے مغفرت کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ اب وہ کمرے کے کونے کے فرش پر بچھے ہوئے پرانے ٹاٹ کے نیچے زیر زمین کھودی ہوئی سرنگ کے اندر اتر چکے تھے وہ تیزی سے مزاحمتی تنظیم کے ساتھ جا ملنا چاہتے تھے کہ دہشت گرد اسرائیل نے انہیں اس قابل نہیں چھوڑا تھا کہ وہ اپنے دادا کا کفن دفن ہی کر لیتے۔
ہاں لیکن وہ اس امت کے ماتھے کا جھومر ہیں کہ سرزمین انبیاء کی آزادی اور مسجد الاقصی کے تحفظ کے لیے اپنی آخری سانس اور آخری خون کے قطرے تک لڑنے کو تیار ہیں۔

ام محمد عبداللہ
About the Author: ام محمد عبداللہ Read More Articles by ام محمد عبداللہ: 7 Articles with 3042 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.