عنوان: کیریئر سیٹنگ۔۔۔۔

دنیا میں کیریر ڈیولپمنٹ کا مواضنہ آخرۃ کی کیریر سیٹنگ کے ساتھ۔

زندگی کی بھگ دڑ میں، انتہائی ٹف شیڈیول میں جو عموماً آخری سیمسٹر کا ہوا کرتا ہے؛ یہ وہ دور ہوتا ہے جس میں کئی سالوں سے ساتھ پڑھنے والے دوستوں سے الگ ہونے کا احساس دکھی بھی کرتا ہے اور پروفیشنل بلڈنگ اور کیریئر سیٹنگ ہر طالب علم کے ذہن پر جیسے چھائی ہوتی ہے۔ کسی ایسے ہی دور سے گزرتے ہوئے میں نے ایک صبح یوں ہی قرآن کا آخری حصہ کھولا کہ اس دنیا بنانے کے چکر میں سب سے زیادہ جو چیز متاثر ہوتی ہے وہ قرآن ہی تو ہوتا ہے۔ قرآن کا ستائیسواں جز کھل گیا تھا اور میں سوچ ہی رہی تھی کہ کہاں سے آغاز کروں کہ ہوا سے چند صفحات مزید آگے ہوئے اور سورۂ الواقعہ جو میری فیورِٹ سورہ ہے، سامنے آ گئی۔

"جب واقعہ ہو جائے گی واقعے ہونے والی۔ جس کا واقعہ ہونا کوئی جھوٹ نہیں! جو کسی کو پست کرنے والی ہے تو کسی کو بلند کرنے والی۔ جب زمین سخت لرزے گی، اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، تو وہ ایسے گرد و غبار ہو جائیں گے جو منتشر ہوں۔اور تم (اے ابنِ آدم!) تین جماعتیں ہو جاؤ گے۔ تو دائیں ہاتھ والے، کیا ہیں یہ دائیں ہاتھ والے؟ اور بائیں ہاتھ والے، کیا ہیں یہ بائیں ہاتھ والے؟ اور آگے بڑھنے والے تو آگے ہی بڑھنے والے ہیں۔ یہی تو اللّٰہ کے مقرب ہیں۔"
سورۃ الواقعہ: (آیات 1-11)۔

جب رسمی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہم کیریئر ڈیولپمینٹ کی طرف رجحان کرتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں اس وقت اپنی فیلڈ سے متعلق جو ترجیحات ہوتی ہیں ان میں پہلی یہ کہ ہماری ارننگ کس جگہ زیادہ ہوگی یعنی ہم انعام و اکرام کہاں زیادہ دیئے جائیں گے۔ دوسری چیز فیلڈ ایسی ہو جہاں اگر ہم اپنا پورا پوٹینشل لگا رہے ہیں تو لوگ ہمیں مانیں ہماری عزت بھی کریں اور ہمارا کام ہماری پہچان ہو۔ اب اس کو مزید اسپیسفک کرنے کے لیئے ہم ذرا اپنا بھی جائزہ لیتے ہیں کہ پیشہ وہ اختیار کیا جائے جہاں ہم اطمنان سے کچھ کر سکیں اور ہمیں یقین ہو کہ جہاں محنت لگ رہی ہے وہاں سے آؤٹ کم لازمی آئے گا اور بہتر ہی آئے گا یعنی رِسک کے چانسس ذرا کم ہوں۔ اسی چیز کو اپنا لانگ ٹرم گول بنا کر ہم اسی حساب سے اپنے شعبے کا انتخاب کرتے ہیں اور اس لیئے بہترین تعلیمی اداروں سے منسلق ہو جاتے ہیں اور آنکھوں میں یونی کے بعد شروع ہونے والے کیریئر کے خواب سجے ہوتے ہیں۔ اب اس بحث کو یہیں چھوڑ کر آیئے مندرجہ بالا آیات کو ذرا سا سمجھیں:

فرمایا: جب واقعہ ہونے والی یعنی قیامت واقعے ہو جائے گی جس کے واقعے ہونے میں کوئی شک نہیں اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی جھوٹ کی آمیزش ہے یہ بالکل حق بات ہے اسی لیئے قیامت کے بہت سے ناموں میں سے یہ ایک نام الواقعہ بھی ہے جس کے معنی ہیں: ہر صورت واقعہ ہونے والی۔ اس دن کیا ہوگا؟ سورۂ مبارکہ کی روشنی میں یہ وہ دن ہوگا جو پست کرنے والا اور بلند کرنے والا ہوگا۔ ایک ہی بار میں پست بھی کرے گا اور بلند بھی یہ کیسے ہوگا؟ وہ اس طرح ہوگا کہ لوگوں میں سے بعض جن کو دنیا میں بہت عزت، عیش و عشرت اور بلند مقامات حاصل تھے، جو دونوں ہاتھوں سے دولت سے کھیلتے اور لوگوں میں اپنا آپ منوا کر محفلوں سے رخصت ہوا کرتے تھے، تمہاری آنکھیں دیکھ دیکھ کر حیران رہ جائیں گی کہ ایسے لوگ جن کا ایک امپیکٹ ہوا کرتا تھا اور لوگ آنکھیں بند کیئے ان کی باتیں مان لیا کرتے تھے وہ جہنم میں ایک کے اوپر ایک پھینکے جا رہے وں گے اور دوسری طرف تم دیکھو گے کہ وہ لوگ جو پریشان حال تھے، دنیا میں کوئی ان کو پوچھتا نہ تھا، لوگ ان کی ڈگریوں پر موجود ادارے کا نام دیکھ کر منہ بنایا کرتے اور اچھی نوکری ان کے مقدر میں نہ تھی، جن کی کسی صلاحیت سے کوئی واقف تک نہ تھا اور جو تبقہ تم میں سب سے زیادہ کمزور سمجھا جاتا تھا آج انہیں عزت و اکرام سے جنت کی بشارتیں سنائی جا رہی ہیں۔ پھر اگلی آیات میں زمین و آسمان کا حال بتا کر یہ احساس دلایا گیا کہ جب پہاڑوں کا جو زمین میں سب سے زیادہ طاقتور اور ٹھوس تھے اور وہ آسمان جو سارے پر چھایا ایک مضبوط سہارا ہوا کرتا تھا، آج اس حال کو پہنچا ہے تو انسان جو کسی آلے کے بغیر نہ پہاڑ کا کنکر ادھیڑ سکتا ہے نہ وہ عام حالات میں اپنے ہاتھوں سے اس بلند و بالا آسمان کو چھو سکتا ہے، کس حال میں اور کہاں ہوگا۔ اب سب سے دلچسپ حصہ: اس دن لوگوں کے تین گروہ ہو جائیں گے۔ جب ریذلت اناؤنس کیا جائے گا اور مارکشیٹس اور ریزلت بُکس تقسیم کی جا رہی ہوں گی تو تین قسم کے نتائج ہوں گے جو برآمد ہوں گے۔

پہلے دائیں ہاتھ والے: یہ وہ لوگ ہیں جو آدمؑ کی دائیں کروٹ سے پیدا کیئے گئے ہیں، اپنا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور عرش کے دائیں جانب ہوں گے۔ یعنی یہ اچیورز ہیں کامیاب ہونے والے خوش ہو ہو کر اپنے والدین، اساتذا اور دوستوں کو ایکسائیٹمنٹ سے اپنے نتائج دکھا رہے ہوں گے۔ ان شاء اللہ تعالٰی! پھر بائیں ہاتھ والے: جو بائیں جانب ہوں گے، جو آدمؑ کے بائیں کروٹ سے پیدا کیئے گئے اور اپنے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں لیئے ہوئے ہوں گے۔ قرآن کی دیگر آیات کی روشنی میں یہ سیاہ چہروں والے ہوں گے جن کی گردنیں جھکی ہوں گی یعنی یہ اس دن فیلیئرز ڈِکلیئر کر دیئے جائیں گے۔ اللّٰہ ہمیں محفوظ رکھے۔ دنیا میں اگر نا کامی ہو جائے تو فیلڈ تبدیل کرنے، نئے سرے سے پیپر دینے یا چلیں! کچھ نہ سمجھ آئے تو دو تین ماہ سوگ کا اعلان کرنے اور پیپر چیک کرنے والوں کے خلاف قسیدہ گوئی کرنے کا اوپشن تو محفوظ رہ ہی جاتا ہے مگر ذرا آنکھ بند کرکے برائے کرم! تصور کریں وہاں دنیا میں جانے کا، دوبارہ مہلت دیئے جانے کا کوئی اوپشن سرے سے رکھا ہی نہیں گیا اوپشنز تو جتنے بھی ہیں اسی دنیا میں ہیں جیسا کہ قرآن مجید کے دیگر حسے ہمیں بتاتے ہیں۔ اور اسی لیئے اس دن کو حسرتوں والا دن بھی کہا گیا ہے۔ پتہ یہ چلا کہ دنیا کا مقام و منصب آخری قیام گاہ نہیں بس وہ عملی میدان ہیں جن میں رہتے ہوئے اپنے مقصد پر توجہ رکھنی ہے جیسے یونی میں اگر کوئی کار میں آئے سارے طلبہ اس کے گرد ہجوم سا بنا کر گاڑی کا موڈل وغیرہ ڈسکس کرنے کے بہانے اس سے مرعوب ہو جانے کا اعلان کرتے ہیں اور کوئی گھسے جوتوں میں پیدل آئے تو دوست وغیرہ بنانا بھی ایک مارکہ بن جاتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اپنی کار کردگی کی بنا پر طالب علموں کے جو تاثرات ایک دوسرے پر ظاہر ہوتے ہیں وہ اس پہلے دن جیسے ہر گز نہیں ہوتے اور آخر میں آتا ہے نتائج کے اعلان کا دن جس میں گاڑی والے کی گاڑی نہیں رات کو جاگ جاگ کر پرچے کی تیاری کرنا اسے گولڈ میڈلسٹ بنا سکتا ہے اور گھسے جوتوں کے باوجود سارے سال کی محنت سے ڈپارٹمنٹ میں پوزیشن بنتی ہے تب کاپی چیکر کو نہیں معلوم ہوتا کہ فلاں کی رسٹ واچ کتنی مہنگی ہے یا اس فلاں طالب علم نے تو امتحان والے دن جو کوٹ پہنا تھا وہ اس کا نہیں اس کے بھائی کا چوری شدہ تھا۔ پھر تیسرا گروہ "السابقون " کا ہے۔ یہ اصحاب الیمین سے آگے کا درجہ ہے

تھوڑا سا پیچھے آ کر اس ساری بحث کے سروں کو آپس میں ملاتے ہیں اور ذرا دنیا اور آخرت دونوں کی کیریئر سیٹنگ کا مواضنہ کرتے ہیں۔ پہلا اسٹیپ ہمارے دنیا میں آ کر، پھر اپنے وجود اور تخلیقِ کائنات کو دیکھ کر خدا کے تصور کو قائم کرکے کسی ایک دین کو اختیار کرنے کا ہے۔ جیسے اب آگے تعلیم حاصل کرنی ہے، سارے شہر یا ملک یا پھر دنیا بھر کی مشہور یونیورسیٹیز تلاش کرنا ہمارے کیریئر کا عام طور پر پہلا اسٹیپ ہوتا ہے۔ پھر آتی ہے بات مضمون کونسا پڑھنا ہے؟ کچھ مضمون طے کر کے پھر یونی تلاش کرتے ہیں کچھ یونی پہلے چوز کرتے ہیں پھر ان میں موجود مضامین کی چھان پٹخ میں مصروف عمل رہتے ہیں اور گوگل صاحب کی مہیا کردہ تفاصیل اور یہاں وہاں سے لیئے گئے مشوروں کی روشنی میں ہم اپنا شعبہ بال آخر سلیکٹ کر ہی لیتے ہیں اور یوں دوسرا اسٹیپ بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ بالکل اسی طرح اب دین اسلام لانے کے بعد ہمارے پاس تین قسم کے فیلڈ آف انٹرسٹ ہیں۔ اب یہ اسٹیج ہوتا ہے کہ ہم یہ طے کر لیں کہ کرنا کیا ہے؟ سابقون اور اصحاب الیمین یعنی دائیں ہاتھ والے تو دو ایریاز ہو گئے مگر تیسرا کیوں؟ ہم تو مسلمان ہو گئے نہ؟ اب تیسرا اوپشن کو تو مائینَس ہو جانا چاہیے مگر نہیں! یہی تو سب سے خطر ناک بات ہے کہ اسلام لانے کے بعد بھی اصحاب الشمال میں سے ہو جانے کا خطرہ ٹلتا نہیں ہے۔ قرآن کے کئی صفحات ایک ساتھ پیچھے کر کے سورۂ بقرہ میں بیان گیئ گئے انسانوں کے اس تیسرے گروہ کا ذکر پڑھتے ہیں جو دنیا میں انسان کا ہوتا ہے:

فرمایا: "اور لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللّٰہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں۔ یہ (اپنے خیال میں) تو اللّٰہ اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ وہ تو خود ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں مگر وہ کچھ علم نہیں رکھتے۔ ان کے دلوں میں (کفر کا) مرض تھا تو اللہ نے ان کے مرض کو مزید بڑھا دیا اور انہیں نہایت درد ناک عذاب دیا جائے گا اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔
سورۂ البقرہ: (آیات 8-10)۔
یہان بیان ہونے والا گروہ انجام کے اعتبار سے کافروں کے ساتھ ہی ہے۔ جس کی دلیل حسب ذیل ہے:
فرمایا: "اللّٰہ تعالٰی ان منافق مردوں، عورتوں اور کافروں سے جہنم کی آگ کا وعدہ کر چکا ہے جہاں یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، وہی انہیں کافی ہے، ان پر اللّٰہ کی پھٹکار ہے۔ اور ان ہی کے لیئے دائمی عذاب ہے۔
(سورۂ التوبہ: (68)۔
اور ایک اور جگہ آتا ہے: بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے گڑھے میں ہیں۔ اور منافقین کون ہوتے ہیں اس کی مزید وضاحت نبیﷺ کی مشہور حدیث کر دیتی ہے جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ یہ منافق ہیں خواہ نماز کیوں نہ پڑھیں اور روزہ کیوں نہ رکھیں اور یہ کہے کہ وہ مسلمان ہے؛ اس حدیث کے تینوں اجزا کو باہم ملایا جائے تو جو خلاصہ بنتا ہے وہ دھوکہ دہی اور جھوٹ سے کام لینے جیسے موضی مرض ہیں جنہیں کسی بھی پروفیشن میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

پیچھے ہم نے دو گروہوں کو جان لیا کہ وہ کون ہیں۔ ایک دائیں ہاتھ پر ہوگا دوسرا بائیں پر، مگر چند افراد پر مشتمل گروہ وہ بھی ہوگا جو سب سے آگے ہوں گے اور انہیں اللّٰہ کے مقرب بندے ہونے کی خوش خبری سنائی گئیں ہیں بلکہ اصحاب الیمین سے زیادہ عمدہ باغات اور بہترین انعامات دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ گروہ ارننگ اور اسکوپ کے لحاظ سے سب سے بہترین ہے۔ اور اس میں فیم بھی بہت ہے۔ ہوتے ہیں نہ کچھ ہمارے پروفیسرز جو دنیا کی مانی ہوئی یونیورسٹیز سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد دو دو جنوکریاں کر رہے ہوتے ہیں، اپنے نام کے آگے ڈاکٹر لگائے ہوئے لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ اکثر طلبہ کے لیئے وہ رول ماڈل ہوتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے اوریئنٹیشن والے روز طلبہ کا ہجوم انہی کے گرد سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر فیلڈ کے اپنے اپنے سابقون ہوتے ہیں: ڈاکٹر کی فیلڈ اٹھائیں تو سرجنٹ سب سے بیسٹ ہے۔ بینکنگ یا اکاؤنٹس میں چارٹد اکاؤنٹنٹ زیادہ شہرت یافتہ ہے، اسی طرح انجینیئرنگ میں کوئی تو فیشن ڈیزائیننگ میں کسی خاص لیول تک رسائی حاصل کر جانے والے کی زیادہ چلتی ہے۔ صحیح وقت پر صحیح ٹارگٹ بنا کر اس کے پیچھے اپنا سارا پوٹینشیئل جھونک دینے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں اور اسی لیئے طلبہ کو ان کے آخری دو سالوں میں اپنے شعبے کو مزید اسپیسیفائی کرنے کو کہا جاتا ہے تا کہ مقصد زیادہ واضح اور طلبہ مزید فوکسڈ رہیں۔ جیسے ڈاکٹر بننا ہے تو کس چیز کا اور کس لیول کا، آئی ٹی اسپیشلسٹ بننا ہے تو کس معیار کے سافٹ ویئر پر کام کرنے کی زیادہ اہلیت موجود ہے؟ لکھاری بننا ہے تو کس خاص ٹائپ کا مواد آپ سب سے اچھا لکھ سکتے ہیں۔ اس کو پہچان کر اس پر کام کرنا کیریئر سیٹنگ کا سب سے اہم اسٹیج ہوتا ہے اور اسی اسٹیج پر آ کر طلبہ اسکوپ اور ارننگ کے پہلوؤں پر زیادہ غور کرتے ہیں۔

آخرت کی کیریئر سیٹنگ کے لحاظ سے الواقعہ بہترین سورۃ ثابت ہوتی ہے جہاں آغاز میں مختلف فیلڈز آف انٹرسٹ بتا کر سورۂ مبارکہ کے آخر میں اس کے اسکوپ، اور فیم کا ذکر کیا گیا ہے اور سورۃ کے درمیانی حصے میں ارننگز کی تفصیلات درج ہیں۔ اس سورۃ میں موجود نتائج اس کے پرھنے والے کے اندر ایسی قوت بھر دیتی ہے کہ وہ کبھی نہ رکنے اور اپنی فیلڈ جو اس کا دین ہے، کے اندر مزید گرو کرنے کی کوشش کرے کیوں کہ عموماً ہمارے ذہنوں میں آخرت کی کامیابی دو حصوں میں بٹی ہوتی ہے یا تو دائیں ہاتھ والوں میں شامل ہو کر جنت کو پا لیں گے یا پھر اگر وقت رہتے خود کو نہ سنبھالا تو جہنم میں گر پڑنے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ مگر جیسے پاس ہونے والوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں جن میں ایک گروہ وہ جو پاس ہو جانے پر سکون کا سانس لیتا ہے کہ چلو اللّٰہ اللّٰہ کر کے پاس ہو گئے ایک بھی پرچہ رکا نہیں اور سارا عرصہ بخیر و آفیت گزر گیا۔ جبکہ ایک گروہ وہ ہوتا ہے جو پڑھتے ہی گول میڈل کو آنکھوں میں سجا کر ہیں جو سوچتے ہیں اس سے زیادہ کم پر کسی چیز پر صبر کرنا ہی نہیں اور نا کامی کا تو سوال پیدا ہوتا ہی نہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ اکثر اس قسم کی ذہنیت والے طلبہ ہر ایکٹیوٹی میں آگے آگے رہیں گے، حاضری ان کی اچھی ہوتی ہے اور ڈپارٹمنٹ کا کوئی بھی اہم یا غیر اہم سیمینار یا ایوِنٹ نہیں چھوڑتے حتہ کہ ان کی تیاریوں میں اساتذۂ کرام کے دائیں ہاتھ بنے رہتے ہیں۔ اتنے پر بس نہیں! ٹیچر کے نوٹس زبانی حفظ کرنا اور اضافی معلومات اکھٹے کر کے مختلف قسم کے انٹرنشپ پروگرام میں حصہ لینا ان کا معمول ہوتا ہے۔

تو عمدہ کارکردگی، بہترین نتائج لاتی ہے۔ آخرت کا کیریئر بنانے کے لیے بھی اسی قسم کی پروفیشیئنسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اب ہم اپنے دین میں گرو کیسے کریں؟ میں یہ سوچتی ہون کہ اتنی سی زندگی میں کیریئر بنانے اور اس کی منازل عبور کرنے میں اتنی مھنت ہے تو کیا آخرت کا کیریئر محض تمناؤں سے بنایا جا سکتا ہے جو ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے ۔ اب کرنے کا کام کیا ہے؟ اگر میں اپنے لیئے سابقون کی فیلڈ چوز کرتی ہوں تو مجھے کن اسٹیپس کو فولو کرنا چاہیئے؟ سب سے پہلے تو ایک انیشیئٹیو لینا ہے اور خود کو ذہنی طور پر اس اسپیسفک فیلڈ کے لیئے تیار کرنا ہے۔ پھر جنت و جہنم کے اہوال کو پڑھنا ہے تاکہ جان سکوں کہ سابقون کی جنتیں اصحاب الیمین سے کیسے مختلف ہیں اور سابقون کی جنت کی خصوصیت کیا ہے؟ یہ سابقون جو پہلوں میں زیادہ اور پچھلوں میں تھوڑے ہوں گے، کہ بارے میں تفاسیر میں کئی اقوال ہیں مگر قصۂ مختصر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو سب سے پہلے مسجد جاتے ہیں، جہاد میں آگے آگے رہتے ہیں، جو احسان کی روش اختیار کرتے ہیں جو کمزوروں کو دیکھ کر انہیں مزید دبانے کی بجائے اپنے حق چھوڑ دیا کرتے ہیں، جو ہر کام اللّٰہ کے لیئے کرتے ہیںجو سب کچھ کرکے بھی کچھ کر نہ پانے کا احساس رکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ غلطی ہو جانے پر استغفار میں جلدی کرتے ہیں اور اپنے معاملات میں صبر سے اور نعمتوں پر شکر سے کام لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنے رب کے فرمان کو آگے بڑھ کر سب سے پہلے لینے والے ہوتے ہیں۔ سورۂ آل عمران کی آیت 133 میں آتا ہے کہ اپنے رب کی بخشش اور اس کی مغفرت کی طرف جلدی کرو جس کی وسعت آسمان و زمین کی مثل ہے پس جس شخص نے اس دنیا میں نیکی کی طرف سبقت کی وہ آخرت میں اللّٰہ کی نعمتوں کی طرف بھی سابق ہی رہے گا۔ ہر عمل کی جزا اسی جنس سے ہوتی ہے لہاذا جو جیسا کرتا ہے انجام اسے ویسا ہی ملے گا۔
(تفسیر ابنِ کثیر)
نبی ﷺ نے فرمایا: جانتے ہو اللہ کے سائے کی طرف قیامت کے دن سب سے پہلے کون لوگ جائیں گے؟ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں۔ فرمایا: وہ لوگ جو جب اپنا حق دیئے جائیں تو اسے قبول تو کر لیں اور جو حق ان پر ہو جب مانگا جائے ادا کر دیں اور لوگوں کے لیے بھی وہی حکم کریں جو خود اپنے لیے پسند کرتے ہیں۔
(مسند احمد)۔

اب سابقون کی ارننگ اور اسکوپ کا مختصراً ذکر کر لیتے ہیں جس کی تفصیل مذکورہ سورۂ مبارکہ میں موجود ہے۔ فرمایا: آگے بڑھنے والے تو آگے بڑھنے والے ہیں، یہی لوگ اللّٰہ کے مقرب بندے ہیں۔ ان کے لیے نعمتوں والے باغات ہیں۔ ایک بڑا گروہ ہے پہلوں میں سے البتہ پچھلوں میں بہت تھوڑے ہیں۔ یہ سونے کی تاروں کے بنے طختوں پر آمنے سامنے تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے اور ہمیشہ رہنے والے نو عمر خادم جو چھپائے گئے موتیوں کی مانند ہوں گے ان کو پیالوں میں مشروب پیش کریں گے، یہ شراب ہوگی جسے پینے کے بعد کوئی گناہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس سے سر درد کی شکایت ہوگی۔ اسی کے ساتھ وہ جو پھل چاہیں گے انہیں بکثرت مل جائیں گے اور ان کے لیے پرندوں کا گوشت ہوگا جس کی وہ خواہش کریں گے۔ اور موٹی موٹی آنکھوں والی سفید عورتوں سے ان کا نکاح کر دیا جائے گا وہ یوں ہوں گی گویا یاقوت اور موتی ہوں یعنی سرخ و سفید رنگت والی۔ اور جنت میں وہ کوئی بے ہودٰی بات نہ سنیں گے۔ ہر طرف سلامتی ہی سلامتی کی ندائیں بلند ہوں گی۔ اور ایسا ان کے اعمال کے نتیجے میں ہوگا۔
(سورۂ الواقعہ: آیات 11-26)

موت کے وقت ہی سے ان ان پر انعامات و اکرامات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا:
"پھر اگر وہ اللّٰہ کے مقربین میں سے ہیں۔ تو ان کے لیے آرام، اور خوشبو دار پھول اور نعمتوں والے باغآت ہیں۔"
سورۂ الواقعہ: (آیت 89)۔

معزز قارعین! ابھی ہم دنیا میں یعنی طالب علمی کے دور میں ہیں جہاں اپنی فیلڈ کا انتخاب اور اسے تبدیل کر دینا ابھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم ہر لمحہ اپنے تجربات کی انٹرنشپ اور مسائل و مشکلات جیسے چیلنجز سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے سامنے ہماری کتاب القرآن مجید میں انبیاءؑ اور ان کے پیر و کاروں کی کئی ادوار کی مثالیں موجود ہیں۔ جلیل القدر رسل اور شجاعت کے پیکر صحابۂ کرام کی سورۃ رول ماڈلز بھی موجود ہیں۔ حضرت ابو طلہا کی کیریئر کی راہ میں دینے والی قربانیاں، حضرت ابو بکر کا ہر ہر ایکٹیوٹی میں پارٹ لینا حضرت عمر کا مثبت کمپیٹیشن سب صحیح کتب میں موجود ہے۔ جیسے ہر فیلڈ میں آگے بڑھنے والوں پر آغاز میں کرٹیسیزم ہوتا ہے امام بخاری نے بھی اسے برداشت کیا مگر اپنے مقصد کو نہیں چھوڑا۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے آپ کو کیسے علم و عمل کے میدان میں منوایا۔ صحابیات نے کس طرح اپنے ازواج اور اولاد سے اس دین کی خدمت کی اور خود کو اور اپنے اہلِ خانہ کو جنت کا مستحق ٹھہرایا۔ یہ سب مثالیں ہم آج دیکھ اور پڑھ سکتے ہیں اور اپنے گولز اسپیسیفائی کر سکتے ہیں۔ ایک دن جب ریزلٹ آ جائے گا، تب کوئی اوپشن ہمارے پاس نہیں ہوگا۔ جو کرنا ہے آج کرنا ہے اور اپنا سو فیصد ابھی دینا ہے۔

یا اللّٰہ! اے ہمارے رب! ہم سب کو کامیاب فرما کہ ہم سابقون کے درجے سے کم پر ہر گز صبر نہ کریں گے۔ ہمیں دنیا میں ایسے اعمال اور ایسے افراد اور ایسا ماحول دے جو آخرت کی بہترین کیریئر سیٹنگ کرنے میں ہماری معاون ہو۔
آمین

bINT-E-mURTAZA
About the Author: bINT-E-mURTAZA Read More Articles by bINT-E-mURTAZA: 4 Articles with 2010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.