IAS کی ضرورت ہے،جارہے ہیںKSA

یوپی ایس سی امتحانات کے نتائج سامنے آچکےہیں،ان نتائج میں بھلے ہی تیس مسلم امیدوار کامیاب ہوئے ہیں،لیکن ان میں جو کامیابی کی شرح ہےوہ زیادہ نہیں کہی جاسکتی،کیونکہ زیادہ تر امیدوار100 ویں رینک کے اوپر کامیاب ہونے والوں میں سے ہیں۔ہر سال یو پی ایس سی کے امتحان کیلئے لاکھوں امیدوارا متحان دیتے ہیں،ان میں بہت کم مسلم امیدوار یوپی ایس سی کیلئے اپنا وقت نکالتے ہیں۔پچھلے کچھ سالوں سے مسلمانوں میں تعلیمی شرح میں اضافہ ہوا ہے ، خاص کر لڑکے انجینیرنگ کی ڈگریاں حاصل کررہے ہیں،مگر یہ نوجوان اپنے مستقبل کو ملک و ملت کیلئے استعمال میں لانے کے بجائے محض درہم،دینار اور ریال کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ، جس کی وجہ سے مسلمانوں کوملک میں مناسب حق نہیں مل پارہاہے۔حالانکہ یوپی ایس سی کاامتحان سخت اور محنت سے بھراہوا ہے ، لیکن مسلم نوجوانوں کیلئے یہ کوئی بڑی مشکل نہیں ہے کیونکہ مسلم نوجوانوں کے پاس صلاحیتوں کی بھرمارہے،لیکن انہیں مناسب ماحول اوررہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے یہ نوجوان آئی اے ایس ،آئی پی ایس کرنے کے بجائے کے ایس اے(کنگ ڈم آف سعودی عربیہ) کا رخ کررہے ہیں۔اس وقت مسلمانوں کو سعودی کے ریال،دبئی کے درہم سے زیادہ بھارت کے انتظامیائی امورمیں شامل ہونے کی اشد ضرورت ہے۔یوپی ایس سی میں کامیاب ہونےوالے نوجوان عرب اور یوروپ میں کمانے والے نوجوانوں سے کہیں زیادہ بہتر ،طاقتور اور باعزت زندگی گزارتے ہیں،جو نوجوان برسوں تک شیخوں اور کفیلوں کے یہاں نوکری کرتے ہیں وہ اپنے پاسپورٹ کے معمولی کام کیلئے بھی آئی ایف ایس اور آئی پی ایس افسروں کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔اس وقت مسلمان ملک چھوڑکر نہیں ملک میں اپنے قدم جمع کر اپنے مستقبل کو سنوارنے کیلئے پیش رفت کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف ان کا ذاتی فائدہ ہوگابلکہ قوم،ملک اور ملت کابھی بہت بڑا فائدہ ہوگا۔یہ کام صرف نوجوان اکیلے نہیں کرسکتے بلکہ اس کام کو انجام دینے کیلئے مسلم سماج کو آگے آناہوگا،جو نوجوان پڑھ کر ان اعلیٰ عہدوں پرفائز ہونا چاہتے ہیں اُن کیلئے امراء،عمائدین اور تنظیموں کا تعائون ضروری ہے۔غور طلب بات یہ ہے کہ آج مسلمان مسجدمیں اعتکاف بیٹھنےوالوں کوہدیہ کی شکل میں اُجرت دینے کیلئے تیارہیں تو جو نوجوان آگے چل کر ملت کیلئے سرمایہ بن سکتے ہیں اُن کے تعائون کیلئے کیوں نہیں آگے آسکتے۔کئی نوجوان چاہتے ہیں کہ وہ بھی یو پی ایس سی امتحان کیلئے جدوجہد کریں،اس کیلئے تربیت لیکرکامیابی حاصل کریں،مگر ان کے گھریلو حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ مزید تعلیم کیلئے وقت نکالیں،اگر وہ تعلیم کیلئے نکلتے ہیں تو ان کے گھروں کے مسائل مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں۔اس صورت میں مسلم سماج کا مالدارطبقہ اگر ہر شہرمیں کم ازکم دس قابل نوجوانوں کا تعائون کرتاہے تو یقیناً تو اس کے اچھے نتائج آسکتے ہیں۔ہوسکتاہے کہ دس میں سے پانچ نوجوان ہی کامیاب ہوں،باقی پانچ نوجوان ناکام ہونگے یاپھر اپنی راہ بدل لیں گے،لیکن کوشش کرنا بھی انبیاء کی سُنت ہے،کسی بھی کام کو انجام دیتے وقت ہمیشہ کامیابی ملے گی یہ سوچ درست نہیں ہے،ہر ناکامی کے بعد ہی کامیابی ملتی ہے۔جس طرح سے مسلمان دینی مدارس کیلئے ثوابِ جاریہ یا ثواب کی نیت سے اپنے مال ودولت کو خرچ کرتے ہیں اُسی نیت کے مطابق اس شعبے میں بھی ہاتھ بڑھاتے ہیں تو اس کے اچھے اثرات سامنے آسکتے ہیں۔غرض یہ کہ مسلم نوجوانوں کو اب بھارت کے انتظامیائی امورمیں حصے دار اور حقداربننا ہوگااور یہ کام پورے سماج کو مل کر کرناہوگا۔


--

 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 175863 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.