کرناٹک میں جمہوریت ہے خلافت نہیں !

کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج آکر حکومت بھی بن چکی ہے اور ریاست میں اس وقت حکومت حسبِ معمول اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہے۔اس دفعہ اسمبلی انتخابات کے نتائج جو آئے ہیں وہ عمل کا ردِ عمل ہے،اس کے علاوہ اور کچھ کرامت نہیں ہے۔کرناٹک میں بی جے پی کی حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں ریاست کا دیوالیہ نکالاہے ،اس کے علاوہ ریاست کے امن وسکون کو غارت کیاتھا اور ریاست میں بدعنوانیوں کا جو سیلاب اُمنڈآیاتھا اُس کا جواب ہی کرناٹک کے لوگوں نے بی جے پی کودیاہے،اس کے علاوہ کانگریس پارٹی کے خوشنما تحفے پارٹی کو کامیاب ہونے کیلئے ہتھیار بنے ہیں۔اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ہاں ،اس میں مسلمانوں نے بھی بہت اہم کرداراداکیاہے،ایک سروے کے مطابق88 فیصد مسلمانوں نے کانگریس پارٹی کو ووٹ دیاہےجس کی وجہ سے کانگریس پارٹی کو بڑھت حاصل ہوئی ہے۔مگر ان نتائج کولیکر مسلمانوں کا ایک طبقہ اس قدر خوش فہمی کاشکارہے کہ مسلمانوں کے ووٹوں سے ہی کانگریس پارٹی اقتدارمیں آئی ہے،اسی بات کو لیکر سوشیل میڈیامیں خوب گفتگوجاری ہے،بحث ومباحثےجاری ہیں،بعض مضامین ایسے ہیں جیسے کہ اس وقت کرناٹک میں اسلامی حکومت آچکی ہے اور سلطنت کرناٹک میں شہنشاہِ سدرامیا تخت پوش ہوچکے ہیں اور اُن کے وزیروں میں نورتن شامل ہونے جارہے ہیں،اس کے علاوہ سوشیل میڈیامیں جو مطالبات کئے جارہے ہیں وہ بھی خوش فہمی کا ہی نتیجہ ہے،مثلاً ضمیر احمد کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا مطالبہ،یوٹی قادرکو ہوم منسٹربنانے کا مطالبہ،رضوان ارشد سمیت مختلف مسلم اراکین اسمبلی کو وزارت کے اعلیٰ شعبوں میں شامل کرنے کا مطالبہ ہورہاہے اور تو اور بعض مضامین کے عنوانات ایسے ہیں جسے پڑھ کر ایسامحسوس ہورہاہے جیسے کہ مسلمانوں نے ووٹ نہیں بلکہ جنگ آزادی میں اپنا کرداراداکیاہے۔کچھ عنوان ایسے ہیں۔"اسمبلی انتخابات میںعلمائے کرام کی ذمہ داری،اسمبلی انتخابات میں مسلم قوم کا اتحاد،اسمبلی انتخابات میں علماء وعمائدین کی حکمت"۔کچھ سال قبل تک ہم پڑھا کرتے تھے کہ جنگِ آزادی میں علمائے کرام کا کردار،جنگ آزادی میں علمائے دیوبندکا کردار کے عنوان سے مضامین پڑھا کرتے تھے،لیکن اس دفعہ مسلمانوں کی طرف سے جو ردِ عمل ظاہرکیاجارہاہے وہ کل کے دن منفی اثرات لے سکتے ہیں۔اس جانب مسلمان زیادہ جذباتی ہونے کے بجائے حکمت سے کام لیتے ہوئے خاموشی کامظاہرہ کرتے ہیں تو یہ کافی اچھے نتائج سامنے لائے جاسکتے ہیں۔عام لوگوں تک تو جذباتی ہونے کی بات ٹھیک ہے،لیکن کچھ دانشوران اپنے آپ کو میدانِ کارکے ہیروکے طورپر پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اپنی کارگردگی کو انگریزی وکنڑامیڈیاکے ذریعے سے منظرِ عام پر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔مسلمانوں کے اسی طرزکی وجہ سے سنگھیوں نے اب کانگریس پارٹی کو خانگریس پارٹی کہناشروع کردیاہے اور کئی سوشیل میڈیا پلاٹ فارم پر مسلمانوں کے مطالبات اور اتحادپر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔مسلمانوں کی طرف سےجو حکمت اسمبلی انتخابات کے دوران اپنائی گئی ہے اُس کا چرچہ مزید کرنے اور کانگریس کی جیت کو اپنی جیت کے طورپر پیش کرنے کے بجائے پارلیمانی انتخابات کیلئے خاموشی کے ساتھ کام کرتے ہیں تو اس کے اچھے نتائج سامنے آسکتے ہیں۔واضح ہوکہ کرناٹک میں کانگریس کی حکومت آئی ہے نہ کہ یہاں خلافت کا دور چل رہاہے۔سدرامیا وزیر اعلیٰ ہیں نہ کہ شہنشاہ سدرامّلاہیں اور یہ بھی بات یا درکھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی کو شکست دینے اور ریاست میں متبادل حکومت بنانے کیلئے کانگریس کو مسلمانوں نے اپناووٹ دیاہے،ورنہ آزادی کے بعد کانگریس کی70سالہ تاریخ میں مسلمانوں کا کس طرح سے استحصال ہواہے یہ بھی یادرکھاگیاہے۔بی جے پی نے تو نوٹ بندی،گوشت بندی کی ہے،مگر کانگریس میں مسلمانوں کی نسبندی کروائی گئی تھی،جمہوری نظام میں پارٹیوں کاآناجانا جمہوری نظام کاحصہ ہے،اسی کو مقدرمان لینا درست نہیں ہے۔

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174985 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.