جیسکا کو کسی نے نہیں مارا

جیسیکا نام کی لڑکی ایک ریسٹورنٹ (بار) میں کام کرتی ہے ایک رات دیر گئے کچھ نوجوان اس سے شراب طلب کرتے ہیں، جیسیکا انہیں بتاتی ہے کہ ریسٹورنٹ کا بار بند ہو چکا ہے اب شراب نہیں مل سکتی،شراب دینے سے انکار پر نوجوانوں میں سے ایک نوجوان سیخ پا ہو جاتا ہے اور تھوڑی سی تلخ کلامی کے بعد وہ پستول نکال کر اس لڑکی کو گولی مار دیتا ہے جس سے اسکی موت واقع ہو جاتی ہے جیسیکا کے قتل کے وقت اسکے ساتھی ملازمین اور بار کی مالکہ سمیت 7افراد قریب موجود ہوتے ہیں جوقاتل کو جاتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں جبکہ ڈانسنگ ہال میں بھی 300کے قریب مردو خواتین ایک دوسرے کی بانہوں میں جھول رہے ہوتے ہیں جہاں گولی چلنے کی آواز سنتے ہی کھلبلی اور بھاگ دوڑمچ جاتی ہے، مقتولہ جیسیکا کا ساتھی اسکی بہن کو فون کرتا ہے اور اسے قتل کی اطلاع دیتا ہے، اسکی بہن اسپتال پہنچتی ہے جہاں جیسیکاکی لاش اسکی منتظر ہوتی ہے وہ پہلے روتی بلکتی ہے اورپھر قاتل کو انجام تک پہنچانے کا عزم لے کر نکلتی ہے وہ عدالت میں گواہی کے لئے جیسیکا کے قریبی دوست سمیت جس نے اسے فون پر قتل کی اطلاع دی تھی 7 عینی شاہدین کے نام درج کراتی ہے جن میں بار کی مالکہ بھی شامل ہوتی ہے، کچھ دن گزرتے ہیں ایک ایک کر کے سب گواہان جیسیکا کی بہن سے رابطے توڑنے لگ جاتے ہیں، جیسیکا کا قریبی دوست بھی فون اٹھانا بند کر دیتا ہے، کچھ گواہ لالچ اور کچھ دھمکیوں کے اثر میں آجاتے ہیں، عدالت میں پیشی کے روز کوئی گواہی نہ ہونے پرعدالت تمام ملزمان کو بری کردیتی ہے اگلے روز ایک انگریزی اخبار میں اس مشہور کیس کی سرخی چھپتی ہے ِNo one killed Jessica اسے پڑھنے کے بعد ایک صحافی لڑکی جس نے قتل کی اس واردات کو ایک سیدھا سادھا کیس سمجھ کر سٹوری پر کام کرنے کے حوالے سے کوئی توجہ نہیں دی تھی چونک اٹھتی ہے اور 300سے زائد لوگوں میں سے ایک گواہی بھی نہ ملنے پرحیران رہ جاتی ہے، وہ مقتولہ کی بہن سے رابطہ کرتی ہے جو گواہان کا رویہ دیکھ کرمزید قانونی جنگ لڑنے سے مایوس ہو چکی ہوتی ہے لیکن صحافی لڑکی اسکا حوصلہ بڑھاتی ہے اور اسے جنگ جاری رکھنے پر آمادہ کرتی ہے وہ جیسیکا کی یاد میں شمعیں جلانے کی تقریب کا انعقاد کرتی ہیں اور انصاف تک رسائی کے لئے سول سوسائٹی کو متحرک کرنے کی کوشش میں لگ جاتی ہیں صحافی لڑکی جس ادارے سے منسلک ہوتی ہے اسکا مالک اسکا بوائے فرینڈ بھی ہوتا ہے وہ اس جیسیکا کے کیس کو وقت کا ضیاع اور نان ایشو قرار دیتا ہے لیکن صحافی لڑکی مقتولہ جیسیکا کی بہن کے ساتھ مل کرگواہان سے رابطے کرتی ہے مختلف طریقوں سے شواہد اکٹھے کرنا شروع کر دیتی ہے اورعدالت میں پیش کرنے کے لئے مواد اکٹھا کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتی ہے، ٹی وی پر کیس کے حوالے سے نئی صورتحال دیکھ کر یہ ایک ہاٹ ایشو بن جاتا ہے اور جیسیکا کی کہانی زبان زدعام ہو جاتی ہے، بااثرقاتل سے تفتیش کے دوران نرمی برتنے اور کمزور کیس بنانے کے 70لاکھ روپے رشوت لینے والا تفتیشی افسر بھی جیسیکا کی بہن کے ساتھ ہر ممکن تعاون پر آمادہ ہوجاتا ہے بالآخر جیسیکا کی بہن اس صحافی لڑکی کی مدد سے قاتل کو سزا دلوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے، جیسیکا کی کہانی انصاف سے محروم ہمارے جیسے ہی معاشرے کی کہانی ہے جہاں قاتل کو مظلوم اور بے گناہ کو قصوروار ٹھہرانا بائیں ہاتھ کا کھیل اور معمولی بات ہے ہماری شاید ہی کوئی عدالت ایسی ہو جہاں یہ کھیل ہر روز نہ کھیلا جاتا ہو، ہماری پولیس کا یہ حال ہے کہ اگر تھانوں کے باہر یہ نوٹس بورڈ آویزاں کردیا جائے کہ یہاں مدعی کو ملزم اور ملزم کو مدعی بنانے کا کام تسلی بخش طریقے سے کیا جاتا ہے تو بھی عجیب نہ لگے، یہ وہ معاشرہ ہے جہاں پولیس کے تفتیشی افسر سے ایس ایچ او اورڈی ایس پی کے پاس سب جائز کاموں کی بھی فیس مقرر ہے، جہاں پولیس سربراہان بااثر سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کی شرط پر تعینات کئے جاتے ہیں، جہاں صرف قانون ہی اندھا نہیں بلکہ عدالت میں بیٹھا جج بھی اپنی آنکھیں جان کے میٹ کے رکھتا ہے اور اپنی ناک تلے رشوت کی دوکان چلانے والے اس نام نہاد منصف کے ساتھ بیٹھے ہوئے ریڈر یا سٹینو کو رشوت دیئے بغیر کسی کیس میں حاضری تک لگنا یا تاریخ ملنامشکل ہو تی ہے اور وہ معصوم بنا بیٹھا رہتا ہے، صرف عدالت ہی نہیں عدالت سے ملحقہ کمرے سے اپنے ہی کیس کا ریکارڈ دیکھنے یااسکی فوٹو کاپی لینے کے لئے بھی جیب میں رقم ہونا ضروری ہے، سائل اپنے وکیل ہی نہیں بلکہ اسکے منشی کو بھی خوش کرنے کا پابند ہے مگر جیسیکا کی کہانی کا سبق یہ ہے کہ انصاف و قانون کی حکمرانی سے محروم ایسامعاشرہ جہاں حکومت،سیاست، عدالت کوڑیوں کے بھاؤ بکتی ہو جہاں کے مُلالینڈ مافیا کے سرغنہ ہو ں،سرکار ی افسرکے دفتر کا بند دروازہ ہر عام آدمی کو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہو کہ یہاں بغیر رشوت کوئی کام نہیں کیا جاتا،وہاں کی بنجر دھرتی پر بھی انصاف کی فصل اگنا ممکن ہے لیکن یہ فصل اس صورت میں اگ سکتی ہے جب اس معاشرے میں صحافت محض تجارت بن کر نہ رہ جائے، بدترین حالات میں بھی صحافی مظلوموں کو اسکا حق دلوانے اور ظالم کا ہاتھ روکنے کے لئے پوری استقامت کے ساتھ کھڑے ہوجائیں، اہل قلم اگرمظلوم کی کہانی لکھ کر اسے ظالم کے ہاتھ بیچنے کا سودا نہ کریں تو ظلم کے اندھیری رات ختم ہوسکتی ہے، عدالت حکومت سیاست سب بدل سکتا ہے، کیمرے اور قلم کی طاقت اگر جائز کمائی کے ساتھ ساتھ ظالموں کا گریبان پکڑنے میں استعمال ہونے لگ جائے تو پاکستان میں بھی جیسیکا جیسے ہزاروں مظلوم اور انصاف سے محروم لوگوں کی انصاف تک رسائی ناممکن نہیں لیکن قلم اور کیمرے والوں کو اسکے تقدس اور قدرت کی طرف سے دی گئی طاقت کو پہچاننا ہو گا (عالمی یوم صحافت پر لکھا گیا)
 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67785 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.