صنف نازک تشدد ، ہمارے منافق معاشرے کا بڑھتا ناسور


صنف نازک پر تشدد ہمارے معاشرے کا ایک ایسا المیہ ہے جو ہمارے ہاں ہر جگہ پر ہورہا ہے نوجوان لڑکی سے لیکر بوڑھی عورت تک پر تشدد کے واقعات سب سے زیادہ ہورہے ہیں اس میں کوئی تخصیص نہیں کہ یہ واقعات گاﺅں میں زیادہ ہوتے ہیں یا پھر شہروں میں ، ایسا کوئی ڈیٹا ابھی تک کسی بھی ادارے نے جاری ہی نہیں کیا ، نہ ہی اس بارے میں حقیقی واقعات رپورٹ ہوئے ہیں کیونکہ ایک ایسی تلخ حقیقت جو سب کے سامنے ہیں مگر شرم کے مارے اسے ظاہر نہیں کیا جاتا. اسی باعث یہ رپورٹ بھی نہیں ہوتی. بیشتر گھرانوں میں ہونیوالے صنف نازک پر تشدد کے واقعات کو رپورٹ ہی نہیں کیا جاتا کیونکہ مارنے والے اسے اپنی مردانگی ظاہر کرتے ہیں جبکہ بیٹیوں کے والدین اپنی شرم کے باعث اسے سرعام نہیں لاتے کہ کون اپنی بیٹیوں کے جسموں پر پائے جانیوالے تشدد کے نشانات ڈاکٹروں کو دکھائے ، کون عدالتوں کے چکر کاٹے .اسی باعث بیشتر بچیوں کی زندگی کڑھتے کڑھتے گزر جاتی ہیں.

صنف نازک پر تشدد صرف مارپیٹ بھی نہیں بلکہ ذہنی ٹارچر بھی ہیںجس کے باعث بیشتر بچیاں ذہنی انتشار کا شکار ہورہی ہیں اور یہ عمل ایک ایسے معاشرے میں ہیں جہاںپر خواتین ، بچیوں کو کسی بھی قسم کے دشمنی یا عداوت میں بھی ہاتھ اٹھایا نہیں جاتا کہ یہ خواتین ہیں مگروقت نے ہمارے ہاں سب کچھ تبدیل کرکے رکھ دیا ہے اور اب صنف نازک پر تشدد کی لہر ایسی چل رہی ہیں کہ تعلیم یافتہ سے لیکر مدرسہ میں پڑھنے والی خواتین اور گھروں میں تعلیم سے محروم بچیاں بھی اسی تشدد کا شکار ہورہی ہیں. اس حوالے سے متعدد غیر سرکاری ادارے کام کررہے ہیں مگر ان کی ترجیحات الگ ہوتی ہیں جبکہ ہمارے معاشرے کی ترجیحات الگ ہیں اسی باعث ان واقعات میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہورہا ہے .

صرف ایک سال کے اخبارات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہو جائے گا کہ اس واقعات میں کتنا اضافہ ہوہا ہے ، حیران کن طور پر تشدد کے ان واقعات میں پہلے شوہر کی جانب سے تشدد کی شکایات عام ہوا کرتی تھی اب خواتین بھی تشدد کرنے پر آگئی ہیں ایسے واقعات ہمارے ہی معاشرے میں ہورہے ہیں کہ نند نے جیٹھانی پر تشدد کیا ، جیٹھانی نے اٹھ کر نند پر تشدد کیا ، ساس نے بہو پر تشدد کیا یا پھر بہو نے ساس پر تشدد کیا ، اور یہ سب کچھ مرد خواہ وہ ان کے بھائی ہوں ، شوہر ہو یا والدین ہوں ان کی موجودگی میں کیا گیا اور یہ پولیس رپورٹ بھی نہیں ہوئے اسی باعث ایسے واقعات اگر منظر عام پر بھی آتے ہیں تو اسے حقیقی رپورٹنگ نہیں کہا جاسکتا.

تشدد کے بیشتر واقعات میں معمولی ، معمولی چیزیں سامنے آتی ہیں جیسا کہ بہو جہیز کم لائی ہے ، یا بہو کے کسی کے ساتھ یارانے ہیں ، یا پھر بہو ساس کی منظور نظر نہیں ، بیٹے نے دباﺅ ڈال کر شادی کی ہے یا پھر بہو ساس کی پسند کی خوراک نہیں بنا سکتی .یہ اور اس طرح کے کئی قسم کے الزامات پر خواتین کو عمومی طور پر گھروں میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے شادی ہونے کے بعد بچیاں ان چیزوں کو شرم کے مارے والدین کے سامنے نہیں لاتی کہ اس سے مسائل پید ا ہونگے حالانکہ وہ اسی تشدد کا نشانہ بن کر کئی مسائل اپنے لئے پیدا کرلیتی ہیں جس میں ذہنی بیماریوں سمیت جسمانی بیماری الگ ہوتی ہیں لیکن چونکہ بچیوں کو ہمارے معاشرے میں یہ کہہ کر سسرال رخصت کیا جاتا ہے کہ شادی کے بعد اب شوہر کا گھر ہی تمھارا گھر ہے اور ہم تمھارا جنازہ لینے ہی آئیں گے.اس طرح کے الفاظ اور دیگر باتیں جس میں یہ بھی شامل ہوں کہ قرضے لیکر ہم نے تمھاری شادی کردی ہے اسی باعث کم عمر بچیاں والدین کی عزت کی خاطر اپنے اوپر تشدد کے نہ ختم ہونے والے ظلم کو دل میں رکھ کر سہہ لیتی ہیں کہ شائد میری قسمت میں یہی لکھا تھا .یا پھر میر ے ساتھ والدین نے ظلم کردیا ہے.

ان حالات میں اگر بچی اپنے ساتھ ہونیوالے تشدد کے واقعات پر آواز اٹھاتی ہیں تو ہمارے ہی اسلامی معاشرے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لڑکی ٹھیک نہیں بے غیرت ہے ، اورمعاملے کو عدالت گئی ہیں یا پھر اس نے اپنے اوپر ہونیوالے تشدد کی نشاندہی کیوں کی ، اس عمل میں بعض اوقات بچیوں کے اپنے ہی والدین ، بہن بھائی سمیت ہمارے معاشرے کا ہر فرد اپنا حصہ ڈالتا ہے حالانکہ ہمارے معاشرے میں کوئی بھی باہوش شخص اپنے ہنستے بستے گھر کو اجاڑنے کی کوشش نہیں کرتا لیکن حالات و واقعات بچیوں کو مجبور کردیتے ہیں.اور اگر کوئی بیوی یہ اقدام اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں تو پھر اسے بدکردار ظاہر میں اس کے اپنے شوہر سے لیکر ساس اور گھر کے تما م افراد اس کا ساتھ دیتے ہیں کہ یہ لڑکی بدکردار ہے.دوسری طرف اگر شوہر ، سسرالیو ں کے روزانہ تشدد کو برداشت کرکے کسی دن نامعلوم طریقے سے ماری جاتی ہیں تو پھر ہمارے ہی معاشرے کے افراد ان کی موت پر آنسو بہاتے نظر آتے ہیں کہ یہ بچی کیساتھ ظلم ہو ا ، حالانکہ اس سے پہلے جو ظلم ہورہا تھا اس پر کوئی مدد تو کیا آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہوتا .ہمارے اسلامی معاشرے کا یہ دوغلا معیار اسی باعث بھی ہے کہ ہم اسلامی اصولوں کی پاسداری نہیں کرتے ، جہاں پر ہمیں فائدہ اسلام میں نظر آتا ہے وہیں پر ہم اسلام یاد آتا ہے اور جہاں پر ہمیں فائدہ نہ ہو ہمیں اسلام سے کیا مطلب ، ،

ایک ایسا معاشرے جو اسلام کے نام پر بنا ہو اور جہاں پر شرعی احکامات کی پابندی کے دعوے کئے جاتے ہوں وہاں پر تشدد اگرگھر بیٹھی خواتین پر کیا جاتا ہے تو ایسے خواتین بھی ہیں جو کسی مجبوری کے باعث گھروں سے نکلتی ہیں تو بھی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں انہی واقعات کی روک تھام میں قانون نافذکرنے والے اداروں سمیت خواتین کے کیسز میں عدالتوں کا رویہ بھی افسوسناک ہے کیونکہ فیملی کیسز پندرہ سے بیس سال تک چلتے ہیں اور یہ عام سی بات ہے ، اول تو بہت کم لوگ عدالتوں کا رخ کرتے ہیں لیکن اگر رخ بھی کرے تو پھر عدالتوں میں جا کر حق مانگنے والی خواتین کو روڈ کنارے مار دیا جاتا ہے اور پھر ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور کیسز پندرہ سال سے بیس سال چلے ، ایسے میں یہ سوچنا کہ صنف نازک پر تشدد کے واقعات میں کمی آئیگی ایک خواب ہی ہے.

تشدد کے واقعات میں اضافے کی بڑی وجہ بیروزگاری ، مہنگائی ، اور مذہب سے دوری بھی ہے یہ باعث حیرت اور شرمندگی بھی ہے کہ کرونا کے دوران خیبر پختونخواہ میں تشدد کے ایسے واقعات ریکارڈ ہوئے جس میں خواتین کی اموات واقع ہوئی خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق 124 ایسے واقعات خواتین پر تشدد کے ریکارڈ ہوئے جس میں کرونا کے دوران تشدد کیا گیا اور اپنے ہی لوگوں کی تشدد کی وجہ سے ان کی اموات واقع ہوئی .

صنفی تشدد اور اس کے باعث پیدا ہونیوالی اموات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2022 میں صنفی تشدد کے 63367 واقعات رپورٹ ہوئے ، اور یہ ایسے واقعات ہوئے جو رپورٹ ہوئے ، جو رپورٹ نہیں کئے گئے ، معاشرتی مجبوریوں اور شرم اور ثقافت کی وجہ سے وہ اس سے زیادہ ہے لیکن پاکستان میں یہی صورتحال ہے ایک موقر انگریزی روزنامے میں شائع ہونیوالی رپورٹ کے مطابق صنفی تشدد کے بعد خواتین کو قتل کرنے کے 3987 واقعات ہوئے جبکہ 10500ایسے واقعات ہوئے جس میں خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا.رپورٹ کے مطابق سال 2019 میں یہ واقعات 25389 تھے جبکہ سال 2020 تشدد کے واقعات کی تعداد23789 رہی حالانکہ سال 2021 میں اس میں کمی آئی تھی اور یہ 14189 تک گر گئی تھی لیکن پھر سال 2022 میں اس میں بہت زیادہ تیزی دیکھنے میں آئی .

رپورٹ کے مطابق سال2019 سے لیکر 2021 تک کے واقعات میں 3987 خواتین کو ملک بھر میں قتل کیا گیا جبکہ ریپ کے 517 کیسز رجسٹرڈ ہوئے.اسی مدت میں 1025 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ، جبکہ 103 خواتین پر تیزاب پھینکنے کے واقعات رجسٹرڈ ہوئے اسی مدت میں اڑتیس ایسے واقعات ہوئے جس میں آگ کا سٹوپ کے باعث خواتین کے جلائے جانے کے واقعات ہوئے .اور ہسپتال پہنچائے جانے کے بعد بھی یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی گئی کہ اس میں کسی کا ہاتھ نہیں اور بہو بے چاری کی قسمت میں لکھا تھا اور ایسے متعدد کیسزداخل دفتر کردئیے گئے.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 589 Articles with 427752 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More