وادی سوات میں موٹر بائیک ایک ضرورت یا موت کا فرشتہ ؟؟

موٹر بائیک ہماری زندگی کا لازمی حصہ ہے ، شہری زندگی اس کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی ہے ۔ ٹریفک جام کے واقعات میں اضافہ کے بعد ، سنجیدہ اور وقت کی قدر و قیمت رکھنے والے افراد ، اس کے استعمال پر مجبور ہوگئے ہیں ۔متوسط طبقے کے اکثر گھرانوں میں یہ سواری موجود ہے ۔ اس کے استعمال میں ایک آسانی یہ ہے کہ کسی بھی جگہ اسے پارک کیا جاسکتا ہے اور دوسری اس کے لیے گیراج وغیرہ کی جھنجھٹ سے با آسانی گلو خلاصی ہوجاتی ہے ،تیسرا معاشی فائدہ یہ ہے کہ بڑی گاڑیوں کے مقابلے میں اس کا ایندھن خرچ انتہائی کم ہے ۔

وادی سوات میں موٹر بائیکوں کی تعداد میں اضافہ اس وقت سے دیکھنے میں آیا ہے جب مقامی موٹر بائیک ساز کمپنیوں نے ارزان قیمت پر اپنے موٹر بائیک فروخت کرنے شروع کیے ۔یہ کمپنیاں اپنے موٹر بائیک قسطوں پر بھی دیتے ہیں ۔ دو تین ہزار کی قسط ہر آدمی اپنے جیب خرچ سے باآسانی برداشت کرلیتا ہے ، اسی طرح اب ہر متوسط طبقے کے دوسرے گھرانے میں یہ سواری موجود ہے ۔اور قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ اس کو ایک حقیقی ضرورت کے طور پر برتنے کی بجائے اس کے استعمال کنندگان میں اکثریت " منچلوں " کی ہے جن کی عمریں اٹھارہ سال سے کم ہوتی ہیں اور ٹریفک قواعد وضوابط سے یہ لوگ نابلد ہوتے ہیں ۔

چھوٹی عمر کے یہ ڈرائیور تیز رفتاری ، ون ویلنگ ، کرتب بازی اور ریسنگ کے لیے بدنام ہیں ، جس میں اکثر افراد یا تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں یا عمر بھر کے لیے اپاہج ہوجاتے ہیں۔

کچھ دنوں سے موٹر بائیک سواروں کے تصادم کے واقعات میں اضافہ ہواہے ۔سیدو ٹیچنگ ہاسپٹل کے کیجولیٹی ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار کے مطابق صرف 26 اگست کے دن 16 موٹر بائیک سوار زخمی لائے گئے ۔ اکثریت شدید زخمیوں کی تھی جن میں سے کچھ بعد ازاں جاں بحق ہوئے۔

ان غیر قانونی موٹر بائیک سواروں کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی دھجیاں بکھرجاتی ہیں ۔نتیجتا اکثر ٹریفک حادثات کا باعث بن جاتے ہیں جن میں قیمتی جانیں چلی جاتی ہیں ۔

انتظامیہ کی طرف سے بھر پور کوششوں کے باوجود تیزرفتاری ، ون ویلنگ اور کرتب بازی کے لیے ایسے روڈ منتخب کیے جاتے ہیں جو شہری ٹریفک جام کی وجہ سے تیز رفتاری کے لیے موزوں ہوں ۔

عوامی حلقوں میں اس کے متعلق یہ سننے میں آیا ہے کہ اگر ٹریفک افسران کچھ اہلکار شہر کے باہر بھی تعینات کریں اور اٹھارہ سال سے کم عمر کے افراد کے موٹر بائیک سواروں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے ۔خلاف ورزی کرنے والوں پر بھاری جرمانے عائد کریں نیز ہیلمیٹ کو لازم قرار دیا جائے تو امید کی جاتی ہے کہ تیزرفتاری کا یہ مہلک رجحان خود بخود ختم ہوجائے گا اور موٹر بائیک موت کا فرشتہ نہیں بلکہ ایک حقیقی ضرورت بن جائے گا۔
محمد صدئق خان سواتی
About the Author: محمد صدئق خان سواتی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.