ہماری بربادی کی کہانی ( دوسرا حصہ)

ایک ہی وقت میں ملک کے چیف ایگزیکٹو اورآرمی چیف کے بڑے عہدوں پر براجمان رہنے اور پھر صدر مملکت سمیت کئی اہم ذمہ داریاں اپنی شخصیت میں سمیٹ کر ملکی آئین کو دوبار توڑنے والے پرویز مشرف کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگیا انا ﷲ وانا الیہ راجعون ، بلاشبہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن اپنے دور حکمرانی میں تکبر اور رعونت کی بد ترین مثال بنے جنرل (ر) پر ویز مشرف کو جس خاموشی سے دفنایا گیا ہے اس میں ہم سب کے لئے عبرت کی بہت سی نشانیاں موجود ہیں خاص طور پر ان صاحبان اقتدار و اختیار کے لئے جو اپنے منصب پر بیٹھ کر ملک اور عوام کے مقدر کے فیصلے کرتے وقت بھول جاتے ہیں کہ انکی یہ طاقت اختیار پروٹوکول اورانہیں دائیں بائیں سے ہونے والے سلیوٹ سب عارضی اور ختم ہو جانے والی چیزیں ہیں اس حکمرانی آسائشوں مال و دولت کی کوئی مستقل حیثیت نہیں، کائنات میں اگر کسی کو فنا نہیں تو وہ اﷲ رب العزت کی پاک اور عظیم ذات ہے زمین و آسمان میں حاکمیت صرف اسی کی ہے ، کائنات کے ذرے ذرے کا پیدا کرنے والا وہی ایک اﷲ ہے اور تمام جہانوں کی ہر شے اسی کی پیدا کی ہوئی ہے جو صرف اسی کے تابع ہے ، وہی اصل بادشاہ ہے تمام تعریفیں اور عبادات اسی کے لئے ہیں ، دنیا کے اس عارضی اور چند دن کے اقتدار اوردکھاوے کے عہدوں کے لئے انسانوں کی خوشنودی اور غلامی سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں ہے پرویز مشرٖف کا ساتھ دینے والے گجرات کے چوہدریوں، ایم کیوایم اور ن لیگ کے منحرف سیاسی خاندانوں نے انکے مارشل لا کے ایک ایک دن کا بھرپور فائدہ اٹھایا ان دنوں ان سیاستدانوں کو جمہوریت سمیت ہر شے پرویز مشرف میں ہی نظر آتی تھی ،جس طرح ایوب خان اور ضیاء الحق کے مارشل لاء نے بہت سے سیاستدانوں کو چوسنیاں دے کر پالا پوسا اسی طرح مشرف نے بھی اپنے ساتھیوں کو ہر طرح سے نوازاملک کے ہر صوبے کے بے شمار بڑے سیاسی گھرانوں نے مشرف کے ساتھ مل کرانہیں امریکی غلامی کے عوض ملنے والے امریکی ڈالروں سے فیض یاب ہونے میں کوئی کسر نہیں باقی چھوڑی ، مشرف نے ایک طرف وزیروں مشیروں کی ایک بڑی فوج تشکیل دی جس میں معزول کئے گئے وزیر اعظم نواز شریف کے بیشتر قریبی ساتھی بھی شامل تھے بلکہ انہوں نے مقامی حکومتوں کے نظام لا کر ان گنت سیاسی گھرانوں کو مستفید کیا اور گلی محلوں تک فنڈز کی وہ بہار آئی کہ آج بھی ان سے مستفید ہونے والے اسے یاد کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں ، یہ پرویز مشرف کی سیاسی چالیں تھیں جن کے ذریعے وہ ملک کی مقبو ل قیادت کو ملک سے باہر رکھنے پر بضد تھے لیکن انکا بطور حکمران اپنے ہم وطنوں کے لئے ظالمانہ اور امریکیوں کے لئے غلامانہ کردار پاکستان کو نہ صرف غلامی بلکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں لے گیا ، ایک انسان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ جو اپنی ایک سانس تک کو کم یا زیادہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا اس دنیا میں دوسروں پر اتنا ظلم کرے کہ ان کے لئے عرصہ ء حیات کو تنگ کردے ، اپنے اس دنیاوی اقتدار جو دراصل نظر کے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے اسے قائم رکھنے اوردوام بخشنے کے لئے دنیا کی جعلی اور ایک دن مٹ جانے والی نام نہاد سپر پاورز کا دم چھلا بن جائے اورنہتے اور معصوم انسانوں کو ظلم و بر بریت کا نشانہ بنائے، پاکستانی وہ دن کیسے بھول سکتے ہیں جب 12مئی کو کراچی میں مشرف اور اسکی پروردہ پارٹی نے وکلاء کو زندہ جلاڈالاسیاسی کارکنوں کو سر عام گولیاں ماری گئیں اور اسی شام اسلام آباد میں پرویز مشرف نے اپنی اور اپنے گماشتوں کی اس فرعونیت پر مکے لہراتے ہوئے کہا کہ آج کراچی میں ہم نے اپنی طاقت دکھا دی ہے ، مشرف انتہا پسندی کے خاتمے کی بات تو کرتے رہے لیکن انہوں نے ثابت کیا کہ 12اکتوبر 99ء سے لے کر اقتدار سے علیحدگی کا دن آنے تک وہ خود پرلے درجے کی انتہاپسندی کا مظاہرہ کرتے رہے ، انہوں نے بلوچ راہنماؤں سے بات چیت کی بجائے ان سے لڑنے کو ترجیح دی اورنواب اکبر بگٹی کو سرعام للکار کر ہلاک کیا ،لال مسجد آپریشن تو ظلم و بربریت کا وہ باب ہے جسکا ہر صفحہ معصوم بچے بچیوں کے خو ن سے رنگین ہے ، حالانکہ جامعہ حفصہ اور لال مسجد سکیورٹی فورسز کے گھیرے میں تھی اور مبینہ دہشت گرد اگر کوئی تھے بھی تو انہیں گرفتار کرنا کمانڈوز کے لئے مشکل نہ تھا لیکن پرویز مشر ف نے امریکی آقاؤں کی خوشنودی کے لئے فاسفورس بم برسائے تاکہ اندر موجود بچے بچیوں اور اساتذہ کی نعشیں ہی قابل شناخت نہ رہیں اور انہیں جامعہ حفصہ میں دہشت گردوں کی موجود گی کی بات کو ثابت کرنے میں مشکل نہ ہو ، یوں بھی ملک میں قانون آئین عدالتیں سب پرویز مشرف کے تابع تھیں ، آمروں کے اس گھناؤنے غیر آئینی غیر قانونی اور ظالمانہ کھیل کا ساتھ دینے کے لئے ہر دور کی عدلیہ نے انکے سامنے گھٹنے ٹیکے رکھے ، تاریخ میں چند ہی ججز ہوں گے جنہوں نے ڈکٹیٹرز کا قانون قبول کرنے سے انکار کیا ، انہی میں سے ایک مرحوم سعید الزمان صدیقی بھی تھے جنہوں نے مشرف کیبنائے ایل ایف او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کردیا ر گھر چلے گئے تھے، پرویز مشرف جنہیں انکے حامی الیکٹرانک میڈیا کی آزادی اور پاکستان میں میڈیا کو فروغ دینے کا چمپئین قرار دیتے ہیں انہوں نے ہی میڈیا پر پابندیا ں لگائیں ٹی وی چینلز پر حملے کرائے صحافیوں کو بد ترین انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بنایا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پر ویز مشرف کے دور میں اپنے عروج پر تھیں ، لیکن ظلم کا یہ باب ایک نہ ایک دن تو بند ہونا تھا ، اﷲ کی ذات جب کسی سے کام لینا چاہے تو انسانی عقل اسکا احاطہ نہیں کرپاتی،پھر وہ ہوا جسکی کسی کو توقع اور امید تک نہ تھی اپنی طاقت کے غرور اور زعم میں مبتلا پرویز مشرف کے مارشل لاء کے نام نہاد کے قانون ایل ایف او کو قبول کرنے والے جج افتخار چوہدری جب چیف جسٹس کے کردار میں آئے تو انکی مشرف کے ساتھ بگڑ گئی وہ انکے سامنے کھڑے ہو گئے ، پر ویز مشرف نے طاقت اور ریاستی جبر کے ذریعے افتخار چوہدری کو قابو کرنے کی سرتوڑ کو شش کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے ، ملک بھر میں وکلاء سول سوسائٹی اور سیاسی کارکنان افتخار چوہدری کے حق میں باہر نکل آئے اور انکی تحریک کاحصہ بن گئے جس کے نتیجے میں مشرف دن بدن کمزور ہوتے چلے گئے جسکا فائدہ ملک سے باہر بیٹھی خودساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والی سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور خاندان سمیت ملک سے جلا وطن کئے گئے سابق وزیرمیاں نواز شریف نے اُٹھایا ، دونوں نے بظاہر لندن میں بیٹھ کرمیثاق جمہوریت سائن کیا تھالیکن اصل میں یہ پرویز مشرف کو دباؤ میں لانے کی ایک کوشش تھی جس میں وہ کامیاب رہے ،اس حوالے سے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی پیش پیش تھے جنہوں نے دوبئی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی اور انکی مشروط واپسی کا روڈ میپ طے کرایا ،یہ بھی ہماری سیاست کاالمیہ ہے کہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے نام پر جمہوریت ختم کرنے والے مشرف کے ساتھ ہی ملک کی بڑی سیاسی قیادت نے ’’این آر او‘‘ کیا اور مقدمات ختم کرائے ، اسکے بعد بھی ملکی حالات اور اپنی کمزور پوزیشن کی وجہ سے پرویز مشرف محترمہ کی فوری واپسی نہیں چاہتے تھے اس لئے انہوں نے محترمہ کو ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کیں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو تمام دھمکیوں کو نظر انداز کر کے واپس آئیں جن کے آنے سے چنداسلامی ممالک میں بیٹھے نواز شریف کے حامی اور دوست ان کی واپسی کے لئے پر ویز مشرف کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور بالآخر میاں نواز شریف بھی وطن واپس آگئے ، وطن واپسی پر بے نظیر بھٹو نے افتخارچوہدری کی بحالی مہم میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور انکا جھنڈا اٹھا لیا تو پرویزمشرف کا غصے سے برا حال ہو گیا ( جاری ہے )
 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67823 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.