ایک درویش آفیسر کی الوداعی تقریب

30دسمبر 2014 کو دربارہال سیکرٹریٹ میں اپنے اعزاز میں دی گئی الوداعی پارٹی میں خطاب کرتے ہوئے اُس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن(ر) نوید اکرم چیمہ نے ریٹائرمنٹ پر بڑے خوبصورت پیرائے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے آج یو ں محسوس ہورہا ہے کہ آج سے 42سال قبل میں نے فولادی صندوق اپنے کندھوں پر اُٹھایا ہوا تھا اور پاکستان ملٹری اکیڈیمی کا کول میں گیٹ سے گزر کر اند ر داخل ہوا تھا اور آج42سال بعد یادوں کا وہی صندوق کندھوں پر اُٹھاکر سیکرٹریٹ کا گیٹ عبور کر کے گھر جا رہا ہوں اور چار عشروں سے زائد یہ وقت ایسے گزرا کہ احساس تک نہ ہوا وجہ یہ تھی کہ میں نے بحیثیت پبلک سرونٹ ساری سروس میں عوام کواپنے قلمی فیض سے حتی الوسع محروم نہیں کیا اور زبان سے کبھی کسی کی بھی عزت نفس کو مجروح نہیں کیا۔ یہ بات مجھے اس لئے یاد آئی کہ 31دسمبر کو سینئر انسٹرکٹر اُردو زبان دفتر ی عبدالفغور عاجز ریٹائرڈ ہوئے اور چار عشروں پر محیط مدتِ ملازمت مکمل کرنے کے بعد سیکرٹریٹ سے ماضی کی حسین یادیں لے کر گھر سدھار گئے۔

جنوری 1982ء سے اپنی ملازمت کا آغاز کرنے والے جناب عبد الغفورعاجز گوجرانوالہ کے ایک سادہ سے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں بطور سٹینو گرافر تقرری کے بعد، جانفشانی، لگن ، دیانت داری اور ملی جذبہ سے خدمات سر انجام دیتے ہوئے ترقی کے متعدد مراحل طے کرتے کرتے گریڈ 19 میں بطور ٹریننگ سیکشن، آفیسر/سینئر انسٹرکٹرOLCآ رکائیوز ایس اینڈ جی اے ڈی کے عہدہ پر تعینات رہ کر ریٹائرڈ ہوئے۔ اِن کی سروس کی نوعیت ٹیکنیکل طرز کی رہی۔ پنجاب سِول سیکرٹریٹ اور ملحقہ محکموں کے عملہ جن میں سٹینوگرافر، کلرک اور دیگر اہلکاران، میٹرک پاس دفتری ملازمین، دفتری اُردو ترتیب، اِن پیج اُردو ٹائپ کمپیوٹرٹریننگ اور اُردو شارٹ ہینڈ کی تربیت، ایک مرحلہ وار کلاسوں کی صورت میں دیتے رہے۔ ان کے تربیت یا فتہ اہلکار تمام محکموں میں خاصی تعد اد میں کا م کررہے ہیں۔

آپکے ذمہ کلیریکل کیڈر کے ملازمین کو اُردو ٹائپ میں مہارت مہیا کرنا تھا مگر آپ اس فرائض منصبی کے ساتھ ساتھ تربیت کا فریضہ بھی سرانجام دیتے، اخلاق سنوارنے پر خصوصی توجہ صرف کرتے ۔ خدمت خلق کا جذبہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، مخلوق خدا سے پیار اور ہمدردی، اُن کی مشکلات کو آسانی میں بدلنے کے لیے تڑپ دیدنی ہوتی۔آپکی بذلہ سنجی اور محفل کو کشتِ زعفران بنانے کی خوبی نے آپکو اپنے حلقہ احباب میں ہر دلعریز شخصیت بنایا ہوا تھا، دانشورانہ گفتگو سے اپنے مخاطب کو گرویدہ کر لیتے، یہ جو مقولہ ہے کہ وسیع المطالعہ شخص وسیع القلب ہوتاہے آپکی شخصیت پر ہمیشہ پورا اترتا، اجتماعی سوچ کی بات پروآن چڑھاتے ملک و ملت کی موجودہ تباہی وبربادی پر کڑھتے اور اس کے اسباب ڈھونڈتے رہتے۔روایتی مسکراہت ہمیشہ اِن کے چہرے پر سجی رہتی اور اپنا نقطہ نظر انتہائی ملائم لہجے میں دوسروں تک پہنچانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ایک آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک اُستاد کے کردار کی عکاسی کرتے ہوئے قول وفعل میں یکسانیت ،انسانیت کی تربیت، قوت برداشت ،خیر خواہی ، تحمل مزاجی ، قناعت پسندی اور استقامت جیسی خوبیوں سے مزین شخصیت کے حامل تھے۔

موصوف ایک سرکاری آفیسر ہونے کے ساتھ ساتھا علم و ادب کی دُنیا سے بھی تعلق رکھتے تھے عآجز صاحب ادیبوں میں آفیسر اور آفیسروں میں ادیب ہوتے تھے۔ قومی، اسلامی، اصلاحی عنوانات پر کثیر مقالہ جات، کالم، روز نامہ نوائے وقت ، جنگ جرأت، مشر ق وغیرہ کے علاوہ دیگررسائل وجرائدکی زینت بنتے رہے وہ اپنی طرز کے صاحب اسلوب ادیب اور کالم نگار تھے، تحریری میدان میں وہ اپنا تخلص عاجز رکھنے کی وجہ سے اسی نام سے معروف ہوئے ۔ اس سلسلہ میں اُن کی سرکاری خدمات کے ساتھ ساتھ سب سے بڑی کاوش 390صفحات پر مشتمل دینی وتحقیقی کتاب منہاج الحدیث اور پاکستان کی سطح پر ہونے والے ،تحریری مقابلہ جات بعنوان، پیغمبرامن، سیرت النبی ﷺپر120صفحات پر مشتمل طویل مقالہ لکھا، جو کہ تحریری مقابلہ میں اوّل انعام یافتہ قرار پایا۔ علاوہ ازیں تحریری میدان میں کل پاکستان تحریری مقابلہ بعنوان، منشیات ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ، میں پہلی پوزیشن رکھتے ہیں ۔ادارہ قومی تشخص پاکستان لاہور کے زیر اہتمام عالمی تحریری مقابلہ بعنوان’’ ہمارے اخلاق وکردار کے زوال کی وجوہات اور اُن کا ادراک میں دوسری پوزیشن حاصل کرچکے ہیں اور اس سلسلہ میں ایک تقریب کے دوران اُس وقت کے وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس گُل محمد نے اُنہیں اسناداور انعامات سے نوازا تھا۔

آپکے شاگِردوں کا حلقہ پورے سیکرٹریٹ میں ہے جس بنا پر آپکے اعزاز میں الوداعی تقاریب کا 4مرتبہ انعقاد ہوا ،پنجاب سول سیکرٹریٹ ایمپلائز ایسوسی ایشن جو کہ سات ہزار سے زائد سیکرٹریٹ ملازمین کی منتخب نمائندہ تنظیم ہے نے بھی آپکی ریٹائرمنٹ پر الودعی تقریب کا خصوصی اہتمام کیا جس میں عہدیداران سمیت ایگزیکٹو ممبران نے بھی بھر پور شرکت کی اس موقع پر آپکو ایسوسی ایشن کی جانب سے یاد گاری شیلڈپیش کی گئی ۔عبد الغفور عاجز اپنے ماتحت محمد رمضان مرحوم جو کہ اُردو ٹائپ کے سینئر اسٹینوگرافر تھے ایسوسی ایشن کی سرکاری خط وکتابت ٹائپ کرواتے تھے ایسوسی ایشن کو اس سلسلہ میں اُن کا مثالی تعاون حاصل تھا، اُنہوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے ایسوسی ایشن کے کا م کو خصوصی ترجیح دی۔کبھی کبھی وہ اپنے تجربہ کی روشنی میں راہنمائی بھی فراہم کرتے۔ اُن کے اعزاز میں منعقد کی گئی الوداعی تقریب کے دوران اُنکی خدمات کو سراہتے ہوئے صدرایسوسی ایشن راجہ سہیل نے انتہائی شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا، اور اُن کی بقیہ ماندہ زندگی کے لیے صحت وسلامتی کی دُعا کی اس تقریب میں کاشف اُسامہ ، ذوالفقار علی منہاس ، محمد ظفر ، محمد انور نے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

مہمان خصوصی کی حیثیت سے عبد الغفورعاجز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ احباب میرے لئے بقیہ ماندہ زندگی صحت اور ایمان کے ساتھ خدمت دین میں گزرنے کی دُعائیں کرتے رہنا۔مزید کہا کہ اﷲ تعالیٰ مجھے ایمان و سلامتی ، صحت وتندرستی کے ساتھ عبادت میں وقت گزارنے والی زندگی سے نوازے تاکہ میں کسی کا مرحونِ منت نہ رہوں اور عبادت الہی اور محبت رسولﷺ میں مشغول رہ کرشُب روز گزاروں،اور اﷲ میر ے لئے آسانیاں پید ا کردے تاکہ میں’’ خدمت خلق عین عبادت ہے‘‘کے زریں اصول پرتا حیات عمل پیر ا رہوں اور خلق خدا کا احساس میرے ساتھ ہمیشہ رہے ۔علاوہ ازیں محترمہ عائشہ حمید، سیکرٹری آرکائیوز پنجاب نے بھی ان کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا انعقاد کیا اور اُن کی گراں قدر سرکاری خدمات کو سراہا۔جبکہ(OLC)ونگ اور اُردو نامہ کے مدیرکاشر عدیل اور ساتھیوں نے بھی عزت افزائی کرتے ہوئے ایک پُر وقار تقریب میں اُن کی خدمات کو سنہری حروف میں یاد کیا۔
راقم چونکہ شوقیہ کالم نگاری کرتا ہے عاجز صاحب اس سلسلہ میں میری بھر پور رہنمائی اور اصلاح کرتے رہتے میں بھی ہمیشہ اُن کا ادب بطور اُستا د ملحوظِ خاطر رکھتا۔راقم الحروف نے بھی بھر پور انداز میں اُن کی خدمات کا اعتراف کیا اور دُعائیں دیں۔

راقم سمجھتا ہے عاجز صاحب کے لہجے میں اپنائیت اور چاشنی ایسی کہ مخاطب اُن کی صحبت میں اس کی حلاوت محسوس کرتا، مخاطب کو روایتی مسکراہٹ سے گھا ئل کرنے کے فن سے آشنا تھے، بُلند اخلاقی معیار اُن کے طرزِ تکلم کو چار چاند لگا دیتا۔ عبدالغفور عآجز پنجاب سول سیکرٹریٹ میں اچھی یادیں اور انمٹ نقوش چھوڑ کر گئے ہیں جبکہ محبت اور اپنائیٹ کی خوشبو سمیت الوداع ہوئے ہیں ۔ یا ر زندہ ، صحبت باقی !آخر پر اُن کی نذر ایک شعر!
نگاہ بُلند، سخن دلنواز ۔ جاں پُر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
 

Ch Ghulam Ghaus
About the Author: Ch Ghulam Ghaus Read More Articles by Ch Ghulam Ghaus: 11 Articles with 8889 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.