وعدہ ہوگیا پورا: آگئےاچھے دن

 آکسفیم کی تازہ رپورٹ شاہد ہے کہ وطنِ عزیز میں سرمایہ داروں کے اچھے دن آچکے ہیں۔ ہندوستان میں 2020 کے اندر ارب پتیوں کی تعداد 102 تھی جو 2022 میں بڑھ کر166 ہو گئی۔ یہ تو خیر تعداد کا اضافہ ہے لیکن ان کی ملکیت بھی خوب بڑھی ہے۔ کورونا کی وبا کے شروع ہونے سے لے کر نومبر 2022 تک ہندوستانی ارب پتیوں کی ملکیت 121 فیصد بڑھی ہے۔ یومیہ 3608 کروڑ روپے یعنی 2.5 کروڑ روپے فی منٹ کی رفتار سے یہ بڑھوتری ہوئی ہے۔ ظاہر ہے اس کا سب سے زیادہ فائدہ ملک کی امیر ترین شخصیت یعنی وزیر اعظم کے منظورِ نظر گوتم اڈانی کو ہوا ہوگا ۔ 2022 کے اندر ان کی ملکیت میں 46 فیصد کا اضافہ ہوا۔ مذکورہ رپورٹ یہ انکشاف بھی کرتی ہے کہ 21-2012 کے دوران وطنِ عزیز کے اندر ملکیت میں ہونے والے اضافہ کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ اوپر والی 1 فیصد آبادی کی تجوری میں چلا گیا ۔ اس کے برعکس نیچے کی 50 فیصد آبادی کو محض 3 فیصد پر اکتفاء کرنا پڑا۔

آکسفیم انڈیا کی اس رپورٹ میں اقتصادی نابرابری کے حوالے سے یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے 100 سب سے زیادہ امیر لوگوں کی مجموعی ملکیت 54 لاکھ کروڑ روپے پہنچ چکی ہے۔ یہ خطیر رقم 140 کروڈلوگوں کے لیے بنائے جانے والے 18 ماہ کے مرکزی بجٹ سے زیادہ ہے۔ ملک میں معاشی عدم مساوات کا یہ عالم ہےکہ سب سے امیر 21 ہندوستانی ارب پتیوں کے پاس 70 کروڑ ہندوستانیوں سے زیادہ ملکیت ہے۔ صرف 5 فیصد ہندوستانیوں کے پاس ملک کی ملکیت کا 60 فیصد حصہ ہے جبکہ نیچے کے 50 فیصد ملک کی جملہ ملکیت میں محض 3 فیصد کے مالک ہیں ۔ حکومتِ وقت آئے دن غریب عوام کی تعلیم اور صحت جیسے شعبوں پر شب خون مار رہی ہے لیکن امیروں کی روز افزوں دولت میں اضافہ کے لیے سہولت فراہم کررہی ہے۔ رپورٹ میں یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ سب سے امیر 10 ہندوستانیوں کی گزشتہ سال میں 33 فیصد اضافہ کے بعد کل ملکیت 27 لاکھ کروڑ روپے پر پہنچ گئی جو صحت اور آیوش وزارتوں کے 30 سالہ بجٹ، وزارت تعلیم کے 26 سال کے بجٹ اور منریگا کے 38 سال کے بجٹ کے برابر ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت عوامی فلاح و بہبود پر کتنا کم خرچ کرتی ہے اور اس میں آئے دن کٹوتی کیوں کی جاتی ہے؟

ہندوستان کے اندر غربت اور خوشحالی کے درمیان بڑھتی ہوئی کھائی کی وجہ یہ ہے کہ سرکار نے کارپوریٹ ٹیکس میں 2019 کے اندر کمی کردی۔ موجودہ سرکار نے بڑے سرمایہ داروں سے چندہ حاصل کرکے جو انتخاب جیتا تھا اس کے بدلے انہیں نواز دیا گیا۔ اس رعایت کے سبب سال 2021 میں سرمایہ داروں کو 103285 کروڑ روپے کا فائدہ ملا۔ یہ رقم و 1.4 سال کے لیے منریگا بجٹ کے برابر ہے۔ ملک میں ارب پتیوں کے ’اَن ریئلائزڈ گینس‘ پر اگر یکبارگی 20 فیصد ٹیکس لگا دیا جائے تو اس سے (21-2017 کے دوران) 1.8 لاکھ کروڑ روپے حاصل کیے جا سکتے تھے۔ یہ رقم ایک سال کے دوران پرائمری اسکولوں میں 50 لاکھ اساتذہ کو روزگار دینے کے لیے کافی ہے لیکن ہم دو ہمارے دو کی سرکار تو تعلیم کی نجکاری کرکے اس سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔ ایسا کرنے سے صرف خوشحال لوگوں بچے بین الاقوامی اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے اور غریبوں کے بچے ان پڑھ رہ جائیں گے۔ سرمایہ داروں کو فی الحال پڑھے لکھے لوگوں کی ضرورت نہیں بلکہ ان پڑھ مزدور درکار ہیں جو ان کے سامان کو گاہکوں تک پہنچانے کی حمالی کرسکیں ۔ باقی آن لائن خریدو فروخت اور رقم کی ادائیگی تو از خود ہو جاتی ہے۔

حکومتِ وقت کو آکسفیم کی اس اپیل سے کوئی سروکار نہیں جس میں انتہائی نابرابری کو ختم کرنے کی گہار لگائی گئی ہے۔ اس مؤقر ادارے نے ملک میں معاشی عدم مساوات کے پیش نظر آئندہ بجٹ میں ملکیت ٹیکس جیسے برابری والے اقدام کرنے کی سفارش کی لیکن مودی سرکار تو الٹا ان کو سہولت دینے میں مصروف ہے۔ منموہن سنگھ کی دوسری میقات میں کارپوریٹ ٹیکس کل جی ڈی پی کا 3.34% فیصد تھا یہ گھٹ کر مودی کی دوسری میقات میں 2.3% پر آگیا۔ اس کے برعکس عام لوگوں سے دبا کر جی ایس ٹی وصول کیا گیا ۔ بڑے سرمایہ داروں کو جو جی ڈی پی کے ایک فیصد سے نوازہ گیا اس سے پورے سال کے تعلیمی اخراجات کوپوراکیا جاسکتا تھا۔ بعید نہیں کہ بی جے پی کو دنیا کی سب سے امیر پارٹی بنانے میں اس سہولت کا حصہ ہو کیونکہ اگر ہر سرکار ایک ہاتھ سے دیتی ہے اور دوسرے ہاتھ سے لینے میں بھی نہیں ہچکچاتی اور اگر کوئی آنہ کانی کرے تو ای ڈی کا ڈنڈا یا سی بی آئی کی تلوار موجود ہی ہے۔ موجودہ حکومت سرکاری خزانے سے زیادہ فکر مند پارٹی کی تجوری کو لے کر ہے اور اسی سبب سے وہ دنیا کی امیر ترین پارٹی بن گئی ہے۔

آکسفام کی رپورٹ نے بابری مسجد کی شہادت کے بعداس وقت کے وزیر اعظم نرسمہاراو کے اعلان کی یاد تازہ کردی ۔ انہوں نے لال قلعہ کی فصیل سے وعدہ کیا تھا کہ مسجد دوبارہ تعمیر کی جائے گی ۔ مسلمانوں نے اس کا مطلب یہ سمجھا کہ جہاں بابری مسجد تھی وہیں دوبارہ مسجد کی تعمیر ہوگی لیکن یہ ان کی غلط فہمی تھی۔ آگے چل کر جب نرسمہا راو سے پوچھا گیا کہ وہاں اگر مندر بن جائے تو بابری مسجد کیسے تعمیر ہوگی اور وعدہ کیسے پورا ہوگا تو انہوں نے وضاحت کی کہ وعدہ تو مسجد کو دوبارہ تعمیر کرنے کا ہے۔اسی جگہ تعمیر کرنے کا نہیں ہے۔ 2014 کی انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں شامل نریندر مودی نے نعرہ لگایا تھا کہ ’اچھے دن آنے والے ہیں‘۔عام لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان کی بدحالی دور ہونے والی ہے اور خوشحالی آیا چاہتی ہے۔ یہ عوام کی خوش فہمی تھی کیونکہ مستقبل کے وزیر اعظم نے یہ بتایا ہی نہیں تھا کہ کس کے ’اچھے دن آنے والے ہیں‘۔ انتخاب جیتنے کے بعد بڑودہ میں یہ نعرہ بدل کر اس طرح لگا کہ ’اچھے دن آچکے ہیں‘ لوگ حیران ہوگئے کہ ابھی کہاں آئے ؟ لیکن مودی جی کے اچھے دن تو آ ہی چکے تھے اور اب یہ نعرہ لگتا ہی نہیں کیوں کہ ان کی حمایت کرنے والے سرمایہ داروں کے بھی اچھے دن آچکے ہیں ۔ جہاں تک عوام کا سوال ہے ان کے اچھے دن نہ آئے ہیں نہ آئیں گے۔

مودی سرکار کے پہلے 8؍ سالوں میں بڑے کارپوریٹ نے اپنا 12 لاکھ کروڈ قرض معاف کروالیا یعنی چرا لیا۔عالمی معیار سے 4-6 گنا زیادہ ہے ۔ امریکہ اور برطانیہ یہ ڈوبنے والی رقم جملہ قرض کا صرف ایک فیصد ہوتی ہے جبکہ کینیڈا اس سے نصف سے بھی کم ہے۔ کوریا اور سوئزرلینڈ تو عشاریہ ۲ اور عشاریہ ۷ فیصد پر ہے۔ چین اور ملیشیا 1.7% پر ہیں ۔اس معاملے ہندوستان روس جیسے بدعنوان ملک سے بھی آگے نکل گیا ہے جہاں یہ 8.3% ہے۔ مودی جی نے جب اقتدار سنبھالا تو 4.1% فیصد پر تھا مگر 31.3.2018 کو 11.46% پر پہنچ گیا ۔ درمیان میں 12.17% پر پہنچنے کے بعد پچھلے سال مارچ میں 5.9% پر آیا مگر پھر ستمبر میں 6.5% پر چلا گیا ۔ ریزرو بنک نے ستمبر 2023 میں اس کے ستمبر 9.4% تک پہنچنے کی پیشنگوئی کی ہے۔ یہ تناسب سرکاری بنکوں سے زیادہ نجی بنکوں میں ہےیعنی ان کے ڈوبنے کا امکان زیادہ ہے۔

ایک مسئلہ غیر فعالاثاثوں کا بھی ہے ۔ دسمبر2022 میں وزارت مالیات نے بتایا کہ مارچ 2014 میں اس کی مقدار 9.63 لاکھ کروڈ تھی جو مارچ 2018 تک یعنی چار سالوں میں چار گنا بڑھ گئی۔ اس خسارے کو پورا کرنے کی خاطر منموہن سنگھ نے 1.93 لاکھ کروڈ یعنی 3-4% مختص کیے تھے مودی جی کو پانچ گنا سے زیادہ 10.16 لاکھ کروڈ رکھنے پڑے۔ ای ڈی نے27 گنا زیادہ چھاپے مارے لیکن چونکہ وہ مخالفین کوڈرانے یا ان سے انتقام لینے کےلیےتھے اور اپنوں کو بخش دیا گیا تھا اس لیے خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا۔ 64کروڈ کی بوفورس بدعنوانی پر شور مچانے والی بی جے پی اب تک سرکاری خزانے کے 12 لاکھ کروڈ گنوا چکی ہے۔

آکسفیم نے اپنی تازہ رپورٹ کا عنوان چارلس ڈارون کی مشہور اصطلاح ’سروائیول آف دی فیٹسٹ‘میں ترمیم کر کے ’سروائیول آف دی ریچسٹ: دی انڈیا اسٹوری‘ رکھا ہے۔ یہ عنوان ساری دنیا کے لیے نہیں بلکہ صرف مودی جی کے نئے ہندوستان کی خاطر مخصوص ہے۔ اس اصطلاح کا دلچسپ پس منظر ملک کی موجودہ معاشی صورتحال کے مطابق ہے ۔ انسانی ارتقاء پر چارلس ڈارون کے کام سے متاثر ہوکر1864 میں ہربرٹ اسپینسر نام سب سے پہلے اپنی کتاب پرنسپل آف بایولوجی میں اس کا استعمال کیا اور پھر پانچ سال بعد ڈارون اسے اپنی کتاب ’آن اوریجن آف سپیشیس کے پانچویں ایڈیشن میں اپنا کرکے عالمی محاورہ بنادیا ۔ اس کے معنی ہیں جو جانداراپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرلیتے ہیں وہ اپنی بقاء و ترویج میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ ساری دنیا تو ڈارون کی تھیوری کو ’سروائیول آف دی فیٹسٹ‘سے منسوب کرتی ہے مگر وہ خود اس کے بجائے ’سروائیول آف دی فیٹر‘میں یقین رکھتے تھے۔

ڈ ارون کے مطابق وجودیت کی کشمکش مطلق نہیں بلکہ موازنہ یا نسبت سے بیان ہوتی ہے ۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ماحول کے ساتھ بہترین انداز میں مطابقت پیدا کرنے والے جاندار بھی حالات کی تبدیلی کے سبب ناکام ہوجاتے ہیں۔ اس کے لیے ڈراون نے ماموتھ کی مثال پیش کی ہے جو برفانی ماحول سے بہترین مطابقت رکھنے کے باوجود انسانوں کے ذریعہ شکار کرنے اورکرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ کی وجہ سے 11,700 سال قبل ناپید ہوگیا۔ ہندوستان کے عام آدمی پر یہ مثال صد فیصد صادق آتی ہے کیونکہ وہ تو ہر ماحول سے مطابقت پیدا کرلیتا ہے لیکن حکومت ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ پریشان ہوگیا ہے۔ سرمایہ اس کا اس قدر استحصال کرتے ہیں کہ اس کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق اس کی حالت زار پر اعجاز رحمانی کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
گزر رہا ہوں میں سودا گروں کی بستی سے
بدن پہ دیکھیے کب تک لباس رہتا ہے

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1229754 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.