حقوق انسانی کی پامالی کے درمیان ’عالمی یوم حقوق انسانی‘

 دنیا کے مختلف حصّوں میں جس طرح انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس لحاظ سے 10 ؍ دسمبر کی تاریخ کی اہمیت عالمی سطح پر کافی بڑھ جاتی ہے۔ 10 ؍دسمبر1948 کوہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بدلتے وقت اور حالات میں بڑھتی انسانی حقوق کی پامالی کے باعث انسانی حقوق کا آفاقی منشور منظور کیا تھا ۔اس انسانی حقوق کے آفاقی منشور کو انگریزی میں Universal declaration of Human Rights کا نام دیا گیا تھا ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس منشور کی منظوری کے وقت اسے تمام افراد اورا قوام کے لئے حصول مقصد کا مشترک معیار قرار دیا تھا ۔ جسے عالمی سطح پر انسانی حقوق کے تعلق سے باضابطہ پہلے اعلان کے طور پر بھی مانا جاتا ہے۔جس کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ہر سال دنیا کے بیشتر ممالک میں انسانی حقوق کے لئے بلکہ انسانی اقدار و انسانی وقار کی عظمت کے اعتراف کے لئے مختلف سیاسی وسماجی پلیٹ فارموں سے کانفرنسوں، سیمیناروں اور مباحثوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کے لئے سرگرم عمل مختلف سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں اور شعبوں کے ذریعہ تقریبات و نمائش کا انعقاد کر کے حقوق انسانی کے تعلق سے درپیش مسائل کے تدارک کے لئے لائحہ عمل تیار کئے جاتے ہیں ۔ عالمی سطح پر یوم انسانی حقوق کے لئے 10 ؍دسمبر کی تاریخ کو اس قدر اہمیت دی گئی کہ اسی تاریخ کو انسانی حقوق کے لئے مختلف سطح پر خدمات انجام دینے والوں کو پانچ سالہ اقوام متحدہ انعام اور نوبل امن انعام سے نوازا جاتا ہے۔ ـ’ عالمی یوم حقوق انسانی ‘ کے سلسلے میں کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کاانفرادی فطری حقوق کا تصورجان لاک(John Locke) نے دیا تھا ۔ جان لاک (1632-1704) نے نظریہ حریت فطری کے تصور کو پیش کیا تھا ، جو عالمی انسانی حقوق کی جانب پہلا قدم سمجھا جاتا ہے۔ ویسے اس سلسلے میں میرا ماننا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی نہ ہو اور انسان خودکو پیدائش سے ہی نہ صرف آزاد محسوس کرے بلکہ وہ مساوات اور انصاف کے تحت آزادانہ طور پر اپنے تمام ترحقوق کے ساتھ زندگی گزارے۔اس کا پہلا اور باضابطہ نظام حیات کا تصور اب سے چودہ سو سال قبل ہمارے آخری پیغمبرمحمدﷺنے قران کے حوالے سے دیا تھا ۔ لیکن عام طور پر اس کا اعتراف کرنے والے اس لئے نہیں ملتے ہیں کہ بعض اسلام دشمن ، اسلام کی صحیح تصویر کی بجائے اسے مسخ کر پیش کرتے ہیں ،جس کی جانب ہماری توجہ نہیں ہے، جو بہرحال افسوسناک ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر حقوق انسانی کے لئے کسی منشور یا لائحہ عمل کی ضرورت ہی کیوں پڑی۔ اس سے قبل بھی تو انسانی حقوق سلب کئے جارہے تھے ، انسانی استحصال کا سلسلہ عام تھا اور انسانی رشتوں کی، انسانی اقدار کی پامالی ہو رہی تھی ۔

دراصل دوسری عالمی جنگ عظیم ( 1939-1945) میں انسانیت اور انسانی زندگی جس بے رحمی، بربریت سے حیوانیت کی شکار ہو ئی۔ سفاکیت اور قتل و غارت گری کے جس طرح مظاہرے ہوئے ۔ دنیاکا امن و امان جس طرح خاک وخون سے لت پت ہوا۔ خاص طور پر ہٹلر نے جس طرح انسانیت اور انسانی حقوق کو پامال کیا ، اس دورکے درد و کرب سے بھری ،انسانی چیخ و کراہ کے سانحات سننے کے بعد آج بھی لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، انسانی جسم میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔اب غور کیجئے کہ ہٹلر کی حکومت نے اپنے مخالفین کی بڑھتی تعداد کو اجتمائی موت کے منھ میں ڈالنے کے لئے جو گیس چیمبر تیار کرایا تھا ۔ اس تجربہ گاہ میں تجربہ کے لئے رومانیہ کے تقریباََ چار سو معصوم بچوں کا اغوا کر ایا گیاتھا اور بڑی بربریت اورسفاکیت سے مختلف گیس چیمبروں میں تجربہ کر تے ہوئے مار ڈالا گیا تھا ۔ اس سے بڑھ کر اور حیوانیت کیا ہو سکتی ہے۔ اس سے بڑھ کر غیر انسانی سلوک کیا ہو سکتا ہے ۔ ایسے بے شمار سانحات اور حادثات دوسری عالمی جنگ میں دیکھنے کو ملی تھیں ، جس سے ا نسایت کانپ اٹھی تھی ۔ ایسے میں عالمی جنگ ختم ہوتے ہی امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لئے اورظلم، تشدد، سفاکیت اور حیوانیت سے انسان کو محفوظ رکھنے کے لئے عالمی سطح پر غور و فکر کیا جانے لگا اور سب سے پہلے ایسی بھیانک جنگ و جدال کو روکنے کے لئے اقوام متحدہ کا قیام عمل میں لا یا گیا اور اس کے فوراََ بعد ہی دنیا کے مختلف خطوں میں ہو رہی بربریت ،دہشت اور حیوانیت اور وحشیانہ عمل میں ڈوبی درد و کرب سے چیختی، کراہتی انسانیت کے لئے عالمی سطح پر حقوق انسانی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ، اس کے لئے باضابطہ طور پر ایک منشور تیار کیا گیا ۔جس کا بنیادی مقصدیہ تھا کہ انسان دنیا میں آزاد اور پُر امن رہے۔ اس لئے کہ انسانی تاریخ کے اوراق یہ بتاتے ہیں کہ مذہب،سیاست،معیشت،ثقافت، زبان ، رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانی حقوق کی پامالی کا سلسلہ عرصہ دراز سے عام تھا ۔ گرچہ اتنے برسوں کے گزر جانے کے بعد اور اتنی کوششوں کے باوجود بھی دنیا میں امن و امان کا ماحول قائم نہیں ہوا ہے۔ جو پوری انسانیت کے لئے بڑا المیہ ہے۔لیکن پہلے ایسا کوئی منشور اور کوئی نظم و ضبط کی پابندی لگانے والا ادارہ قائم نہیں تھا کہ جس کے سامنے، ظلم و زیادتی اور استحصال کرنے والے ملک کے خلاف اٹھائی جاتی ۔ مثال کے طور پر جس طرح ہٹلر اور مسولینی وغیرہ کو پوری دنیا میں انسانیت کے قاتل کے طور پر یاد کیاجاتاہے۔ان سے شدید نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ویسی ہی صورت گزشتہ دنوں میں میانمار میں دیکھنے کو ملی ہے۔ جب امن کے پیامبر مہاتما بدھ کے ماننے والوں نے روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا۔دنیا میں درندگی اور قتل و غارت گری کی مثال اس وقت صرف میانمار ہی نہیں ہے، بلکہ شام، مصر،عراق،افغانستان، فلسطین اور ابھی یوکرین وغیرہ میں جیسے جیسے انسانیت سوز واقعات ہورہے ہیں ، وہ نہ صرف حقوق انسانی بلکہ پوری انسانیت کے لئے بد نما داغ ہیں ۔جو تاریخ کے صفحات پر درج ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کے منفی کردار کی یاد دلاتے رہینگے۔ افسوسناک اور المناک صورت حال یہ بھی ہے کہ آج بھی طاقت ور قومیں کمزور ممالک پر مسلط ہیں ۔ ایک طرف دنیا کے مختلف ممالک میں جہاں مٹھی بھر لوگ اعلیٰ معیار زندگی گزار رہے ہیں ، وہیں دوسری جانب بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو بھوک، پیاس، غربت، غلامی، ناخواندگی،، تنگدستی، بے روزگاری کی شکار ہے ۔ایسے لوگ حاشیہ پر پڑے ہیں،ا ن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس تناظر میں ہم اپنے ملک بھارت کے منظر نامے ایک نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں یہاں بھی انسانیت چیختی اور کراہتی ہوئی ملتی ہے۔ اس قدر خوف و دہشت میں ڈوبی زندگی لوگ گزار ہیں کہ یقین نہیں ہوتا ہے کہ ان پر مظالم کے پہاڑ توڑنے والے وہ لوگ ہیں ، جو دور جدید کے ترقی یافتہ لوگ ہیں ۔ ایسے ایسے سانحات اس ملک میں رونما ہو رہے ہیں ، جہاں کی پرانی انسانی قدروں اور تہذیب کو گنگا جمنی قدروں اور تہذیب کا نام دیا جاتا ہے ۔ افسوس کہ انسانی حقوق کی پامالی اور اخلاقی زوال کا جیسے یہ ملک مرکز بن گیاہے۔

ہم اپنے ملک میں حاصل ہونے والی بنیادی سہولیات یا حقوق انسانی کی بات کریں ، تو ہمیں حد درجہ مایوسی کا سامنا ہوتا ہے۔ جو ملک آج بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کا خواب دیکھ رہا ہے ،وشو گرو بننے کی بات کر رہا ہے۔ وہاں کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے کہ جنھیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔بھوک سے ستائے ہوئے لوگوں کی تعداد بھی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ہنگر انڈیکس میں شرمناک حد تک نیچے آگیا ہے۔ ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بچوں کا ایسا ہے ، جو تغزیہ کا شکار ہے۔ جھارکھنڈ میں بھات بھات مانگتی ہوئی بچی تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے ، لیکن ترقی کا دعویٰ کرنے والی حکومت خاموش رہتی ہے ۔ ایسے دل دہلا دینے والے سانحات آئے دن سامنے آ رہے ہیں۔ انسانی حقوق کے سلسلے میں دھواں دھار تقریر کرنے والے ذمّہ دار اشخاص اس بات کو بڑے ہی ڈرامائی انداز میں نظرانداز کر جاتے ہیں کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں دو وقت کی روٹی کے لئے یہاں کی عورتیں اور بچے ، اینٹیں ڈھونے اور پتھر توڑنے جیسی سخت محنت مزدوری کرنے ، کے ساتھ ساتھ اپنی عصمت تک بیچنے پر مجبور ہیں۔ یہاں کی عورتیں اور بچے جگہ جگہ کوڑوں کے ڈھیر سے اپنی بھوک مٹانے کے لئے سڑے گلے کھانے اور دیگر اشیا چنتے نظر آتے ہیں۔ اس ملک کی عورتوں کی بڑی تعداد ایسی ہے ، جو خون کی کمی کی شکار ہے۔ جس کے باعث ان میں سے زیادہ تر عور توں کی زچگی کے دوران موت ہو جاتی ہے۔غریب و نادار لوگوں کے لئے صحت کی سہولیات کا یہ عالم ہے کہ ایک اسپتال میں سیکڑوں بیماربچے صرف آکسیجن کی کمی سے، دنیا دیکھے بغیر چل بستے ہیں۔تعلیم کی بنیادی اور انسانی حق کی حصولیابی کا یہ حال ہے کہ پیسے والوں کے لئے، مہنگی فیس پر ہرعلاقے میں نجی اسکول موجود ہیں ۔ لیکن غریب بچوں کے لئے سرکاری اسکولوں میں بیٹھنے کی جگہ ہے اور نہ ہی اسکولی ٹیچر دستیاب ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پڑھائی چھوڑ کر غریبوں کے بچے کل کارخانوں، موٹر گیراجوں اور ہوٹلوں وغیرہ میں مزدوری کرتے نظر آ تے ہیں۔ جو ان نا مسائد حالات میں بھی کسی طرح پڑھ لکھ لیتے ہیں، ان کے سامنے بے روزگار ی کا مسئلہ عفریت بن کر سامنے کھڑا ہے ۔ چند سال قبل مدھیہ پردیش میں نو ہزار دو سؤ پٹواری کے پوسٹ پر بحالی کا اشتہار کے جواب میں اس ریاست کے دس لاکھ چالیس ہزار نوجوانوں نے درخواست دی تھی، ان میں تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل ہیں۔ اسی سے نوجوانوں کی بے کاری اور بے روزگاری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔بے روزگاری سے تنگ آکر ایسے نوجوان یا تو خودکشی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا پھر غلط راستے پر چل پڑتے ہیں ۔یہ ساری محرومی، بے بسی، تنگ دستی، سب کے سب حقوق انسانی کی پامالی ہی تو ہے۔ حکومت، ایک طرف تو ملک کے عام انسانوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہے اور دوسری طرف یہاں کے لوگوں کے کھانے، پینے ، لکھنے، بولنے پر بھی پہرے بٹھائے دئے گئے ہیں ۔کبھی کسی کے گھر ، کبھی ہوٹل، کبھی ہوسٹل کی تلاشی لی جا رہی ہے کہ کون کیا کھا رہا ہے۔ یعنی کھانے کے بنیادی حق پر بھی پابندی عائد ہے۔ اپنی مرضی کا مذہب اختیارکئے جانے پر بھی پہرے ہیں ۔ حد تو یہ ہے عشق و محبت کی بھی آزادی یہاں حاصل نہیں ہے ہادیہ جیسی جرأت اور حوصلہ والی لڑکی تو ملنے سے رہی۔ لو جہاد کا نام دے کر طرح طرح کے تماشے اور مظالم ہو رہے ہیں۔ اظہار رائے کے حق کو بھی پوری طرح سے صلیب پر چڑھا دیا گیا ہے۔

ایسے ناگفتہ بہ حالات میں اقوام متحدہ کے ذریعہ طۓ کئے جانے والے حقوق انسانی اور اس کے منشور کی بات کیا کی جائے ۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے ۔ مذہب کے نام پر، یا پھر رنگ و نسل کی بنیاد پر کسی کو ترجیح دیا جانا اور کسی کے ساتھ اہانت آمیز اور ناروا سلوک رکھنا کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے، یہ انسانی تقاضوں کے بالکل برعکس ہیں ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 

Syed Ahmad Quadri
About the Author: Syed Ahmad Quadri Read More Articles by Syed Ahmad Quadri: 146 Articles with 108322 views An Introduction of Syed Ahmad Quadri
by: ABDUL QADIR (Times of India)

Through sheer imagination,
.. View More