میری زندگی کے وہ 45 منٹ - ماموں نے کہا سب کلمہ پڑھو، بحریہ ٹاؤن میں پانچ افراد کی ہلاکت کا واقعہ کیسے پیش آیا؟ تہلکہ خیز انکشافات

image
 
’گاڑی کے شیشے کُھلے ہوئے تھے، میں اور میرا کزن عبداللہ ڈرائیونگ سائیڈ کے برابر والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ سڑک پر سفر کرتے ہوئے اچانک بہت مٹی اُڑی اور منظر دھندلا گیا، کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اسی اثنا میں میری آنکھیں بند ہو گئیں، جب آنکھ کُھلی تو ہر طرف اندھیرا تھا، ہم پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔‘
 
’ماموں نے کہا سب کلمہ پڑھو، میری آنکھوں کے سامنے گاڑی میں موجود میری امی، بھائی، ماموں، اور ممانی دم توڑ گئے، اس دوران میں شور مچا رہی تھی کہ مجھے نکالو، میں زندہ ہوں، ہماری مدد کرو۔‘
 
21 سالہ ابیہہ بتاتی ہیں کہ ’کافی دیر بعد ایک مزدور مدد کو آیا، وہ شور مچا رہا تھا کہ سیڑھی لاؤ، ایک لڑکی زندہ ہے اسے نکالنا ہے۔ کافی دیر کے بعد کوئی سیڑھی لایا اور مزدوروں نے بڑی مشکل سے مجھے اس گڑھے سے نکالا۔‘
 
’پھر اُس مزدور نے میرے کزن عبداللہ کو بھی گڑھے سے نکال کر باہر فٹ پاتھ پر میرے قریب ہی لٹا دیا۔ میں نے عبداللہ کے سینے پر ہاتھ رکھا تو تب بھی اس کی سانسیں چل رہی تھیں۔ میں نے چلاتے ہوئے مزدور کو کہا پلیز ہماری مدد کرو، ہمیں ہسپتال لے جاؤ، عبداللہ ابھی زندہ ہے۔‘
 
ابیہہ کے مطابق یہ اُن کی زندگی کے وہ 45 منٹ تھے جنھیں وہ زندگی بھر نہیں بھول پائیں گی۔
 
ابیہہ بتاتی ہیں کہ پھر ایمبولنس آئی اور انھیں کراچی بحریہ ٹاؤن میں واقع ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ’وارڈ تک پہنچنے کا تو مجھے یاد ہے۔ وہاں کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ اپنے گھر والوں کا نمبر دو۔ میں نے اپنے بڑے بھائی اریب کا نمبر انھیں لکھوایا اور اس کے بعد میں بےہوش ہو گئی۔‘
 
’جب دوبارہ میری آنکھ کُھلی تو میں لیاقت نیشنل ہسپتال میں تھی۔ میں نے اٹھ کر اپنی امی، بھائی، ماموں اور عبداللہ کے بارے میں پوچھا مگر کوئی بھی کچھ جواب نہیں دے رہا تھا۔ بعد میں مجھے پتا چلا کہ گاڑی میں موجود چھ افراد میں سے صرف میں ہی زندہ بچی ہوں۔ میں کسی کے جنازے میں بھی شرکت نہیں کر سکی، میں خود تو ہسپتال میں تھی مگر ویڈیو کال پر گھر میں سب جنازے پڑے دیکھ رہی تھی۔‘
 
کیا واقعہ پیش آیا؟
 
image
 
یہ واقعہ گذشتہ ماہ چھ نومبر کو اُس وقت پیش آیا جب ایک کار میں سوار احمر شریف نامی شخص کے اہلخانہ بحریہ ٹاؤن میں تعمیراتی کام کی غرض سے کھودے گئے ایک گہرے گڑھے میں جا گرے۔
 
گڑھے میں گرنے والی کار کو احمر شریف ڈرائیو کر رہے تھے۔
 
احمر کے بھائی خرم نے اس حادثے کا ذمہ دار بحریہ ٹاؤن کی غفلت کو قرار دیا ہے جسے بحریہ ٹاؤن انتظامیہ اور پولیس مسترد کرتی ہے۔
 
احمر شریف تقریباً ایک سال قبل ہی بحریہ ٹاؤن میں کرائے کے گھر میں شفٹ ہوئے تھے۔ کار کو پیش آنے والے حادثے سے دو روز قبل وہ اپنے چھوٹے بھائی کے بیٹے کی سالگرہ کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے بحریہ ٹاؤن سے ملیر رفاہ عام سوسائٹی آئے تھے جہاں انھوں نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ دو روز گزارے۔
 
اس واقعے میں زندہ بچ جانے والی ابیہہ کے مطابق چھ نومبر کی رات اُن کے خاندان نے بحریہ ٹاؤن میں ڈانسنگ فاؤنٹین دیکھنے کا پروگرام بنایا۔
 
ابیہہ کے مطابق یہ پروگرام بنا کر اُن کے ’ماموں احمر نے گاڑی سٹارٹ کی۔ ابیہہ اور احمر کا 14 سالہ بیٹا عبداللہ ڈرائیونگ سیٹ کی برابر والی سیٹ پر بیٹھ گئے جبکہ احمر کی اہلیہ صائمہ، بہن فہیدہ اور ان کا چھوٹا بیٹا حماد گاڑی کی پیچھے والی سیٹ پر بیٹھ گئے۔‘
 
ابیہہ کے مطابق ’چھ نومبر کی رات موسم بھی تھوڑا اچھا تھا، تو ہم نے اے سی بند کر کے گاڑی کے شیشے کھول دیے۔ سفر اچھا گزر رہا تھا، سب باتیں کرتے جا رہے تھے۔ گاڑی کی رفتار بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ اچانک گاڑی میں مٹی آنے لگی۔ مجھے آگے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، ماموں احمر بھی چلائے کہ انھیں بھی کچھ نظر نہیں آ رہا اور پھر اچانک حادثہ ہو گیا۔‘
 
image
 
’چند ماہ پہلے ہی میرا نکاح ہوا تھا‘
ابیہہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’مجھے آج بھی یاد ہے کہ میری امی نے بلند آواز سے اللہ اکبر بھی کہا تھا۔ یہ وہ واقعہ ہے جو میں زندگی میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ اس حادثے میں میرے کندھے کی ہڈی ٹوٹی اور پسلیوں میں چوٹیں آئیں۔‘
 
’چند مہینے پہلے ہی میرا نکاح ہوا اور میری تین ماہ بعد رخصتی بھی تھی۔ امی بہت دھوم دھام سے میری رخصتی کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ میری سسرال امریکہ میں ہے، وہاں بھی سب پریشان ہیں کہ اچانک یہ کیا ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ آئندہ کچھ ماہ میں میں بلکل ٹھیک ہو جاؤں گی۔ یہ چوٹیں تو ٹھیک ہو جائیں گی لیکن اپنوں سے ایک ساتھ جدا ہونے کا غم کبھی نہیں بھول پائے گا۔‘
 
’احمر سب کا سہارا تھا‘
 
image
 
احمر کے بڑے بھائی عامر کے مطابق وہ چھ بہن بھائی تھے۔ ’ایک بڑی بہن پہلے ہی وفات پا چکی ہیں جبکہ دوسری بہن احمر کے ساتھ دنیا سے چلی گئیں۔ تیسری اور سب سے چھوٹی بہن 45 سال کی ہیں مگر وہ ذہنی طور پر معذور ہیں اور ان کی دیکھ بھال بھی احمر ہی کیا کرتا تھا۔‘
 
’احمر مالی طور پر مستحکم ہوتا جا رہا تھا جس کی وجہ سے پورے گھر کے حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے تھے۔ وہ بہت سے لوگوں کا سہارا تھا۔‘
 
’منتوں کی بعد ہوئی اولاد کو احمر حافظ قرآن بنانا چاہتا تھا‘
 
image
 
احمر کے والد منیر احمد کے مطابق ان کے بیٹے احمر کی شادی کے بعد پہلے پانچ سال تک ان کے ہاں اولاد نہیں ہوئی جس پر ایک بزرگ نے انھیں مسجد نبوی میں جا کر اولاد کی دعا کرنے کی ہدایت کی۔
 
’احمر اولاد کی خواہش میں والدہ اور اہلیہ کے ہمراہ عمرہ کرنے گیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اسے اولاد سے نواز دیا۔ احمر نے اس کا نام عبداللہ رکھا تھا۔ احمر اسے حافظ قرآن بنانا چاہتا تھا، اس لیے اس کو بحریہ ٹاؤن میں ہی ایک مدرسے میں داخل کیا ہوا تھا۔ عبداللہ 22 سپارے حفظ بھی کر چکا تھا۔‘
 
’گاڑی کسی رکاوٹ سے نہیں ٹکرائی تھی، کرائم سین تبدیل کیا گیا ہے‘
 
image
 
اس گاڑی میں بچ جانے والی اکلوتی مسافر ابیہہ کے مطابق حادثے سے قبل اُن کی گاڑی کسی بیرئیر یا رکاوٹ سے نہیں ٹکرائی تھی بلکہ زمین سے آدھے فٹ اونچے مٹی کے ڈھیر کو عبور کر کے اس گڑھے میں جا کر گری۔ ابیہہ کے مطابق گاڑی کی رفتار بھی زیادہ نہیں تھی۔
 
اس بدقسمت خاندان کے سربراہ احمر کے بھائی خرم کے مطابق احمر جس گاڑی میں سوار تھے وہ 660 سی سی میرا گاڑی تھی، جس میں جب چھ لوگ سوار ہو جائیں تو وہ گاڑی زیادہ رفتار سے ویسے ہی نہیں چل سکتی۔
 
احمر کے ایک دوست عبدالسمیع نے الزام عائد کیا کہ بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ نے حادثے کی رات جائے وقوعہ کو بھی تبدیل کیا، تاہم بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ اس مؤقف کی تردید کرتی ہے۔
 
عبدالسمیع خود بھی بحریہ ٹاؤن میں تعمیرات کے کام سے وابستہ ہیں اور انھوں نے دعویٰ کیا کہ حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد انھوں نے جب حادثے کے مقام کو جا کر دیکھا تو وہاں ناصرف گارڈ تعینات کر دیا گیا تھا بلکہ اس گڑھے سے پہلے سات، آٹھ فٹ بلند مٹی کا پہاڑ بنا دیا گیا تھا تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ گاڑی اونچی رکاوٹ کو عبور کر کے گڑھے میں گری۔
 
انھوں نے دعویٰ کیا کہ حادثے کے مقام پر ایک زنجیر بھی توڑ کر پھیلا دی گئی جبکہ وہاں تعینات کیے جانے والے گارڈ نے بھی بعد میں آنے والوں کو یہ کہانی سنائی کہ ایک تیز رفتار گاڑی آئی جس نے پہلے زنجیروں کو توڑا اور پھر مٹی کے سات فٹ اونچے پہاڑ کو عبور کر کے اس زیر تعمیر نالے میں جا گری۔
 
عبدالسمیع پیشے کے لحاظ سے سول انجینیئر ہیں اور ان کے مطابق یہ سب جھوٹی کہانی ہے کہ 660 سی سی چھوٹی گاڑی کے انجن میں اتنی طاقت نہیں ہو سکتی کہ وہ چھ سواریوں کے ساتھ اتنے اونچے مٹی کے پہاڑ کو عبور کرے۔ انھوں نے مزید دعویٰ کیا کہ بحریہ ٹاؤن نے اپنی غلطی چھپانے کے لیے کرائم سین کو تبدیل کیا۔
 
بحریہ ٹاؤن کا اس حادثے پر کیا کہنا ہے؟
 
image
 
بحریہ ٹاؤن کراچی کے سکیورٹی انچارج میجر ریٹائرڈ شاہ زیب کے مطابق یہ حادثہ گاڑی کی تیز رفتاری کے باعث پیش آیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن میں تعمیرات کے حوالے سے واضح قوانین موجود ہیں جن کے تحت جب بھی کوئی تعمیرات کی جاتی ہے تو سائیٹ کے اطراف میں رکاوٹیں لگائی جاتی ہیں اور تنبیہی بورڈز نصب کیے جاتے۔
 
سکیورٹی انچارج کے مطابق جس مقام پر حادثہ پیش آیا وہاں سیفٹی کارن رکھے ہوئے تھے اور گاڑی سیفٹی کارن کو عبور کر کے آگے کی جانب بڑھی۔ اُن کے مطابق گاڑی سوار افراد نے 27 پریسنٹ سے شارٹ کٹ لیتے ہوئے جانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے حادثہ پیش آیا۔
 
سکیورٹی انچارج کہتے ہیں یہ بات ضرور ہے کہ جس جگہ پانی کی لائنیں ڈالے جانے کا کام جاری ہے وہاں لائٹس موجود نہیں تھیں لیکن بحریہ ٹاؤن کی جانب سے ناصرف سیفٹی کونز لگائے گئے تھے بلکہ سڑک پر پہلے ہی بورڈ بھی لگا دیا گیا تھا کہ آگے سڑک پر تعمیراتی کام جاری ہے۔
 
کرائم سین تبدیل کیے جانے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ پولیس حادثے کے بعد اس مقام پر آئی تھی اور حادثے کے کچھ دن تک کرائم سین کو برقرار رکھا گیا اور اس میں کوئی تبدیلی بھی نہیں کی گئی۔
 
انھوں نے کہا کہ گاڑی میں سوار افراد وہاں کے رہائشی بھی نہیں تھے بلکہ وہ باہر سے بحریہ ٹاؤن گھومنے کے لیے آئے تھے۔
 
پولیس رپورٹ میں واقعہ تیز رفتاری کے باعث پیش آیا، کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا
گڈاپ سٹی ٹریفک سیکشن کے انچارج شاہ نواز کے مطابق بحریہ ٹاؤن کا اپنا ٹریفک پولیس وارڈن کا نظام موجود ہے اس لیے وہاں پولیس کی نفری بھی کم ہی چکر لگاتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حادثہ سڑک کے بیچ میں بنائے گئے گڑھے میں گاڑی گرنے کے باعث پیش آیا ہے۔ ٹریفک پولیس کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ گاڑی تیز رفتار تھی اور پہلے وہ سڑک پر الٹ گئی اور پھر ایک کھائی میں جا گری۔
 
ایس ایچ او گڈاپ سٹی ذوالفقار آرائیں کے مطابق حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین نے کسی قانونی کارروائی کے لیے کوئی رابطہ نہیں کیا بلکہ حادثے کے فوراً بعد اہلخانہ نے لکھ کر دیا تھا کہ وہ قانونی کارروائی نہیں چاہتے، اس لیے پولیس نے اس کیس پر مزید کوئی تحقیق نہیں کی۔
 
احمر کے بھائی خرم کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے حادثے کے فوراً بعد پولیس کو کہا تھا کہ ’میں فوری کوئی قانونی کارروائی نہیں کروں گا تاہم جنازوں کے بعد میں اہلخانہ کے ساتھ مشورہ کروں گا۔‘
 
انھوں نے دعویٰ کیا کہ میرے اس بیان کے بعد اہلکار نے ایک سادے پرچے پر دستخط لیے اور موبائل میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو گیا۔
 
ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر کے مطابق بحریہ ٹاؤن میں اس واقعے کے بعد مرنے والے افراد کے اہلخانہ نے پولیس کو لکھ کر دیا تھا کہ وہ کوئی قانونی کارروائی نہیں کرنا چاہتے اس لیے واقعہ کا کوئی مقدمہ بھی درج نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق حادثہ گاڑی کی تیز رفتاری کے باعث پیش آیا اور تعمیراتی مقام سے پہلے بیرئیرز بھی لگے ہوئے تھے۔
 
ایس ایس پی ملیر کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے کہ حادثے کے بعد کرائم سین کو تبدیل کر دیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر اب لواحقین قانونی کارروائی کرنا چاہتے ہیں تو پولیس ان کی شکایت درج کرنے کے لیے تیار ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu
YOU MAY ALSO LIKE: