شیواجی یا ساورکر ؟ کس کی توہین اہم ہے

مہاراشٹر میں فی الحال دو تنازعات چل رہے ہیں ۔ ایک میں راہل گاندھی پر الزام ہے کہ انہوں نے ونایک دامودر ساورکر کی تو ہین کی ہے۔ راہل گاندھی نے یہ کیا کہ ساورکر کے ایک خط کو جو انہوں نے انگریز سرکار کو لکھا تھا پیش کیا ۔ اس میں ساورکر نے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ کو برطانوی سامراج کا نوبل سروینٹ (یعنی مقدس غلام) لکھا تھا ۔ اس خط کی حقانیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ راہل کے مطابق ساورکر نے خوفزدہ ہوکر اس خط پر دستخط کیے تھے جبکہ گاندھی، نہرو اور پٹیل وغیرہ نے ایسا نہیں کیا۔ اس حقیقت کے اظہار سے اگر ساورکر کے عقیدتمندوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کے لیے ساورکر ذمہ دار ہیں کیونکہ اگر وہ خط تحریر نہ کرتے تو آج یہ موقع نہیں آتا ۔ ساورکر نے اگر ہندو نوجوانوں کو انگریزی فوج میں شامل ہونے کی ترغیب نہیں سی ہو تی تو راہل یہ کیوں کہتے؟ اس کے خلاف ایف آئی آر درج کرواکر راہل گاندھی کے مخالفین کو اپنی رسوائی اور ناکامی کے سوا کیا ملے گا ؟

اس کے بالمقابل دوسرا تنازعہ گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کا ہے ۔ انہوں نے راجہ شیواجی کو فرسودہ قرار دے کر ان کا موازنہ نتن گڈکری سے کردیا۔ یہ بات جگ ظاہر ہے کہ نتن گڈکری پر بدعنوانی کا الزام لگا اور اس کے سبب انہیں بی جے پی کی صدارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔ ایسے بدعنوان رہنما کا شیواجی راجہ موازنہ یقیناً ان کی توہین ہے۔ تنازعات کا معاملہ بھی ریت پر کھنچی لکیروں جیسا ہے کہ اگر کسی کو چھوٹا کرنا ہو تو اس چھیڑے بغیر ایک بڑا خط کھینچ دو۔ گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے وہ حماقت کردی کہ اب بی جے پی والوں کے پاس منہ چھپانے کی جگہ نہیں ہے ۔ کوشیاری کے مطابق پہلے جب پوچھا جاتا تھا کہ تمہارے لیے نمونہ کون ہیں تو لوگ جواہر لال نہرو، سبھاش چندر بوس اور مہاتما گاندھی کا نام لیتے تھے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ کوشیاری نے بھی ساورکر یا گولوالکر کا ذکر نہیں لیا کیونکہ وہ نہ تو پہلے رول ماڈل تھے اور نہ آگے ہوں گے۔ عزت مآب گورنر آگے بولے چھترپتی شیواجی مہاراج پرانے زمانے کے آئیڈیل تھے مگر نئے زمانے میں ڈاکٹر امبیڈکر اور نتن گڈکری جیسے نمونے موجود ہیں۔ شیواجی کو فرسودہ قرار دیئے جانے سے حزب اختلاف کو بی جے پی کے خلاف محاذکھولنے کا ایک موقع ہاتھ آگیا اور وہ سب مل کر سنگھ پریوار پر ٹوٹ پڑے۔ غالب کا یہ شعر (معمولی ترمیم کے ساتھ) گورنر بھگت سنگھ کوشیاری پر پوری طرح صادق آتا ہے ؎
یہ فتنہ بی جے پی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

کوشیاری کی ہوشیاری نے راہل گاندھی کا بھلا کر کے بی جے پی کی حالت خراب کردی۔ فی الحال بی جے پی سمیت مہاراشٹر کے سارے سیاستداں گورنر پر تنقید کررہے ہیں لیکن کوشیاری کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ امسال یکم مارچ کو بھی وہ شیواجی مہاراج کی توہین کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا اگر سمرتھ رام داس نہ ہوتے تو شیواجی کو کون جانتا ؟ اس وقت کانگریس کے ریاستی صدر ناناپٹولے نے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری سے معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چھترپتی شیواجی مہاراج مہاراشٹر کی انتہائی معزز شخصیت ہیں اور وہ پوری دنیا میں مشہور ہیں ۔ مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے ذریعہ ان کی توہین کو کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔کوشیاری کی پرورش چونکہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی سرپرستی میں ہوئی ہے اس لئے وہ گمراہ کن بیان دے رہے ہیں۔‘‘ پٹولے نے بھارتیہ جنتا پارٹی پر چھترپتی شیواجی مہاراج کو ووٹ بینک کے لئے استعمال کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ مرکزی وزیر پیوش گوئل نے بھی شیواجی مہاراج کے تعلق سے متنازعہ بیان دیا تھا۔

کوشیاری کے شیواجی ت تنازعہ نے نہ صرف ساورکر معاملے کو ڈھانپ دیا بلکہ بی جے پی کے لیے بہت بڑا دھرم سنکٹ کھڑا کردیا ہے ۔بی جے پی کے رہنما پروین دریکر نے اپنی مدافعت میں کہا کہ ، ’’چھترپتی شیواجی مہاراج کا کسی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔وہ ان کی پوجاکرتے ہیں اور دیوتا مانتے ہیں ۔ وہ مہاراشٹر، ملک اور بیرون ملک رہنماوں اور عوام کے لیے ایک قابل تقلید رہنما ہیں جبکہ نتن گڈکری اور شرد پوار جیسے بہت سے لیڈر ہیں ۔شیواجی کا گڈکری سے موازنہ کرنا سراسر غلط ہوگا…‘‘۔ اتفاق سے شیواجی کے خانوادہ سے سمبھاجی راجے فی الحال بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان ہیں۔ انہوں نے کہا: "چھترپتی شیواجی مہاراج ایک لیجنڈ ہیں۔ وہ ماضی، حال اور مستقبل کے لیے رہنما ہیں ۔ اس طرح یہ سوال زیر بحث ہوگیا کہ ساورکر اور شیواجی میں کس کی توہین زیادہ اہمیت کی حامل ہے؟

مہاراشٹر کے اندر راجہ شیواجی کے شیدائیوں کی ایک تنظیم سمبھاجی بریگیڈ ہے ۔ اس کے رہنما سنتوش شندے نے اس تنازعہ پر کہا کہ گورنر کی زبان سے اس طرح کے تبصرے ان کی شیواجی مخالف ذہنیت کی علامت ہے۔ "چھترپتی شیواجی مہاراج مہاراشٹر اور ہندوستان کے لوگوں کے قلب و ذہن میں بستے ہیں۔ وہ پچھلی ساڑھے تین صدیوں سے ہمارے لیےمرکزِ ترغیب بنے ہوئے ہیں۔ شیواجی مہاراج کے اعلیٰ نظریات ہر فرد میں مضبوطی سے سمائے ہوئے ہیں۔ ‘‘معروف مورخ شری کانت کوکاٹے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ : " بدقسمتی سے گورنر ہمیشہ شیواجی مہاراج کے بارے میں سیاق و سباق سے ہٹ کر بات کرتے ہیں۔ اس سے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے، کیونکہ شیواجی مہاراج کے کارناموں کی وجہ سے ان کا احترام اور پوجا کی جاتی ہیں..." ایک ایسی ریاست میں جہاں کسی انسان کو اس کے پیروکاروں نے معبود کا درجہ دےرکھا ہو اس طرح کے بیانات ہنگامہ ہونا فطری ہے اور لوگ باگ ان کا سیاسی فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔

این سی پی کے ترجمان کلائیڈ کاسترو نے تو صدر مملکت دروپدی مرمو سے گورنر کو فوری طور پر واپس بلانے کا مطالبہ کردیا۔ این سی پی کے ترجمان نےیاد دلایا کہ گورنر بار بار اس طرح کے متنازعہ تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ ماضی میں راجہ شیواجی کی توہین کے خلاف تبصرے پرڈاکٹر بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی میں گورنر کے نامزد کردہ سینیٹ ممبرایڈوکیٹ وجئے پاٹل نے ہی کوشیاری کے خلاف قرار داد پیش کی تھی جسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ کاش کے گورنر اس سے سبق سیکھتے ۔ رکن اسمبلی امول مٹکری نے گورنر کے بیان کی مذمت کرنےکے بعدکہاکہ وہ عوام میں رہنے اور سستی شہرت کی خاطر اس طرح کی بیان بازی کرتے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا گورنر نے جیوتی با پھلے کے بارے میں کہا تھا کہ تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی دس سالہ ساوتری بائی پھلے سے ہوگئی تھی۔ اب کوئی سوچ سکتا ہے کہ شادی کے بعد وہ لوگ کیا کرتے ہوں گے؟ یہ وہی بھگت سنگھ کوشیاری ہیں جنھوں نے ریاست کے عوام کی اہانت کرتے ہوئے ممبئی کے اندر ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کھلے عام کہا تھا کہ اگر گجراتی راجستھانی لوگوں کو ممبئی سے نکال دیا جائے تو یہاں پیسہ نہیں بچے گا۔ اس کے بعد ممبئی ملک کی مالیاتی راجدھانی نہیں رہے گا۔گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے تازہ بیان کے بعد مہاراشٹر میں ان لوگوں کی تلاش جاری ہے جنھوں نے ساوکر پر مبنی بر حقیقت بیان دینے کے لیے راہل گاندھی پر ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ وہ گورنر کے بیان پر خاموش کیوں ہیں؟ مہاراشٹر کے وقار کی علمبردار راج ٹھاکرے کی مانسے کیوں بیان بازی سے آگے بڑھ کر سڑک پر نہیں اترتی ۔

راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا بہت جلد مہاراشٹر سے نکل کر مدھیہ پردیش میں داخل ہونے والی ہے۔ جنوبی ہند کے اندر چونکہ بی جے پی خاصی کمزور ہے اس یاترا کی جم کر مخالفت نہیں ہوئی ۔ کرناٹک میں اگرچہ بی جے پی طاقتور ہے مگر کانگریس بھی کم نہیں ہے لیکن اب یہ فسطائیوں کے گڑھ گنگا کی وادی میں داخل ہونے والی ہے۔ مہاراشٹر میں اس کا اختتام تو نہایت کامیاب جلسۂ عام سے ہوا جس میں ایک اندازے کے مطابق ہانچ لاکھ لوگ شریک تھے ۔ اس کی خاص بات یہ تھی اس میں لوگ لائے نہیں گئے تھے بلکہ خود آئے تھے ۔ جلسوں کو کامیاب کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اس کا مشاہدہ پچھلے دنوں ممبئی میں ہوچکا ہے۔ یہاں پر وزیر اعلیٰ کی برسرِ اقتدار جماعت نے تقریباً دس کروڈ روپئے اسٹیٹ ٹرانسپورٹ کو بس کا انتظام کرنے کے لیے دیئے پھر بھی بسیں خالی آئیں اور جو لوگ آئے بھی وزیر اعلیٰ کی تقریر کے دوران ہی چل پڑے ۔ اس طرح پہلے خالی میدان اور بھی خالی ہوگیا ۔ اس کے برعکس شے گاوں میں اپنے طور سے آنے والے جم غفیر نے پورا میدان بھر دیا اور بھارت جوڑو یاترا کا انٹر ویل نہایت شاندار ہوا۔ اس غیر معمولی کامیابی پر کیچڑ اچھالنے کی جو کوشش بی جے پی اور شندے نے کی تھی اس کو بھگت سنگھ کوشیاری کی ہوشیاری نے دھو دیا۔ اب ریاست کے عوام فیصلہ کریں گے ساورکر اور شیواجی میں کس کی توہین بڑی ہے اور کس کو کیا سزا دی جائے؟

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2062 Articles with 1251539 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.