''ملزم جناح حاضر ہو ! ''

قیام پاکستان کے اسباب، پس منظر، برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قربانیاں اور کرہ ارض کے سینے پر ابھرنے والی نئی ریاست کے خلاف مقامی اور عالمی سازشیں پوری طرح واضح اور سامنے ہوں تو یہ سوال بالکل بے معنی نظر آتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی بے مثال قیادت میں کس قسم کے پاکستان کیلئے جدوجہد کی تھی۔

''ملزم جناح حاضر ہو ! ''

''ملزم جناح حاضر ہو ! ''
-------------
قیام پاکستان کے اسباب، پس منظر، برصغیر کے مسلمانوں کی عظیم قربانیاں اور کرہ ارض کے سینے پر ابھرنے والی نئی ریاست کے خلاف مقامی اور عالمی سازشیں پوری طرح واضح اور سامنے ہوں تو یہ سوال بالکل بے معنی نظر آتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی بے مثال قیادت میں کس قسم کے پاکستان کیلئے جدوجہد کی تھی۔
مسلم قومیت کو پاکستان کے قیام کی بنیاد قرار دیا جائے یا یہ کہا جائے کہ یہاں اسلامی نظریۂ حیات کے مطابق زندگی گزارنا مقصود تھا، لیکن اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمانان ہند کی تحریک آزادی میں اسلام ایک بنیادی نظریے کی حیثیت سے شامل تھا اور جب ''پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الااﷲ''کا نعرہ پورے برصغیر جنوبی ایشیا میں گونجا تو قیام پاکستان کی تحریک میں بجلی کی سی چمک اور تیزی پیدا ہو گئی۔
نتیجہ یہ کہ 1940ء کی قرارداد لاہور (جسے بعد میں قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا) کے صرف سات سال کے عرصے میں ریاست مدینہ کے بعد دنیا میں اسلامی نظریئے کی بنیاد پر مسلمانوں کی دوسری سلطنت وجود میں آ گئی۔
جس کی وجہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت تھی۔قائد اعظم تاریخ سیاسیات عالم کی ایک مثالی اور منفرد شخصیت ہیں۔ عظمت کیا ہوتی ہے اور کیسے حاصل کی جاتی ہے اس بارے میں مفکرین کے اقوال بہت مل جاتے ہیں لیکن عظمت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ بے غرض اور بے لوث ہو کر اجتماعی فلاح کے لیے ایسے کام کرنا جس سے انسانوں کی بڑی تعداد کو فائدہ پہنچے۔
قائد اعظم عظمت کے ان اصولوں پر پورا اترتے ہیں ۔ وہ اپنی ذاتی کامیابی اور آسائش کے لیے کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ جن سخت ضوابط کی توقع وہ دوسروں سے کرتے تھے، ان کی پابندی سب سے پہلے خود کرتے۔ کام کام اور صرف کام کا اصول دوسروں کے لیے بعد میں،اپنے لیے پہلے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مختصر سی زندگی میں تخلیق پاکستان کا وہ کارنامہ سرانجام دیا جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے۔
درحقیقت قائد اعظم محمد علی جناح ایسے لوگوں میں سرفہرست ہیں جنھوں نے گزرے بلکہ آنے والے ادوار پر بھی انمٹ نقوش چھوڑے۔اسی وجہ سے شیکسپیئر نے کہا کہ کچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد اور کارناموں کی بدولت عظمت حاصل کر لیتے ہیں۔
مگراُن کی عظمت و کردار سے خائف لبرلز ،قوم پرست اور شخصیت پرستی میں مبتلا ٹولہ آج قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات اور پاکستان کی نظریاتی اساس کو زک پہنچا کر ناپختہ ذہنوں میں اندیشوں اور وسوسوں کے جراثیم پیدا کرکے انہیں بدگمانی کی راہ دکھارہے ہیں۔
حالانکہ تحریک پاکستان کے دوران جن جماعتوں نے قیام پاکستان کی مخالفت کی وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ۔سب جانتے ہیں کہ کانگرس تقسیم ہند کی سب سے بڑی مخالف جماعت تھی۔اور کانگرس میں شامل مسلمان جن کی قیادت مولانا حسین احمد مدنی ،مولانا ابوالکلام اور گاندھی کررہے تھے۔ مسلم لیگ کے سیاسی نظریے کے خلاف اور متحدہ ہندوستانی نیشلزم کے حامی تھے۔اسی طرح جمعیت العلمائے ہند کا بڑا حصہ جو مذہبی سکالروں پر مشتمل تھا قیام پاکستان کیخلاف تھا ۔
قیام پاکستان کے کٹڑ مخالفیں میں ابوالکلام آزاد،مفتی کفایت اللہ ،حبیب الرحمن لدھیانوی اورمولانا حسین احمد مدنی وغیرہ جیسے لوگ شامل تھے۔ جمعیت العلمائے ہند کے دو جریدوں مدینہ (بجنور) اور الجمعیت (دہلی) نے کانگرس کا مقدمہ لڑا۔ مستند حوالے کےمطابق مولانا کفایت اللہ اور مولانا حسین احمد مدنی نے قائداعظم سے پاکستان کا مقدمہ لڑنے کیلئے چندہ طلب کیا اور قائداعظم کے انکار پر وہ کانگرس کے اتحادی بن گئے۔ مجلس احرار اسلامی نے عطاءاللہ شاہ بخاری اور چوہدری افضل حق کی قیادت میں مسلم لیگ کی مخالفت کی۔ اور اس نے کانگرس کا ساتھ دیا۔
جبکہ خدائی خدمت گار جو خان عبدالغفار خان خیبر پختونخواہ میں بااثر تھے اور مہاتما گاندھی سے متاثر تھے۔ قیام پاکستان کے سخت مخالف تھے۔ عنایت اللہ مشرقی کی سربراہی میں قائم کی گئی خاکسار تحریک بھی مسلم لیگ کی نظریاتی مخالف تھی۔ جماعت اسلامی جس کے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تھے دو قومی نظریے کے حامی مگر مسلم لیگ اور تصور پاکستان کے مخالف تھے۔
پنجاب میں یونی نیسٹ پارٹی جس پر ہندو اور مسلمان جاگیرداروں کی بالادستی تھی مسلم لیگ کی مخالف تھی۔ اس کے بر خلاف مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد جماعت تھی جو قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں مخالفین کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی رہی۔ اور قیام پاکستان کی منزل تک پہنچتی ہے۔
آج پاکستان کو قائم ہوئے سات عشروں سےزائد گزر چکے ہیں مگرقائد اعظم محمد علی جناح،اکابرین تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے مخالفین کی باقیات کسی نہ کسی شکل میں ہمارے درمیان موجود ہے۔ان کا واحد مقصد قائد اعظم اور اُن کے رفقاء کی تضحیک کرنے اور قائد اعظم کی عظیم شخصیت کو گاندھی جیسے منافق اعظم کے مقابلے میں کمتر ثابت کرکے قیام پاکستان کی بنیادی اساس کو کمزور کرنے کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ متحدہ ہندوستانی رومان کے ان اسیروں کے سامنے مستند تاریخی حوالوں سے مزین ایسامدلل جواب رکھا جائےجو نہ صرف ان کی بولتی بند کردے بلکہ جھوٹ فریب اور مکرودجل پر مبنی ان کے منفی پروپیگنڈے سے ہماری نوجوان کو بھی محفوظ رکھے۔
''ملزم جناح حاضر ہو'' نوجوان محقق'' عماد بزدار'' کی ایک ایسی شاندار کتاب ہے جو اس سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کو تمام تر تاریخی حوالوں کے ساتھ سامنے لاتی ہے۔یہاں ہمیں اس اعتراف میں کوئی تامل نہیں کہ جب برادر انعام خان نے شوشل میڈیا پر اس کتاب کی تعارفی پوسٹ لگائی تو ہم نے '' ملزم جناح حاضر ہو ! '' کے نام پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جب تک کتاب اور اس کے مندرجات نظر کے سامنے نہ آئیں مزید کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
آج جب یہ کتاب برادر عزیز جناب راجہ قاسم محمود صاحب کی مہربانی سے ہمیں موصول ہوئی تو ہمارے اس تاثر جس کا اظہار ہم نے برادر انعام خان کی پوسٹ میں کیا تھا ،کی نفی ہوگئی۔ کتاب کا اک اک ورق عماد بزدار کی قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کی عظمت اور ان سے بے پایاں محبت کا آئینہ دار اور اُن کے ذوق جنوں کا شاہکار ہے۔
عماد بزدار کی یہ کتاب کانگریس ،گاندھی ،آزاد ،مولانا مدنی کے طرز سیاست اور قائد اعظم و پاکستان مخالف معاندانہ طرز عمل کو ہی سامنے نہیں لاتی بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کے مبنی برحق موقف اور ان کے آہنی جرات و کردار کو بھی نمایاں کرتی ہے۔کتاب کا مطالعہ گاندھی کے مرن بھرت سے لے کر مولانا آزاد کی پیشن گوئیوں تک ہر ادھورے سچ کو بے نقاب کرکے اس پروپیگنڈے کے جو قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات و کردار کے حوالے سے کیے جاتے ہیں،تار و پود بکھیر دیتا ہے ۔
جناب عماد بزدار نے ''ملزم جناح حاضر ہو ! '' میں قائد اعظم کے برٹش ایجنٹ ہونے اور قیام پاکستان سوچا سمجھا برٹش منصوبہ "جیسے الزامات پر مبنی لبرلز قوم پرستوں کے جاری پروپیگنڈے کو تاریخی حوالوں سے عریاں کیا ہے۔اور ہماری قومی و ملی تاریخ کا وہ رخ سامنے لائے ہیں جسے بڑی شدو مد سے مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تحریک پاکستان اور وجود پاکستان میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ذات ایک روح کا درجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان مخالف قوتیں پہلے دن سے آج تک قائد اعظم کی ذات پر مختلف حوالوں سے کیچڑ اچھال کر پہلے تحریک پاکستان اور بعد میں وجود پاکستان کو کمزور کرنے کی ناپاک کوششیں کرتی رہی ہیں۔
جناب عماد بزدار اس لحاظ سے قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ایسی تمام کوششوں کو دلائل و براہین کےساتھ واضح کرتے ہوئے ہمارے سامنے وہ آئینہ بھی رکھدیا ہے جس میں ہم ان کے ناپاک اور مکروہ عزائم با آسانی دیکھ سکتے ہیں۔
ہمارا ماننا ہے کہ تاریخ مسخ کرنے کی سعی لا حاصل سے تاریخ کا تو کچھ نہیں بگڑتا کیوں کہ حقائق آخر کار دو اور دو چار کی صورت دنیا کے سامنے آہی جاتے ہیں۔ہمارے بعض نام نہاد دانشوروں کا گمان ہے کہ وہ جو کہیں گے اور جو لکھیں گے اس کو بنا سوچے سمجھے اور پرکھے ہی قبول کرلیا جائے گا،عماد بزدار کی کتاب ''ملزم جناح حاضر ہو ! '' نے اُن کی اِس تمام تر خوش گمانیوں کو ہواوں میں تحلیل کردیا ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313441 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More