کتاب :ڈاکٹرعبدالقدیر خان کا مقدمہ

 آج نصرت مرزا کی کتاب’’ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مقدمہ ‘‘پرتبصرہ کرنا ہے۔ اس سے قبل نصرت مرزا کا مختصر تعارف۔‘‘ نصرت مرزا،جن کا پورا نام مرزا نصرت جاہ بیگ ہے۔ دہلی میں۹ مئی ۱۹۴۲ء میں پیدا ہوئے۔پولیٹیکل سائنس میں پوسٹ گریجویشن ۱۹۶۹ء اور ٹیلی کام انجینئر۔سیاسی تجزیہ نگار، کالم نگار اور دانشور ۱۲؍ کتابوں کے مصنف،چیف ایڈیٹرماہنامہ‘‘زاویہ نگاہ‘‘(اردو)ماہنامہinteraction(انگلش)ایڈیٹرروزنامہ ’’اذکار‘‘کراچی۔میڈیا ریسورس سینٹر، رابطہ فورم، انٹرنیشنل کے صدر اور ملک کے متعدد اعلیٰ سطحی تنظیموں کے رکن ۲۰۰۰۔۱۹۹۸ء․وفاقی وزارت اطلاہات و فروغ ابلاغ عامہ کے مشیر۔۱۹۹۳۔۱۹۹۲حکومت سندھ کے مشیر برائے محنت۔طالب علمی کے زمانے سے عملی سیاست میں سرگرم۔ ۱۲؍ سال بیرونی ممالک میں رہائش پذیری کے دوران امریکا،افریقہ،ایشیاء کے ممالک کی سیر اور ان ممالک کے رہن سہن، انداز فکر اور سیاسی نظام کا مطالعہ کیا۔جنوری۲۰۰۹ء میں کتاب’’ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مقدمہ‘‘ تصنیف کی۔اس کتاب کا انتساب محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے نام کیا۔یہ کتاب ان کے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر کالموں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں مقدمہ،حقائق ،احساسات،وضاحت، خراج تحسین، تصویری جھلکیاں،خطوط اورcommendation میں تقسیم کیا ہے۔کتا ب کے شروع میں ڈاکٹر عبد ا لقدیر خان سے ملاقات کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں شر امریکی سنڈی کی طرح پھیل رہا ہے۔ یہ بھی کہا کہ میں عوام کا اور عوام میرے ہیرو ہیں۔ڈاکٹر قدیر خان اس کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ جناب نصرت مرزا صاحب ملک کے چند مایا ناز صحافیوں میں سے ہیں۔نصرت مرزا نے جو میرے بارے مضامین لکھے ان کو کتابی شکل دے دی ہے۔ڈکٹیٹرمشرف کے بارے جو ہیشنگوئیاں کی تھیں وہ صحیح ثابت ہوئیں۔مضامین کا مجموعہ پچھلے پانچ سالوں کی جیتی جاگتی تاریخ ہے۔ اﷲ تعالی ان کو خوش و خرم رکھے۔نصرت مرزا صاحب نے پیش لفظ میں محسن کشی کے واقعات درج کیے۔مسلمانوں کی تاریخ میں شایدیہ پہلی مرتبہ ہوا کہ کسی غیر ملکی طاقت کے کہنے پر پاکستان کے آمر مطلق حکمران جنرل پرویز مشرف نے اپنے ہی ملک کے ہیرو کو ولن ملک امریکہ کے دباؤ کے تحت رسوا کر کے قید میں ڈالا۔ عنوان ’’مقدمہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر خان سے ۲۰۰۳ء میں جبار مرزا صاحب کے توسط سے ملا تھا۔ڈاکٹر قدیر بہت افسردہ تھے۔ڈاکٹر قدیر سے پوچھ گچھ ایران کی اس اطلاع پر ہوئی کہ پاکستان کے کچھ دانوں سائنس دانوں نے ایٹمی معلومات دی۔ جبکہ ڈاکٹر قدیر کا کہنا ہے کہ وہ ایران یا شمالی کوریا کبھی بھی نہیں گئے۔لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر خان پر کرپشن کا الزام ہے کہ ان کے اکاؤنٹ میں لاکھوں ڈالر ہیں ان کی عمارتیں ہیں یہ سب جھوٹی کہانیاں ہیں۔وزیر داخلہ فیصل صالح حیات نے کہاکہ نام نہاد ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہیرو کے چہرے بے نقاب کریں ۔شاید اسی پر ڈکٹر قدیر خان کہتے تھے کہ وہ کوفیوں کے درمیان رہ رہے ہیں۔لکھتے ہیں ایٹمی پروگرام کی بنا رکنے والے کو بھٹو کو امریکا نے پھانسی چھڑوایا۔ دوسرے نواز شریف کو ملک بدر کر کے ذلیل کیا۔خود ایٹم بم کے خالق کو ڈکٹیٹر پرویز مشرف سے پابند سلاسل کروایا۔امریکا نے بھارت کو جدید اسلحہ فروخت کرنے اوردفاحی معاہدہ کیا اور پاکستان کو چند ایف ۱۶ پر ٹرخانے پر اکتفا کیا۔خوشاب ایٹمی ریکٹر۲۰۰ گرام کلوتونیم پیدا کرے گا۔ جو سالانہ ۲۵؍ ایٹم بم بنانے کے لیے کافی ہے۔مغرب پھر قدیر خان کے تعاقب میں لکھتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ امریکا کے مطابق ڈکٹیٹر مشرف تعاون کر رہا ہے۔ مشرف نے چھ سو القاعدہ کے ارکان کو امریکا کے حوالے کیے۔لکھتے ہیں کہ امریکا نے بھارت کا بھی ایٹمی طاقت تسلیم کرے اسے ایٹمی ایدھن فراہمی پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ امریکا کو چاہیے کہ پاکستان کو بھی ایٹمی طاقت تسلیم کرے۔’’حقائق‘‘ کے عنوان میں فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر خان کی معافی مانگنے کے حوالے سے دو کہانیاں کردش کر رہی ہیں ایک یہ کہ ان کو ڈرا کر راضی کیا گیا ہے۔مان جاؤ ورنہ امریکا کے حوالے کر دیں گے۔دوسرے یہ کہ ان کی سرگرمیوں کے ٹیپ ان کو سنوائے گئے جو سی آئی اے نے پاکستان کے حوالے کیے تھے۔بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب بکواس ہیں۔امریکا کا پاکستان پر ایٹمی پھیلاؤ کا الزام بھارت دوستی کا نتیجہ ہے۔شام کا ایٹمی پروگرام بھی پاکستان کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔بلا آخر عوامی امنگوں کے خلاف ڈاکٹر قدیر خان کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔جس سے پورے پاکستان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔وزیر خارجہ خورشید قصوری نے پاکستان،بھارت اور اسرائیل کوایٹمی طاقت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

’’حساسات‘‘ کے عنوان میں لکھتے ہیں کہ دنیا کو ہے اُس مہدی برحق کی ضرورت۔کیونکہ امریکا نے مسلمانوں کو دنیا میں دہشت گرد مشہور کر دیا ہے۔کہا کہ ایٹمی اثاثہ جات پاکستان کا قومی سرمایا ہے امریکی میڈیا پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ بند کرے۔پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جاجات محفوظ ہیں۔نیشنل کمانڈ اتھارٹی موجو دہے۔پاکستان کو ایٹمی پروگرام پر کوئی سمجھوتا قبول نہیں۔ایٹمی منڈی پر امریکا کی اجاراداری ہے۔ روس کو بھی پیچھے دھکیلنے میں لگا ہوا ہے۔ پاکستان نے نیو کلیئر ایکسپورٹ پر ۲۷ نومبر ۲۰۰۵ء کو پابندی لگا دی ہے۔پرویزمشرف نے امریکا سے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ایٹمی ڈیل میں بر ابری کا معاملہ کرنا چاہیے۔’’وضاعت‘‘ کے عنوان میں لکھتے ہیں کہ مرزا اسلام بیگ سابق آرمی چیف نے کہا کہ کہ ایٹمی سائنسدانوں کو سزا نہیں ملنی چاہیے۔سائنس دان ٹیکنالوجی منتقلی میں ملوث نہیں ہماری انتظامیہ ڈاکٹر قدیر کے خلاف یہودی انڈین اور امریکن سازشوں کا حصہ نہ بنے۔’’خراج تحسین‘‘ کے عنوان میں لکھتے ہیں کہ عبد ا لقادرحسن کے ایک کالم کا حوالہ دیتے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر نے پریشان پاکستانی قوم کو ایٹمی قوت بنا کر اس پر احسان کیا ہے۔ایاز امیر کے کالم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امریکا کی نہ دوستی اچھی نہ دشمنی اچھی۔ عرفان صدیقی کے کالم پرلکھتے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر اور پاکستان ایک ہی ہیں۔حکیم سید صابر علی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر قدیر دور حاضر کا زندہ’’سقراط ‘‘ ہے۔راجہ ذاکر خان کہتے ہیں پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے اور ایٹمی کلب میں داخل کرنے والے اپنی محسنوں کو یاد رکھیے۔عنوان ’’تصویری جھلکیاں‘‘ میں ڈاکٹر قدیر کے ساتھ اپنے فوٹو اور ڈاکٹر قدیر کے یاد گار فوٹو جمع کیے گئے۔عنوان ’’خطوط‘‘ میں ڈاکٹر صاحب کی خط کتابت کو ایک جگہ جمع کیا گیا۔’’ عنوان‘‘commendation میں انگلش پاکستان کے صدور، وزیر اعظموں اور آری چیف کے خطوط دکھائے گئے۔یہ کتاب ڈاکٹر قدیر اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر ایک مکمل کتا ب ہے۔

قارئین! ڈاکٹر قدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی وقت بنایا۔ نواز شریف کے دور میں اعلانیہ ایٹمی دھماکے کیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنا رکھی۔ پاکستان کے تمام صدور اور آرمی چیف نے اس کی حفاظت کی۔ بہت سے دوسرے ایٹمی سائنسدان اس میں شامل رہے۔ یہ سب قابل تعریف ہیں ۔یہ سب پاکستانی قوم اور امت مسلمہ کے ہیرو ہیں۔اﷲ پاکستان کو کھویاہوا مکان واپس دے۔ پاکستان کو مسلم دنیا کی حفاظت اور فطری لیڈر شپ کا فریضہ ادا کرنے کے قابل بنائے۔ اقوام متحدہ میں امت مسلمہ کی نمایندگی حاصل کرے۔ آمین۔
 

Mir Afsar Aman
About the Author: Mir Afsar Aman Read More Articles by Mir Afsar Aman: 1118 Articles with 955108 views born in hazro distt attoch punjab pakistan.. View More