''1857ءاور ملت کے پاسبان''

''1857ءاور ملت کے پاسبان''
جہاد آزادی 1857ء پر سید رفیق شاہ ایک ایسی تاریخی دستاویز
جو ہماری تاریخ کے اُن پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کرتی ہے جس پر وقت کے دبیز تہہ نے پردے ڈال کر اغیار کو رطب ویابس پر مبنی تاریخ سازی کا موقع فراہم کیا ہے ۔

1857ءاور ملت کے پاسبان

''1857ءاور ملت کے پاسبان''
جہاد آزادی 1857ء پر سید رفیق شاہ ایک ایسی تاریخی دستاویز
جو ہماری تاریخ کے اُن پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کرتی ہے جس پر وقت کے دبیز تہہ نے پردے ڈال کر اغیار کو رطب ویابس پر مبنی تاریخ سازی کا موقع فراہم کیا ہے ۔
---------------------------------------------------
قومیں جب مغلوب ہوجائیں توفاتح کو حق پہنچتا ہے کہ وہ مفتوح سے سب کچھ چھین لے۔فرنگی اقتدار کے آتے ہی ہندوستان کے طورو اطوارسب بدل گئے۔ مغربی تہذیب ملک کے ہر موڑ پر مسلح ہوکر بیٹھ گئی اور مذہب کا ضابطہ اخلاق ڈھلتے سورج کی طرح اپنی رعنائیوں سمیت یورپ کی پنہائیوں میں اُتر گیا۔انگریز مسلمانوں کے اقتدار کا نصف النہار دیکھ چکے تھے۔ اُن کے نزدیک اِس عروج کا احساس ِفکر مٹانا دیرپا فرنگی اقتدار کے لیے لازمی تھا ۔چنانچہ فرنگیوں نے ہندوستانیوں کو اپنی روایات اور تہذیب سے مرعوب کرنے کے لیے جو گھٹیا ہتھکنڈے اختیار کیے ،وہ یقینا نہایت ہی ظالمانہ تھے۔
مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد انگریز اپنے ساتھ سامراجی تسلط ہی نہیں بلکہ مغربی طرز زندگی اور معاشی بحران بھی لائے۔ہندوستان کے لیے عام طور سےاور مسلمانوں کے لیے خاص طور سے یہ ایک نیا حادثہ اور تجربہ تھا۔انگریز انتقام کی آگ میں مسلمانوں کے نظام تعلیم وتربیت کو ہی نہیں بلکہ اُن کے دینی و معاشرتی اور تہذیبی ڈھانچے کو ہی منہدم کرنا چاہتے تھے۔چنانچہ کمپنی بہادر نے مسلمانوں کے معاشی وسائل اور اُن کی تہذیب کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔انگریز کے مسلم دشمن روّیے نے مسلمانوں کی علمی،تعلیمی،اقتصادی اور معاشی زندگی تباہ کرکے رکھدی اور اُنہیں ہر شعبہ زندگی میں ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کی۔
قومی زندگی کا یہی وہ موڑ تھا جب ہندوستانی مسلمانوں کو احساس ہوا کہ سلطنت کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب واقدار اور مذہب جیسی متاع عزیز بھی لٹ چکی ہے۔اِس مسموم فضا میں بریلی کے کوچہ وبازار میں ایک اشتہار چسپاں پایا گیا جس کی عبارت تھی'' ہندووں اور مسلمانوں اُٹھو۔۔۔!اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں آزادی سب سے بڑی نعمت ہے۔۔۔۔خدا تمہیں غلام نہیں رکھنا چاہتا، اُٹھو اور میدان جنگ میں خدا کا حکم بجا لاتے ہوئے اپنا فرض پورا کرو۔''اسی طرح ایک اشتہار دلی میں بھی دیواروں پر لگا دیکھا گیا۔اِن اشتہارات کا اثر یہ ہوا کہ ہرطرف فرنگیوں سے نفرت کی آگ بھڑکنے لگی اورعوام بیدار ہونے لگے۔ دوسری طرف مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی،عظیم اللہ خان اور دیگر علماءومشائخ اور ہندو پنڈت ملک کونے کونے میں پھیل کر انگریزوں کے خلاف انقلابی تقریریں کرنے لگے۔جس نے لوگوں کے دلوں کو گرمایا اور آزادی کے جذبے کو بیدار کیا۔ رہی سہی کسر اُن مبینہ سُور اور گائے کی چربی لگے کارتوسوں نے پوری کردی جن کی مہر دانتوں سے اکھاڑ کر اُنہیں بندوق میں ڈالنا پڑتا تھا۔
چنانچہ ردِعمل میں10،مئی1857ءکو میرٹھ سے آزادی کی پہلی کرن طلوع ہوتی ہے۔جو انقلاب کا پہلا نقیب اور جنگ ِآزادی کی وہ پہلی آواز تھی جس کے پس پشت علماءومشائخ اہلسنّت کی برسوں کی محنت اور کاوشیں کار فرماتھیں۔جن میں خاص طور پررئیس المجاہدین مولاناسید احمد اللہ شاہ مدراسی کے اُن انقلابی دوروں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جو میرٹھ،کلکتہ،پٹنہ اور دلی سے لے کر برصغیر کے ہر اہم فوجی علاقے تک پھیلے ہوئے تھے۔
یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ جنگِ آزادی میں علمائے وقت نے انگریزوں کے خلاف صرف فتوے ہی جاری نہیں کیے بلکہ جہاد کی ترغیب دینے کے لیے میدان ِکار زار میں عملی حصہ لے کر اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے۔اِن اکابرین ملت میں علامہ فضل حق خیرآبادی،مفتی صدر الدین آزردہ،مولانا فیض احمد بدایونی،مولانا کفایت علی کافی،مفتی عنایت احمد کاکوروی،مولانا رحمت اللہ کیرانوی،مولانا وہاج الدین مراد آبادی، مولانا رضا علی خاں بریلوی، مولانا امام بخش صہبائی،منشی رسول بخش کاکوروی،مولانا غلام امام شہید،مفتی مظہر کریم دریا آبادی ، مولوی ڈاکٹر وزیر علی خان ،عظیم اللہ خان اور جنرل بخت خان روہیلہ وغیرہم کے نام نامی سرفہرست ہیں۔
یہ بات اظہر من الشمش ہے کہ 1857ءکی پوری تاریخ دیگر افرادِ ملت کے علاوہ بالخصوص علماءومشائخ ِاہلسنّت کی قربانیوں سے بھری پڑی ہے۔اور اِن سرفروشوں نے اُس ملّی غیرت کا ثبوت دیا تاریخ جس کی دوسری مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حالانکہ انگریزوں کے ظلم و ستم اور اندھے انتقام کی وجہ سے یہ جنگ ِآزادی برصغیر کی تاریخ میں ایک خونچکاں باب بن گئی۔مگر اپنی تمام تر خوں آشامیوں کے باوجود برعظیم میں آزادی کی یہ تحریک برطانوی راج کے خلاف تاریخ کا پہلا سب سے بڑا اور وسیع پیمانے کا چیلنج تصور کی گئی۔درحقیقت 1857ء کی جنگ آزادی ہماری قومی تاریخ کا جہاں ایک عہدآفریں واقعہ اورایک تاریخی دور کا اختتام ہے وہیں ایک نئے عہد کی علامت بھی ہے۔جو اپنے پیچھے اُس آزادی کی داغ بیل چھوڑ گیا جو بنائے پاکستان ہے۔
''1857ء اور ملت کے پاسبان''جہاد آزادی 1857ء پر ایک تاریخی دستاویز ہے۔جسے برادرم سید رفیق شاہ نے مرتب کیا ہے۔پانچ سو چھیانوے صفحات پر یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔حصہ اول میں1857ء کی جنگ آزادی کے اہم کردار مولانا احمد اللہ شاہ مدارسی،شاہ احمد سعید مجددی،امام بخش صہبائی،بہادر شاہ ظفر،جنرل بخت خان،مولانا رحمت اللہ کیرانوی،مولانا رضا علی خان،منشی رسول بخش کاکوروی،مولانا رضی اللہ صدیقی،مولانا وہاج الدین مرادآبادی،ڈاکٹر وزیر آغا،مفتی صدرالدین آزردہ،مفتی عنایت احمد کاکوروی،عبدالجلیل علی گڑھی،عبدالحق الٰہ آبادی،مولانا فضل رسول بدایونی،مولانا فیض احمد عثمانی،علامہ کفایت علی کافی،مولانا لیاقت الٰہ آبادی،مولانا نقی علی خان،علامہ فضل حق خیرآبادی جیسی سرکردہ مجاہد شخصیات پر علمی دنیا کے صاحب علم و دانش(ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی،ڈاکٹر خورشید مصطفیٰ رضوی، پروفیسر خیال آفاقی،ڈاکٹر تنظیم الفردوس،ڈاکٹر عارف نوشاہی،ڈاکٹر نور احمد شاہتاز،حکیم محمود احمد برکاتی،اسد نظامی،میاں محمد شفیع،ڈاکٹر ایوب قادری،یاسین اختر مصباحی وغیرہ) کے مضامین کا انتخاب شامل ہے۔جبکہ حصہ دوم میں اُن مضامین کا انتخا ب ہے جو 1857ء کی جنگِ آزادی کے مذہبی ، سیاسی،معاشی و اقتصادی عوامل ،انگریزی ظلم و استبداد،اپنوں کی انگریز دوستی، ملت فروشی اور منافقانہ سازشیں اور حامی و وفاداروں کے کردار کے ساتھ اُس دور کی قومی و ملی صورتحال کو عریاں کرتے ہیں۔
کتاب کے دونوں حصے اِس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ یہ ہماری تاریخ کے اُن پوشیدہ گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں جن پر وقت کے دبیز تہہ نے پردے ڈال کر اغیار کو رطب ویابس پر مبنی تاریخ سازی کا موقع فراہم کیا ہے ۔برادرم سید رفیق شاہ کے پیش نظر یہی وہ بنیادی مقصد ہے جو اِس کتاب کی وجہ تالیف ہے۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں''1857ء پر حال و ماضی میں جنہوں نے لکھا تاریخ سے انصاف نہیں کیا۔آج کے جدید دور میں جب کہ کمپیوٹر نے دنیا کو سمیٹ کر رکھ دیا ہے ،تاریخی حقائق کو تلاش کرنا مشکل نہیں رہا۔اِس دور میں بھی 10 مئی 2007ء روزنامہ جنگ کراچی کے جنگ آزادی 1857ء کے خصوصی ایڈیشن میں جنگ آزادی کی تاریخ کو مذہبی تعصب و فرقہ وارانہ سوچ کی بھینٹ چڑھایا گیا ۔ تاریخی حقائق کو مسخ کیا گیا حتی کہ ایسے کرداروں کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا جس کا اس جنگ میں قطعی کوئی کردار نہیں تھا۔۔۔۔۔ہمارے یہاں 1857ء میں مسلمانان ہند کے شاندار کردار کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے اور اُن سچے رہنماؤں کے نام تک نہیں لیے جاتے کہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے اُن کرداروں کو تلاش نہ کریں۔''
ہماری نظر میں یہ کتاب 1857ء کے مجاہدین آزادی کے شاندار تاریخ ساز کردار کو نمایاں کرنے کی ایک ایسی کاوشش ہے جس کے ذریعے تاریخ کے آئینے سے تعصب و عداوت کی گرد صاٖ ف کرنے کی کوشش کی کی گئی ہے تاکہ اصل حقائق تاریخ کے طالب علم کے سامنے آسکیں۔ برادرم سید رفیق شاہ اپنی اِس کوشش میں کس حد کامیاب ہوئے اِس کا فیصلہ غیر جانبدارانہ مطالعہ کی روشنی میں باآسانی کیا جاسکتا ہے۔
اِس کوشش و کاوش پر یقیناً برادرم سید رفیق شاہ ستائش ومبارک باد کے مستحق ہیں۔آخر میں ہم اہل شوق و جستجو سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ جہاد آزادی پر ''1857ء اور ملت کے پاسبان'' کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313438 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More