غم نہ کر ۔۔۔ (کسان)

وقت ا چھا بھی آئے گا ناصرٓ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
(ناصرٓ کاظمی)
یہ کون ہے؟ تپتی اور چلچلاتی دھوپ اور جسم کو جھلسا نے والی گرمی میں پسینے سے شرابور اپنی ہی دھن میں سخت مشقت کے کام میں مصروف کار ۔۔۔ ٹھٹھرتی اور خون جما دینے والی سردی، رات کا پہر، گھپ اندھیرا۔۔۔ ہُو کا عالم۔۔۔ لوگ اپنے لحاف اوڑھے خواب و خر گوش کے مزے لوٹ رہے ہیں، یہ شخص پھر نظر آتا ہے۔ بلا خوف وخطر اپنی نیند، آرام و سکوں کی قربا نی دیتے ہو ئے اپنے کا م سر انجام دے رہا ہے ۔ وہی شخص ایک بازار میں بھی نظر آتا ہے۔۔۔ یہ مضبوط اور بہادر نظر آنے والا شخص آج اتنا پریشان کیوں ہے۔۔۔ کچھ خریدنے کے لیے آیا ہے۔۔۔۔ کیا ! ۔۔۔وہ چیزیں مل نہیں رہی۔۔۔۔ پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔۔۔۔اچھا ! چہرے سے پریشانی کے آثار کچھ کم ہوئے۔۔۔۔ وہ چیزیں مل جائیں گی ۔۔ مگر! ۔۔۔۔ مگر کیا ؟۔۔۔مگر اس کی قیمت بہت زیادہ ہے! وہ شخص پھر سے سوچ میں گم ہو تا ہوا نظر آتا ہے۔ اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے۔۔۔ کوئی بات نہیں چیزیں مہنگی سہی۔۔۔۔ لیکن مل تو جا ئیں گی یہ بھی غنیمت ہے۔ ۔۔۔چیزوں کو مہنگے داموں خریدنے کے بعد وہ شخص جیب کو دیکھتا ہے تو خا لی ۔ اب اس شخص کے تا ثرات خوشی اور غمی کی ملی جلی کیفیت ۔۔ ایک طرف ا شیاء کے ملنے کی خوشی۔۔اور ۔۔ دوسری طرف جیب خا لی ہو نے کا غم ۔۔۔۔۔۔ اب کہا نی کا ایک اور خطرناک رخ بھی سامنے آتا ہے۔۔۔ کیا کہا !۔۔۔۔۔ دھو کا !۔۔۔ یہ مہنگے دامو ں خریدی ہوئی اشیا ء بھی جعلی اور ملاوٹ شدہ۔۔ سرپر جیسے آسما ں ٹوٹ پڑا ہو۔۔۔۔ اب کیا کیا جائے؟؟؟؟ وہ شخص اس افتاد کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔۔۔۔۔ ہمت اور حوصلے سے پھر رات دن محنت اور د عائیں کرتا ہے۔۔آخر اس کی محنت کا ثمر اﷲ پاک کی ذات اسے عطا کرتی ہے۔۔۔۔۔ شکر ادا کرتے ہوئے اگلی منزل کی گامزن ۔۔۔۔دل ہی دل میں خوش ہو رہا ہے۔۔۔۔ کچھ حا لا ت سنوریں گے۔۔۔۔کچھ زندگی میں بہتری آئے گی۔۔۔ مگر یہ کیا!۔۔۔۔۔محنت کے اس ثمر کا اتنا کم مول۔۔۔ سارے سہا نے سپنے ٹوٹ گئے۔۔۔۔ اب ا س شخص کے دل و دماغ کے آسمان پر خدشات اور پریشانیوں کے بادل منڈلا رہے ہیں۔۔۔ آس ، امید کے کچے گھر پر بے یقینی کی بجلی بار بار گر رہی ہے۔۔۔۔ وہ بادل جن سے زندگی کی بو ندیں بر سنے کی امید وابستہ تھی وہی غم کی طوفانی بارش برسا رہے ہیں۔۔۔۔۔اس شخص کی روح اور سوچ کو سوالات بار بار نشتر کی طرح گھا ئل کرہے ہیں۔۔۔ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟۔۔۔میں تو سبھی کا بھلا کرنے کی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی دن رات کوشش کرتا ہوں۔۔۔میرے بھلے کی کون سوچے گا ؟۔۔۔۔۔۔۔ یہ شخص کون ہے؟۔۔۔ ذرا سوچیے!۔۔۔۔ جی ہاں!۔۔۔۔ ٹھیک پہچانا!۔۔۔ یہ شخص ـ ہمارا کسان ہے ۔

کسا ن مٹی کا وہ بیٹا ہے جو مٹی سے پیار کرتا ہے اس کا اوڑھنا بچھونا مٹی،اس کی محنت اپنی مٹی کے لیے ،اس کا صلہ بھی یہی مٹی، اس کے پاؤں کی آبلہ پائی بھی اس پر، ہا تھوں کی لکیروں پر بھی یہی مٹی ۔زندگی کی تندوتیز آندھی میں اسی مٹی کی گرد سے چہرہ گرد آلود۔اپنی امید کا بیج بھی اسی مٹی میں بو تا ہے۔ یہی اُمید کا بیج اسی مٹی سے خوراک اور پا نی کا حصول کرتے ہوئے خوشیوں کے نازک پودے کی شکل میں (خدا کی قدرت کا مظہر بن کر ) اسی مٹی سے سر باہر نکالتا ہے ۔ لیکن جب اس پودے کو بے یقینی،نا امیدی،خدشات کے کیڑے اور بیما ریاں ختم کرنے پر تلے ہوں۔ ۔۔۔

تو کسا ن کے مشکل حالات کو بے حسی کی عینک اتار کر اس عدسے سے دیکھنے کی ضرورت ہے جس سے ان کے حا لات کی سنگینی کو باریک بینی سے دیکھا جا سکے۔ کسان مشکلات کے ایک دائمی چکر اس طرح پھنس چکا ہے کہ اس سے نکلنا محال۔ فصل کی بوائی سے لے کر کٹا ئی تک ۔۔پانی، بیج،کھاد، ادویات، اور زمین کے متعلق ڈھیروں مسائل۔۔۔۔لیکن تکلیف اس وقت برداشت کرنا نہایت مشکل جب کسان اپنی فصل منڈی میں اونے پونے داموں بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔۔۔۔ اس کے مضمرات کچھ بھی ہوں ۔۔۔۔ لیکن کسان کا پرسان حال کون۔۔؟
اس تحریر لکھنے کے دوران احمد فرازٓ کے اشعار ذہن میں باز گشت کرنے لگے۔
یہ سوچ کر کہ غم کے خریدار آ گئے
ہم خواب بیچنے سرِ بازار آ گئے
آواز دے کے چُھپ گئی ہر بار زندگی
ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آگئے

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کسان کی قدر کریں اور اس کی مشکلات کے عملی حل کی جا نب حقیقی قدم اٹھائیں۔کسان وہ انسان ہے جو دوسرے انسانوں کے پیٹ بھرنے کے لیے اپنا پیٹ کا ٹتا ہے۔ طرح طرح کے اناج، سبزیاں، پھل جن سے ہمارے دستر خواں سجائے جا تے ہیں ا ن کی کاشت کی مشقت کسان کے ذمے۔ ہم اگر با ت کی ـحقیقت کو اس طرح سے دل سے تسلیم کر لیں کہ اﷲ پاک کی لا تعداد نعمتوں میں سے ایک انمول نعمت اور تحفہ کسان بھی ہے جس کی آج ہم نے قدر نہ کی تو بعد میں پریشانی اور پشیمانی سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔۔۔۔

 

Dr. Ghazanfar Ali Khan
About the Author: Dr. Ghazanfar Ali Khan Read More Articles by Dr. Ghazanfar Ali Khan: 6 Articles with 3355 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.