جمعہ نامہ :سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی

حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کا ایک پہلو تو یہ ہےکہ ابطالِ شرک کی خاطر بت شکنی کے بعد برضا و رغبت آتشِ نمرود کے لیے تیار ہوگئےلیکن ارشادِ ربانی یہ بھی ہے کہ: ’’ حقیقت میں ابراہیمؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا ۰۰‘‘۔ یہ تعریف و توصیف قوم لوط کے معاملہ میں ابراہیم ؑ کی حجت سے متعلق ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :’’(فرشتوں نے کہا) "اے ابراہیمؑ، اس سے باز آ جاؤ، تمہارے رب کا حکم ہو چکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا‘‘۔اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ قوم لوط کی خاطر مزید مہلت کے طالب تھے ۔ یہ عذاب کے فرشتے حضرت ابراہیم ؑ کے لیےبڑی بشارت لے کر آئے تھے ۔ارشادِ حق ہے:’’ اور دیکھو، ابراہیمؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے کہا تم پر سلام ہو ابراہیمؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیمؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ضیافت کے لیے) لے آیا مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہو گیا اور دل میں خوف محسوس کرنے لگا۔ اُنہوں نے کہا "ڈرو نہیں، ہم تو لوطؑ کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں‘‘ابراہیمؑ کی زوجہ بھی کھڑی ہوئی تھی وہ یہ سن کر ہنس دی پھر ہم نے اسحاقؑ کی اور اسحاقؑ کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی ۔ وہ بولی "ہائے میری کم بختی! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بڑھیا پھونس ہو گئی اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہو چکے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے‘‘۔

تفسیرِجلالین کے مطابق اس وقت ابراہیم ؑ کی عمر 120سال اور حضرت سارہؓ کی عمر 90 سال تھی ۔اس کے جواب میں ’’ فرشتوں نے کہا "اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ ابراہیمؑ کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہیں، اور یقیناً اللہ نہایت قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔ پھر جب ابراہیمؑ کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور (اولاد کی بشارت سے) اس کا دل خوش ہو گیا تو اس نے قوم لوط کے معاملے میں ہم سے جھگڑا شروع کیا‘‘۔ اس تناظر میں حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کو دیکھیں :’’اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘۔ اپنے خلیل کی دعا کواللہ تبارک و تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازہ ۔ فرمانِ ربانی ہے:’’ ہم نے ان کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی ‘‘۔ اس عنایت کے ساتھ یہ حکم بھی ملا کہ ننھے اسماعیلؑ کو والدہ حضرت حاجرہ ؓ کے ساتھ بے آب و گیا صحرا میں چھوڑ دیا جائے۔

حدیث رسولﷺ کا مفہوم ہے جب آپؑ حضرت حاجرہ کو چھوڑ کر جانے لگے تو انہوں نے اپنے خاوند کو آواز دے کر پوچھا،اے ابراہیم ہمیں کس کے پاس چھوڑے جارہے ہو؟حضرت ابراہیم ؑ نے جواب دیا اللہ کے پاس ۔حضرت حاجرہ ؓ کی زبان سے نکلامیں اللہ کے ساتھ رہ کر راضی ہوں۔ چلتے چلتے مزید پوچھاکیا اللہ نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے ؟حضرت ابراہیم علیہ السلام بولے ہاں یہ سن کر حضرت حاجرہ ؓ کی رضایقین میں بدل گئی اور انھوں نے کہا:یہ بات ہے تو اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ثنبہ پہنچ کر دعا کی :’’پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں‘‘ ۔

آزمائش کا یہ سلسلہ اس طرح دراز ہواکہ :’’وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا، "بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا، تیرا کیا خیال ہے؟‘‘ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو وحی کے ذریعہ حکم نہیں دیا بلکہ خواب دکھایا مگر حضرت اسماعیلؑ نے اس کو سن کر جواب دیا :’’ابا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ ان شاءاللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے" یعنی سعادتمند بیٹے نے اس خواب کو حکم کا درجہ دیا ۔ آگے ارشادِ قرآنی ہے:’’آخر جب اِن دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا تو اور ہم نے ندا دی کہ ’’اے ابراہیمؑ تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی‘‘،اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیااور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی‘‘۔یعنی سنت ابراہیمی ؑ کو تاقیامت جاری و ساری فرما دیا ۔ فرمانِ قرآنی ہے ’’سلام ہے ابراہیمؑ پرہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں‘‘۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2069 Articles with 1258272 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.