تنقید، لکھاری اورقارئین

تحریر: ذوالفقار علی بخاری، پاکستان

برقی پتہ: [email protected]


ہمارے ہاں اکثر اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ فلاں قلم کار نے کچھ ایسا لکھا ہے اُسے کچھ ویسا لکھنا چاہیے تھا؟


جیسا لکھنا تھا ویسا نہ لکھ کر،وہ ایسا اورکچھ ویسا ہو گیا ہے، یعنی آپ کہہ سکتے ہیں کہ جتنے منہ اُتنی ہی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔


جو خود اچھا نہیں لکھ سکتے ہیں وہ بہترین لکھنے والوں پر خوب طنز کے نشتر چلاتے ہیں اورکچھ تو اپنی بات کو دوسروں کے کندھوں پر رکھ کر چلاتے ہیں تاکہ اپنی بات کسی تک پہنچائی جا سکے اور اُن کا جی بھی ہلکا ہو جائے یعنی کچھ کہہ بھی گئے اورکہا کچھ بھی نہیں کے مصداق یہ احباب اپنی چار دیواری میں بہت بڑے پھنے خان ہوتے ہیں تاہم جب ایسے معاملات پیش آتے ہیں تو چھپ کر وار کرتے ہیں تاکہ تو پ کا گولہ اُن کی طرف نہ آجائے۔اگر تنقید کی بات کی جائے تو یہ دو طرح کی ہو سکتی ہے۔


تنقید برائے اصلاح اور تنقید برائے تنقید


اس میں سے ایک قسم تو کسی بھی قلم کار کے فن کو مزید نکھارنے کے کام آتی ہے لیکن دوسری سے محض لکھاری سے کوئی ذاتی عناد یا پھر اُس کی ہنرمندی سے خائف ہو کر اپنے سے کم تر ظاہر کرنے کے لئے بھی ہو سکتی ہے۔راقم السطور نے ایک زمانے میں خوب رسائل پڑھے ہیں اور اُن دنوں شائع ہونے والے خطوط کو بھی خوب پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے۔ انہی دنوں میں ایک کہانی نویس کی جانب سے دوسری قلم کارکے بارے میں کچھ ایسی رائے پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا جس کے بعد مذکورہ بالا لکھاری لکھنے سے تقریباََ تائب ہو گئی تھیں، اُس وقت چوں کہ قلم چلانے کی بجائے قلم کاروں کو پڑھنے کا شو ق زیادہ تھا تاہم وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جب از خود قلم کار بننے کا موقع ملا ہے تو اُن دنوں کے مشاہدات خوب یاد آرہے ہیں اور یہ سب سمجھا رہے ہیں کہ اگر آپ نے کسی کو کسی بھی شعبے سے باہر کرنا ہے تو آپ نے تنقید ایسی کرنی ہے کہ وہ معصوم جو کسی بھی شعبے میں کچھ کر سکتا ہے وہ دل برداشتہ ہو کر چھوڑ جائے اورنام نہاد فنکاروں کو اپنی دکانداری چلانے کا خوب موقعہ مل سکے۔اگر آپ ادبی دنیا میں دیکھیں تو آپ کو یہاں دیگر شعبہ جات کی نسبت بہت زیادہ ایک دوسرے کو گرا کر یا پھر کم تر ثابت کرکے اپنے آپ کو زیادہ اُجاگر کرنے کا بہت شوق ہے۔


آپ سعاد ت حسن منٹو کو دیکھ لیجئے اُن کے لکھے گئے افسانے کس قدر شاندار تسلیم کیے جاتے ہیں تاہم ایک وقت تھا جب ان کوچھے افسانوں، ”کالی شلوار“، ”دھواں“، ”بو“، ”ٹھنڈا گوشت“، ”کھول دو“، اور ”اوپر نیچے اور درمیان“ کے حوالے سے خوب باتیں سننی پڑیں تھیں لیکن جوں جوں وقت گذرتا گیا ہے اُن کے ادبی قد میں اضافہ ہی ہوتا دکھائی دیا ہے۔ادبی دنیا میں جو دل چسپ کام راقم السطور کو دیکھنے کو ملا ہے وہ یہ ہے کہ کچھ ایسے بھی ادیب ہیں جو اپنے ادبی قد کو اونچا کرنے کے لئے اپنے شاگردوں کو ازخود یا پھر وہ اُن کی چاہت میں اس قدر قلم کی فنکاری دکھاتے ہیں کہ سب یہی سمجھتے ہیں کہ منٹو سے بڑھ کر وہی ہیں اورکوئی بھی ادیب اُن کے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں۔اگرچہ راقم السطور کے الفاظ کچھ زیادہ سخت ہیں تاہم اگر آپ حقیقت کو ارد گرد کا ماحول دیکھ کر محسوس کریں تو آپ کو واقعی علم ہو جائے گاکہ یہ کڑواسچ ہے کہ آج ادب کے فروغ سے زیادہ ادیب اپنی خود نمائی میں زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں اوراگر اُن کے قارئین ان کو تنقید کے ساتھ کچھ عرض کر دیں تو وہ ان کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتی ہے۔ اگرچہ اس طرح کے ادیب کم ہیں لیکن ادبی دنیا میں آج بھی موجود ہیں۔یہ بات بھی حقیقت ہے کہ آج ادبی محفلوں میں بھی وہ احباب کم دکھائی دیتے ہیں جو کسی بھی ادبی فن پارے کو مروجہ قوانین کے تحت پرکھتے ہیں اوران کی ادبی حیثیت کے بارے میں رائے زنی کرتے ہیں ایسے شاہ کار فن پاروں کی بہتات ہے جن کو تنقید نگاروں نے بُرا کہا وہ شاندار ثابت ہوئے اور کچھ واقعی قارئین کو متاثر نہ کر سکے حالانکہ تنقید نگاروں کی رائے کچھ الگ تھی۔


یہ 21فروری 2021کی بات ہے جب راقم السطور کو ایک ایسی بات سننی پڑی جس نے ہمیں ایک پل کے لئے سکتے میں ڈال دیا تھا اگرچہ بعد میں معلوم ہوا تھا کہ وہ بات ہمارے لئے نہیں تھی تاہم جس انداز میں تنقید کی گئی تھی اُس نے ہمیں آنے والے دنوں کے لئے بہت کچھ سمجھا دیا تھا کہ ادبی دنیا میں سنبھل کر چلنا ہے کہ جب ایک معروف ادیب کسی غیر معروف قلم کارسے نامورادیب پر اُس کے کندھے کو استعمال کرکے تنقید کرے تو پھر سوچ لیجئے کہ وہ کیا کچھ نہیں سوچے گا، یہی ادبی دنیا میں کچھ احباب کا منفی طرز عمل ہے جس کی وجہ سے آج ادب کا زوال دیکھنے کومل رہا ہے۔اگرچہ اس میں دیگر وجوہات بھی اہم ہیں تاہم یہ بات سوچنے کی ہے کہ جو ادب انسان کو سنوار سکتا ہے وہ کیسے زوال پذیر ہو سکتا ہے۔



تنقید کے حوالے سے قارئین کو بھی دیکھنا چاہیے کہ یہ لازمی نہیں ہے کہ کسی بھی لکھاری کی کوئی تحریر اُن کی سوچ کے مطابق ہو تو وہ اُ س پر بات کریں۔ اگر لکھاری نے قاری کی سوچ کے برعکس بھی بات کہی ہے تو اُن کو ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی اور قاری اس کو پسند کر سکتا ہے کہ ہر قاری کی اپنی اپنی پسند ہوتی ہے کہ سب انسان اپنی اپنی سوچ رکھتے ہیں۔اگرقارئین لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کریں گے تو پھر ان کے لکھنے میں بھی فرق نظر آئے گا جب کہ اس کے برعکس اگر قارئین محض تنقید ہی کریں گے تو لکھاری نے قلم کو ہی چھوڑ دینا ہے جو کہ نہ صرف ادب کے لئے بلکہ دیگر پڑھنے والوں کے لئے بھی خسارے کا سبب ہوگا کہ اگر معیاری لکھنے والا لکھنا چھوڑ گیا تو پھر غیر معیاری لکھنے والوں کو پڑھنا پڑے گا۔ اس لئے قارئین کو لکھاریوں کے لکھے گئے مواد کے اعتبار سے تنقید اور اصلاح کی بات کرنی چاہیے، اگر کوئی لکھاری دوسرے ادیب کی تحریر پر تنقید کرتا ہے تو وہ یہ سوچ کربات کہے کہ اُس پر بھی تنقید ہو سکتی ہے اس لئے حوصلہ شکنی کی بجائے نرم لفظوں میں بات سمجھانے کی کوشش کرے اگر وہ کھلے عام تنقید کرے گا تو وہ تنقید برائے اصلاح نہیں بلکہ تذلیل کے زمرے میں آئے گی کہ اگر ایک قلم کار دوسرے لکھاری کی پردہ پوشی کرتے ہوئے خاموشی سے اصلاح کرے گاتو وہ اُسے مزید نکھار سکتی ہے تاہم ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ مشہور ادیبوں کے پاس کم ہی نوجوان سیکھنے کے لئے جاتے ہیں کہ وہ اول تو وقت نہیں دیتے ہیں پھر وہ اصلاح بھی کچھ یوں کرواتے ہیں جیسے احسان کر رہے ہوں۔اکثر نوجوان ادیب بڑے ناموں کی تنقید سے ہی اتنے گھبرا جاتے ہیں کہ قلم تھامنا ہی بھول جاتے ہیں۔



یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تنقید کسی بھی شے کو بہتر کرنے کے لئے بے حد ضروری ہے لیکن اس میں بھی اعتدال سے کام لینا چاہیے کیوں کہ لکھاری بے حد حساس ہوتا ہے و ہ اپنی تحریروں کو اولاد کی مانند سمجھتا ہے اس لئے تنقید کو بھی مناسب الفاط میں بیان کرنا چاہیے یہ نہ ہو کہ آپ لکھاری کا کلیجہ ہی پھاڑ نے کو تیار ہو جائیں۔جس طرح سے سعادت حسن منٹو کی تحریروں کو پہلے تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ بہت کم ہی ادیب سہہ سکتے ہیں لیکن لکھاریوں کو بھی یہ حوصلہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے کہ وہ تنقید کو خندہ پیشانی سے برداشت کر سکیں یہی ان کے نکھار کے لئے بھی بہترین ہوگی۔قارئین چوں کہ ہر لکھاری کو ایک مخصوص سوچ سے پڑھتے ہیں اس لئے ان کی رائے کو ہر لکھاری کو مثبت لینا چاہیے اگر وہ اس سے اختلاف کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں اس کے لئے بہترین یہی حل ہے کہ وہ اپنی اگلی تحریر میں اپنا جواب دے دیں یوں ان کی ساکھ بھی قائم رہے گی اورقارئین کو بھی اُن کی جانب سے بھرپور جواب مل جائے گا۔ختم شد۔
۔ختم شد۔


Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 392 Articles with 481872 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More