کوئی بھول تو ہوئی ہے

قتل وغارت جنسی درندگی بے حرمتی کے واقعات ہیں کہ رُکنے کانام ہی نہیں لے رہے ،ایک ہی وقت میں کئی کئی خبریں جنسی زیادتی کے واقعات کی چل رہی ہوتی ہیں،بری خبروں کا جیسے کوئی طوفان برپا ہے ،ہر طرف لاشیں ہی لاشیں ہیں ۔۔ درندگی کی شکاربے حرمتی و تذلیل کا نشانہ بنی۔۔۔ تشدد زدہ لاشیں۔۔ہر عمر ہر جنس کے انسانوں کی لاشیں جن سے انکی زندگی زبردستی چھین لی گئی ۔۔۔۔غیرت کے نام پر ماری گئی بدنصیب عورتوں۔۔۔۔ نسل درنسل دشمنیاں نبھاتے اور کٹتے ہوئے مردوں کی ان گنت لاشیں ۔۔ ۔معصوم بچے بچیوں کی لاشیں ۔۔اپنی بے حرمتی توہین اور تذلیل کی وجہ پوچھتی ۔۔۔اپنے چھوٹے چھوٹے مگرمرے ہوئے ۔۔۔اورکچل دیئے گئے معصوم خوابوں کو حیران اور ویران آنکھوں سے تکتی لاشیں ۔۔ ۔۔ ’انسان نمادرندوں ‘‘کی حرص ہوس اورجنسی خواہشات کی قیمت چکانے والی بے گناہ ننھی منی بچیوں اور معصوم فرشتوں جیسے بچوں کی لاشیں سوال کرتی ہیں ہمارا جرم کیا تھا ۔۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آرہی یہ ہم کہاں رہ رہے ہیں ۔۔۔یہ کوئی انسانی معاشرہ ہے یا مردہ خانہ ۔۔۔جہاں موت ہی موت نظر آرہی ہے۔۔یہ آخر کیا جگہ ہے۔۔۔۔ جہاں چارسوظلم ہی ظلم ہے۔۔۔۔ مردے ہی مردے اورلاشیں ہی لاشیں ہیں۔۔۔۔مظلوموں بے گناہوں کے لاشوں کے ڈھیر لگے ہیں ۔۔۔ بیٹیاں ہی نہیں بیٹے بھی گھر سے باہر پڑھنے یا دیگر امور کے لئے بھیجتے وقت والدین جان ہوا ہوتی ہے ۔۔۔۔یااﷲ یہ کیسا دور آگیا ہے ۔۔۔۔اخلاقی گراوٹ کی ایسی مثالیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے ۔۔۔ایک واقعہ کی دھول ابھی بیٹھتی نہیں کہ دوسرا سر اٹھائے سامنے کھڑا ہوتا ہے ، مظلوموں کی آواز کو حکمرانوں تک رسائی ہمیشہ مشکل سے ملتی رہی ہے مگر اب تو میڈیا اور انٹرنیٹ کا دور ہے جہاں ظلم وبربریت کا نشانہ بننے والی عورتوں کی چیخ وپکار ہے۔۔۔ہوس کا شکارننھی منی آوازوں کا شور ہے ، ہر طرف آہ بکا ہے ۔۔۔ماتم ہے ۔۔بچے بچیاں لہو لہان ہیں ۔۔۔ تذلیل اور تضحیک ہی نہیں ۔۔درندگی کی ہر حد سے آگے جاکر انکے ساتھ وہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جسکا تصور کر کے چیخیں نکل جاتی ہیں۔۔۔۔ بچے بچیوں کے لئے مدارس محفوظ ہیں نہ سکول کالج ۔۔۔نہ ہی اپنا محلہ محفوظ رہا ہے جو کبھی سب کا مشترکہ گھر ہوا کرتا تھا ۔۔۔۔لڑکے لڑکیاں ا کٹھے کھیلتے تھے مگر عزتیں اور بیٹیاں سب کی سانجھی تھیں اب بچیاں نہیں بچوں کو بھی بچاکے رکھنا مشکل ہو گیا ہے ۔۔یااﷲ اس ملک کے حکمران کہاں ہیں۔۔۔ہر طرف ظلم کا بازار گرم ہے ۔۔۔انہیں رات کو نیند کیسے آجاتی ہے۔۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں ہیں ۔۔وہ استاد کد ھر گئے جو بچوں کو انکے ماں باپ سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے۔۔وہ ماں باپ کہاں ہیں جو بچوں کے ایک ایک منٹ حساب رکھتے تھے ۔۔۔۔وہ نانیاں اوردادیاں کہاں ہیں جو بچوں پر ایک ایک لمحہ نظررکھتی تھیں وہ گلیاں کہاں گئیں جہاں سارا دن کھیلنے والے بچے شام کو سلامتی کے ساتھ گھر لوٹتے تھے۔۔۔۔وہ عالم دین کہاں ہیں جو اصلاح معاشرہ پر توجہ دیتے تھے اور سارا وقت اورزور اپنے فرقے کی تشہیر پہ صرف نہیں کرتے تھے۔۔۔وہ صحافی کہاں ہیں جو جان کی پرواہ کئے بغیرہر ظلم کے سامنے کھڑے ہوجاتے تھے وہ وکلاء کہاں ہیں جو مظلوموں کوانصاف دلاتے وقت فیس کے پیسوں کا نہیں سوچتے تھے۔۔۔۔ آئیں ہم سارا وقت کاروبار اور نوٹ کمانے اور گننے میں لگادینے کی بجائے کچھ وقت بچوں کو بھی دینے لگ جائیں ، مردو خواتین اپنے اپنے موبائیل کی عیاشی اوراسکے سحرسے کچھ دیر کو باہر نکلیں ۔۔۔۔اسکی سکرین سے لمحہ بھر کو نظر ہٹائیں اور اہل خانہ اہل محلہ اور قریبی لوگوں کوبھی دیکھنا شروع کریں،آئیں ظلم و زیادتی کی شکارعورت کو ہی دو نمبر کہہ کر بد اخلاقی کی توجیح پیش کرنا چھوڑدیں اورعورت کے کردار پر چڑھ دوڑنے سے پہلے لمحہ بھر کو سوچیں کہ ہم جس گناہ کا الزام اس پر دھر ر ہے ہیں کیا وہ مرد کے بغیر ممکن ہے۔۔۔۔ آئیں فقط چند لمحوں کے لئے ہی سہی اپنی ساری مصروفیات ترک کر کے سوچیں کہ ہم سب سے کہاں بھول ہوئی ہے۔
 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 67828 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.