دلیپ کمار ہمیشہ کے لئے چلے گئے

بی بی سی پر گفتگو کرتے ہوئے دلیپ کمار نے کہا :
'کہاں سے چھیڑوں فسانہ کہاں تمام کروں '
اسی طرح میری بھی سمجھ میں نہیں آرہا کہ دلیپ صاحب کے لئے اپنی بےپناہ عقیدت اور محبت کا اظہار کہاں سے شروع کروں (ویسے بھی مجھے اردو میں ٹائپ کرنے میں تین گنا وقت لگتا ہے اور میں وہ سب شائد نہ کہ سکوں جو کہنا چاھتا ہوں ) ایک انٹرویو میں دلیپ نے کہا ' میری ابتدائی زندگی ' جدوجہد ' فلموں میں آمد وغیرہ پر اتنا لکھا جا چکا ہے کہ اس اب دھرانے کی ضرورت نہیں_ آگے بڑھئے ...)
اپنی داستان شروع کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میری زیادہ تر معلومات ' دیگر لکھنے والوں کی طرح مختلف ذرائع سے حاصل کردہ ہے ' لہذا ' مجھے دوش نہ دینا جگ والو ' ہو جاؤں اگر میں دیوانہ....'
سولہ سترہ سال کی عمر سے میں نے دلیپ کمار مں دلچسپی لینا شروع کی _ ایک فائل بنائی اسکے اوپر دلیپ کی اک چھوٹی سی تصویر لگائی اور فقط یہ لکھا ' دی بیسٹ ' محدود ذرائع کے باعث زیادہ اخبار رسائل میّسر نہیں تھے پھر بھی 'اسکرین (بمبئی) 'فلم فئیر ' 'سنی ایڈوانس (کلکتہ) وغیرہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا ( ۱۹6۰ میں ہندوستان سے تفریح کر کے واپسی پر باڈر پر پاکستانی کسٹم افسر نے میری بےشمار قمیضوں اور نئے کپڑوں اور دیگر چیزوں پرکچھ نہیں کہا صرف التجا کی اور وہ بھی کیا ؟ اپنے یہ فلمی رسالے مجھے دے دیجیے ' سوچا کہدوں 'یہ دولت بھی لے لو 'یہ شھرت بھی لے لو ' مگر مجھ سے میری مینا کماری نہ چھینو ' میں اسے معمولی سپاہی مجھ کر بےرخی سے بات کر رہا تھا بعد میں پتہ چلا وہ بہت بڑا افسر تھا _ خیر اس نے جانے دیا 'موگیمبو خوش ہوا '
بات کہاں سے کہاں نکل گئی.....
۱ _دلیپ کی پہلی فلم 'جوار بھاٹا ' نہیں ' بلکہ ' پروتما' تھی جس میں سورن لتا ہیروئن تھیں _اور دلیپ کے ساتھ مُکری نے بھی اس سے اپنے فلمی سفر ا آغاز کیا تھا _( مکری ہمیشہ دلیپ کے گھر میں ہی رہے ) _'جوار بھاٹا ' کی نمائش پہلے ہوگئی اس طرح اسے دلیپ کی پہلی فلم کہا گیا _اسوقت کے سب سے بڑے فلمی رسالہ 'فلم انڈیا' کے ایڈیٹر نے اس فلم اور خصوصاً دلیپ پر بہت تنقید کی کہ اسکا فلموں میں کوئی مستقبل نہیں_ بیکار ' فضول ....بابو راؤ پٹیل کے ایک لفظ پر فلم چلتی تھی یا پٹتی تھی (بابوراؤ نے اپنی گاڑی میں ہمیں بمبئی کی سیر کرائی تھی ' ہنگنگ گارڈن وہاں آیسکریم وغیرہ وغیرہ )
۲ _گو کہ ان کے پاس ڈگریاں نہیں تھیں لیکن دلیپ کے گھر میں پڑھنے لکھنے کا ماحول تھا ' بڑے بھائی ایوب خان افسانے ' ڈرامے لکھتے تھے ' اک فلم کی کہانی بھی لکھی جسے وہ پاکستانی فنکاروں کے ساتھ مل کر بنانا چاھتے تھے لین ان کی صحت نے اجازت نہں دی _مولانا ابوالکلام آزاد کی سرور خان سے بہت دوستی تھی ' گھر میں آنا جانا تھا انہوں نے کہا 'آپ اپنے بیٹے کو فلموں میں جانے سےکیوں روکتے ہیں ؟ اگر اسے شوق ہے تو جانے دیجئے' پھر انہوں نے دلیپ کو مشورہ دیا ' زنگی میں جو بھی کام کرو 'محنت اور لگن سے کرو ' کامیاب رہو گے' اور پھر دنیا نے دیکھا کہ مولانا صاحب کی نصیحت دلیپ کمار کو قصّہ خوانی بازار پشاور سے بمبئی کے کرافورڈ مارکٹ اور پھرحسینوں کی آغوش تک لےگئی (کافی عرصہ کے بعد سرور خان نے دلیپ کی فلم دیکھی جہاں وہ ہیرؤین کی محبت میں تڑپ رھے ہیں 'گھر آکر انہوں نے اپنی بیوی سے کہا ' اگر اس لڑکی کے لئے یہ اتنا ہی بیقرار ہو رہا ہے تو چلو ' اسکو لے آتے ہیں ') دلیپ نے خود یہ اقعہ سنایا _

فٹبال کے علاوہ دلیپ کو کرکٹ سے بھی بہت دلچسپی تھی ' ایک دفعہ انہوں نے کہا ' میری خواہش ہے کہ جب انڈیا کے چار کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہو جائیں تو میں جا کر سینچری بناؤں ' (انکا اشارہ ۱۹۵۲ میں انگلینڈ کے خلاف لیڈز ٹیسٹ میچ کی طرف تھا جب انڈیا کے پہلے چار کھلاڑی صفر پر آؤٹ ہو گئے تھے ) دلیپ اپنے گھر میں بھی کھیلتے تھے 'مکری جو کہ دلیپ کے ساتہ ہی رہتے تھے' وکٹ کیپر بنتے تھے) _ایک دفعہ پاکستان کی ٹیم انڈیا گئی 'میاں داد کا پہلا دورہ تھا ' جب وہ دہلی میں اپنے ہوٹل کے کمرے میں گئے 'تو وہاں ایک گلدستہ رکھا ہوا تھا ' خوش آمدید _ از طرف یوسف ' (دلیپ کمار ) _ میاں داد نے فوراً فون پر دلیپ کا شکریہ ادا کیا _ ہمارے دوست ' ٹیسٹ امپائر ' محبوب شاہ کو بھی دلیپ نے بہت عزت بخشی _
ملنسار ' مد دگار ' سادگی پسند _
دلیپ کمار میں بہت خوبیاں تھیں 'احمد آباد میں جب فسادات ہوئے تو انہوں نے مسلمانوں کی بہت مد د کی _کھانا 'کپڑے وغیرہ سے _
عام طور پر کہا جاتا تھا 'مد د چاھئے ؟ دلیپ کمار کے پاس جاؤ ' ایک لفظ استعمال کیا جاتا ہے 'پیشہ ورانہ رقابت ' یعنی آپ جس پیشے سے متعلق ہیں ' آپ دوسرے کو اس میں آگے بڑھتے نہیں دیکھ سکتے خاص طور ' شو بزنس میں ' مگر دلیپ کمار اسکے برعکس تھے 'کئی لوگوں کو انہوں نے فلموں میں متعارف کروایا _جگدیپ (اشتیاق جعفری 'جاوید جعفری 'معروف فلمی شخصیت کے والد تھے_ آپ نے جاوید کے ساتھ میری تصویر دیکھی ہو گی ؟) 'انہیں دلیپ نے متعارف کروایا_
قادر خان نے مجھے بتایا کہ میرے ایک ڈرامہ ' تاش کے پتّے ' میں دیکھ کر دلیپ صاحب نے مجھے فلموں میں موقعہ دلوایا (بنگالی فلم 'سگینہ مہاتو'میں دلیپ کے ساتھ )_میں نے یہ فلم دیکھی ہے جہاں بنگالی بولتے بولتے دلیپ ایک دم اردو بولنے لگتے ہیں _ اسی طرح دلیپ نے بہت لوگوں کو سہارا دیا_

جھلکیاں _تلخ اور شیریں
انسان جب ہمیشہ کے لئے چلا جائے تو مناسب یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کی اچھی باتیں یاد رکھیں لیکن اگر جانے والا مشہور شخص ہو تو لوگ اس کے متعلق سب کچھ جاننا چاہتے ہیں_ایک انگریزی فلم میں ایک عورت کہتی ہے 'مائی لائف از لائیک این اوپن بک 'رادر اے کلوزڈ چیپٹر ' دلیپ کمار کی کہانیاں ہمیشہ دھرائی جائیں گی_ انکی زندگی بھی کھلی کتاب تھی_
تیزاب_
۱۹۵۰ کے اوائل میں دلیپ کے چہرے پر تیزاب پھینکنےکی کوشش کی گئی _لوگوں نے راج کپور کو دھمکی دی ' ہمارا کروڑوں کا سرمایہ لگا ہوا ہےکہ اگر دلیپ کو ایک خراش بھی آئی تو ہم تمہارے خاندان کو تباہ کر دیں گے' (دلیپ خاندان کے ایک قریبی دوست نے مجھے بتایا تھا) ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ راج اور دلیپ دونوں قریبی دوست تھے ' روزانہ اشوک کمار کے گھر جا کر انکی بیوی کے ہاتھ کی سبزی کھاتے تھے 'اکثر اشوک کے کام سےآنے سے پہلے ہی یہ دونوں وہاں موجود ہوتے ' اشوک آ کر کہتے 'یہ کیا تم دونوں میری بیوی سے فلرٹ کرتے رہتے ہو ' ویسے اشوک کا اسقدر دبدبہ تھا کہ دونوں کی ان سے جان نکلتی تھی_ان کو اشوک بھائی کہتے تھے_
ابتدائی دنوں کی بات ہے دیویکارانی نے دلیپ کو ایک ہزار روپےماہوار پر ملازم رکھا اور کہا تم روزانہ پابندی سے صبح سے شام تک اسٹوڈیو میں بیٹھ کر صرف اشوک کمار کی ایکٹنگ انکے ایک ایک انداز کو دیکھو گے اور سیکھوگے 'یہ ہی تمہاری ڈیوٹی ہے ابھی تمہیں کوئی رول نہیں دیا جائے گا' راج کپور کی تنخواہ ڈھائی سو روپیہ ماہوار تھی _
دلیپ کمار شہر یا غالباً ملک سے باہر تھے انہیں جوں ہی راج کپور کی تشویشناک حالت کا پتہ چلا وہ فوراً ہوائی جہاز سے دہلی اور پھر ہسپتال پہنچے ' راج تو ہمیشہ مجھ سے کہتا تھا کہ میں دیر سے آتا ہوں 'آج پھر مجھے دیر ہو گئی ' مجھے معاف کردے' راج جاچکا تھا _
بات دلیپ پرتیزاب پھینکنےکی ہو رہی تھی _ اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک دن دلیپ اپنی گاڑی میں اپنے گھر سے نکل رہےتھے تو دیکھا کہ ایک لڑکا کھڑا ہوا تھا انہوں نے وجہ پوچھی تو وہ رونے لگا ' میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں ' _حالانکہ دلیپ اسے سخت سے سخت سزا دلوا سکتے تھے مگر انہوں نے اسے معاف کردیا_
(آپ کویاد ہوگا غالباً ۱۹۶۴ میں جبکہ لتا منگیشکر اپنے عروج پر تھیں ' ان کے خانساماں کے ذریعہ انہی آہستہ اثر کرنے والا زہر ' دیاگیا انکی طبیعت بتدریج خراب ہو رہی تھی ' پتہ چلنے پر ان کا خانساماں بھاگ گیا ' اس نےاپنی تنخواہ بھی نہیں لی_اس کے بعد کافی عرصہ تک مجروح سلطان پوریروزانہ لتا کے گھر جا کرانکا کھا ناپہلے خود چکھتے ' پھر انہیں کھانے دیتے)
دلیپ کو اگر کہانی پسند آتی تو وہ اس فلم میں کام کرنے کے لئے حامی بھرتے _پیسہ انکے لئے اہم نہیں تھا 'جب پروڈیوسر کہتا تو ہ جواب دیتے 'پھر آپ نےبنیئے والی بات کی '
مکمل چہرہ
فریدون ایرانی صفحہ اّول کے فوٹوگرافر تھے اور محبوب کی ہر فلم ان کی مہارت کا ثبوت ہے_ایرانی نے کہا ' ہر چہرہ کا کوئی نہ کوئی زاویہ کمزور ہوتا ہے' پوری دنیا میں دلیپ جیسا مکّمل چہرہ شائید ہی کسی اور کا ہو '
دردناک واقعہ
وسط لندن میں دفترمیں لنچ کے وقت وکٹوریہ روڈ پر گزر رھا تھا 'دو لڑکوں سے ملاقات ہوئی ' بمبئی سے آئے تھے ' ائیر انڈیا میں کام کرتے تھے' بات چیت کے دوران ایک لڑکے نے اپنے ساتھی کے متعلق بتایا ' اس کے پتا جی فلموں میں کام کر تےتھے' پھر نوشاد حسین نے بتایا کہ اس کے والد جوّاد حسین ' گنگا جمنا ' میں اسسٹنٹ ڈائیریکٹر تھے' فلم کی شوٹنگ کے دوران
دلیپ کمار سے اچا نک بندوق چل گئی ' اصلی کارتوس تھا 'والد صاحب کی فوراً موت ہوگئی _ آگ کی طرح ہر جگہ خبر پھیل گئی 'شام کے سب اخباروں میں سرخی چھپی _ بہت تکلیف دہ واقعہ تھا ' میں چھوٹا تھا میری سمجھ میں زیادہ نہیں آ رہا تھا _ ہمیں اگر دلیپ صاحب کچھ پیسے دے دیتے تو ہم کوئی فلیٹ خرید لیتے مگر ہمیں کچھ نہیں ملا _(کافی عرصہ تک میری نوشاد کے ساتھ خط وکتابت رہی 'اسنے اپنی شادی کا کارڈ بھی بھیجا' سنی دیول خاص مہمان تھا 'پھر میرا اس سے رابطہ ختم ہو گیا)
(تعجب ہے کیونکہ دلیپ کو تو ہمیشہ رحمدل اور دردمند انسان سمجھا جاتا تھا)
میں نے یہ فلم دیکھی ہے جہاں بنگالی بولتے بولتے دلیپ ایک دم اردو بولنے لگتے ہیں _ اسی طرح دلیپ نے بہت لوگوں کو سہارا دیا_
فلم 'دل دیا 'درد لیا ' کی شوٹنگ ہو رہی تھی ' ایک میز پر دلیپ 'پروڈیوسر 'وحیدہ رحمان اور دیگر سینئر لوگ بیٹھے تھے ' نزدیک ہی دوسری میز پر بجلی 'کیمرہ 'میک اپ مین اور دوسرےلوگ
بیٹھے تھے 'دلیپ بھی ان کے ساتھ جا کر بیٹھ گئے 'کھاناکھایا گپ شپ لڑائی _انہوں نے حکم دیا کہ ان لوگوں کو بھی وہی کھانا دیا جائے جو ہم کو دیا جا رہا ہے

Ashfaq Ahmad
About the Author: Ashfaq Ahmad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.