قرار داد پاکستان کی ضرورت، اہمیت اور نظریہ پاکستان کی بقا

قیام پاکستان سے لے کر آج تک مسلسل دنیا کی دو مضبوط ایٹمی ممالک کے مابین کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ساتھ ہی جنگ کے خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کسی بھی ملک کی بقا کے لئے ضروری ہے کہ قیام امن کی ہر ممکن کوشش کی جائے تاکہ امن برقرار ہے اور اس کیلئے ضروری ہے کہ اس ملک کے حکمران اور عوام اس ملک کی سالمیت کے لئے سوچیں اور اس ملک کے قیام کے پیچھے قربانیوں اور مشکلات کو مد نظر رکھیں۔ اور پاک بھارت ممکنہ جنگ کے پیش نظر ہمارے لئے یہ جاننا اشد ضروری ہے کہ ہمارے آبا و اجداد نے ایک ایسے دور میں پاکستان حاصل کیا جب مسلمانوں کافی کمزور تھے اور مد مقابل ہندو نا صرف تعداد میں زیادہ تھے بلکہ ان کے ساتھ انگریزوں کا آشیر باد بھی تھا۔ ہمارے بزرگوں کی مدبرانہ صلاحیتوں کی بدولت 14 اگست 1947کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔جس کی بنیا د لاالہٰ اللّٰلہ محمدرسو ل اللّٰلہ پر رکھی گئی۔ کیونکہ اس کے پیچھے قائداعظم اور اس کی ٹیم کی انتہائی دانشمندی اور دو قومی نظریہ کی ترویج کا بہت زیادہ ہاتھ تھا۔یہ ملک قرار داد پاکستان کی کامیابی کی وجہ سے کرہ ارض پر نمودار ہوا، جو 23 مارچ 1940کو پیش کیا گے۔ اگر ہم قرار داد پاکستان کے مقاصد کا جائزہ لیں تو اس کیلئے ہمیں 1857 میں جانا پڑے گا۔جب مسلمان اور ہندوؤں کو انگریزوں سے آزادی ملی تو تب سے مسلمانوں کو اپنے لیے ایک الگ ملک کی ضرورت محسوس ہونے لگی اور آزادی کی تحریک پروان چڑھنے لگی۔ کیونکہ ہندوؤں اور انگریزوں نے آپس کی گٹ جوڑ سے مسلمانوں پر برصغیر پاک و ہند کی زمیں تنگ کردی۔ان کی عزتیں پامال ہونے لگیں ان کی جائیدادیں ضبط کی گئیں اور ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ غرض یہ سب اپنی ناکامیوں کا بدلہ تھا جو انگریز مسلمانوں سے لے رہے تھے اور ہندوؤں کو مہرہ بنا لیا تھا۔یہی وہ دور تھا جب سر سید احمد خان ایک مدبر رہنما کے طور پر سامنے آئے۔اور برصغیر کے مسلمانو ں کو آزادی کے اصل مفہوم سے روشناس کرایا۔ مسلمانوں کی اذیت ناک تکالیف کے سبب سر سید احمد خان نے دو قومی نظریہ کی بنیاد رکھی جس کی بنا پر سب کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ ہندو اور مسلمان دو مختلف قومیں ہیں ان کے اطوار،رہن سہن کے طریقے، رسم و رواج اور سب سے بڑھ کر مذاہب ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں اور ان کا آپس میں ایک ملک میں رہنا دونوں قوموں کے لئے مشکل ہے۔انہوں نے اس موقع پر بر صغیر کے مسلمانوں کو جنگ پر اکسانے کے بجائے اس بات پر زور دیا کہ مسلمان اپنی پوری توجہ صرف اور صرف تعلیم پر رکھیں کیونکہ سر سید کا موقف تھا کہ تعلیم ہی آزادی کی اصل سیڑھی ہے۔اس مقصد کو فروغ دینے کے لئے علی گڑھ کی تحریک چلائی گئی۔ سر سید احمد خان کی ان تھک محنت کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنی پوری توجہ حصول علم پر لگائی اور آگے چل کر ایک تعلیم یافتہ نسل سامنے آئی جس نے آغا خان سو ئم کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد 30 نومبر 1906 کو رکھی۔ ان میں ایک بہت بڑا نام علامہ اقبال کا بھی تھا۔ جو مسلمانوں کے حقوق کی جنگ میں نمایاں رہے۔ انہوں نے اپنی پرجوش شاعری کی بدولت مسلمانوں کو نہ صرف خواب غفلت سے جگانے میں بھرپور کردار ادا کیا بلکہ ان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور شعور پیدا کیا۔ان کی شاعری صرف مسلمانان پاک و ہند کے لئے نہ تھی بلکہ ہر دور کے مسلمانوں کے لئے تھی۔ علامہ اقبال نے صرف شاعری سے ہی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ کام کیا۔ 30 دسمبر 1930 کو اپنے خطبہ الہ آباد میں سر سید کے دو قومی نظریہ کی تائید کی اور مسلمانوں کے لئے ایک الگ مملکت کے قیام پر زور دیا. اس میں مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے پنجاب، سرحد اور بلوچستان کو یکجا کرنے پر زور دیا۔ یہی وہ مشن تھا جسے لے کر قائد اعظم آگے بڑھے اور بر صغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو یکجا کیا۔اسی کے نتیجے میں 23 مارچ 1940 کو قائد اعظم کی کوششوں کے نتیجے میں اے کے فضل حق کی سربراہی میں لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس میں سر سید اور علامہ اقبال کے دو قومی نظریہ کو پیش کیا گیا۔ اس قرار داد میں مندرجہ ذیل مقاصد کو مد نظر رکھا گیا کہ جغرافیائی لحاظ سے مسلمانوں کی ایسی الگ ریاست تشکیل دی جائے جہاں مسلمانوں کو مکمل خودمختاری مل سکے بشمول اقلیتوں کے اور ان کے حقوق کی پامالی نہ ہو سکے اور آخر کار یہ قرارداد منظور کر لی گئی۔اس قرار داد کو جہاں پذیرائی ملی وہیں مزاہمت کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر محمد علی جناح کی سر براہی میں مسلمانان پاک و ہند آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب بڑھتے گئے۔ سر سید،اقبال اور محمد علی جناح کے ساتھ ساتھ باقی رہنما اور مسلمانوں کی بھرپور کوششوں کے نتیجے میں ایک عظیم الشان مملکت مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی شکل میں وجود میں آئی۔ اگرچہ کہ یہ سفر بہت زیادہ خون آلود اور تکالیف سے پر تھا مگر انجام کو دیکھ کر مسلمان اپنی تکالیف کو بھلا بیٹھے۔ 23 مارچ 1940 کی یاد میں اس دن کو یوم پاکستان کے نام سے منایا جانے لگا۔ اور اس تاریخی قرارداد کو قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا۔

مگر المیہ یہ ہے کہ1971 میں ہی ہم نے اپنی نادانیوں کے باعث اپنے شریر کا ایک حصہ مشرقی پاکستان گنوا دیا اور نظریہ پاکستان جس کی بنا پر یہ ملک وجود میں آیا تھا اسے بہت بڑا دھچکہ لگا۔ 1971 کے سانحے کے بعد بھی ہم سبق نہیں سیکھ پائے اور اس نظریہ کو عصبیت کی نظر کردیا جہاں پہلے صرف مسلمان بستے تھے وہاں اب پہلے پنجابی، سندھی، پٹھان، مہاجر، بلوچ اور سرائیکی بستے ہیں اور بعد میں مسلمان۔ نظریہ پاکستان کی ضرورت جتنی پہلے تھی اب اور بھی شدت سے اس کی ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے۔ کیونکہ آج اگر ہم پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں نظریہ پاکستان کی روح کو سمجھنا پڑے گا اور اس کی بقا کے لئے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی پڑے گی۔ ورنہ بزرگوں کی دی گئی قربانیاں رائیگاں جانے کا خدشہ ہے کیونکہ پاکستان مخالف قوتیں پوری کوشش سے پاکستان کو صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہیں۔ وہ کہیں فرقہ واریت کو فروغ دے رہی ہیں، کہیں عصبیت اور نسل کشی کی بنیاد ڈال رہی ہیں۔ اور ہم ان کے گھن چکر میں پھنستے جا رہے ہیں۔ ہمیں جاگنا ہوگا اور پاکستان مخالف قوتوں کو پامال کرنا ہوگا۔اس مقصد کے لئے نہ صرف انفرادی طور پر کوشش کرنا ہوگا،بلکہ حکومتی سطح پر بھی ایسے اقدامات کرنے ہونگے جس سے پاکستان کو مزید نقصان سے بچایا جا سکے۔ جیسا کہ وفاق کی اولین ذمہ داری ہے کہ صوبوں کے بنیادی حقوق کو پس پشت نہ ڈالے ورنہ ایسا نہ ہو کہ پاکستان مخالف قوتیں کامیاب ہوں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں۔اس لئے اس امر کی انتہائی ضرورت ہے کہ قائد اعظم کے چودہ نقات کی پاسداری کی جائے۔ تمام صوبوں کو مساوی سطح پر خود مختاری دی جائے اور صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان میں دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات ہوں تب کہیں جاکر پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا
 

Dr Rahat Jabeen
About the Author: Dr Rahat Jabeen Read More Articles by Dr Rahat Jabeen: 22 Articles with 15203 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.