سیالکوٹ موٹر وے واقعہ اور اینٹی ریپ آرڈیننس

چند ماہ سے ملک میں خواتین اور کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں تشویشناک حد تک اضافہ ہونے پر وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ اور وزارت قانون کو خواتین اور بچوں سے زیادتی کے واقعات کی روک تھام کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کا حکم دینے کے ساتھ ہدایت کی تھی کہ ایسے واقعات کے مرتکب مجرموں کی سزائیں بڑھانے کیلئے موثر قانون سازی کے ساتھ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے اس طرح کے واقعات کے مجرم نشان عبرت بن سکیں، ذرائع کے مطابق سابقہ دور حکومت 2017 میں بھی زیادتی کے ملزموں کو سزائیں بڑھانے کیلئے اس وقت کی وفاقی کابینہ نے تحرک کیا تھا مگر نادیدہ دباؤ کے تحت معاملہ التواء میں پڑ گیا۔ کپتان کے اس بابت حکم پر بھی عملدرآمد سست روی کا شکار تھا کہ سیالکوٹ واقعہ نے حکومت اور پوری قوم کو چونکا کر رکھ دیا، اس افسوسناک واقعہ میں ملزمان نے اپنی گاڑی میں لاہور سے گجرانوالہ سفر کرنے والی خاتون کو سیالکوٹ کے قریب موٹر وے پر اس وقت زیادتی کا نشانہ بنا دیا تھا جب خاتون گاڑی خراب ہونے کی صورت میں مدد کیلئے پولیس کے آنے کی منتظر تھی، یہ واقعہ کئی ہفتہ تک ملکی و غیر ملکی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہا۔

ایک غیر سرکاری رپورٹ جو اخبارات پر شائع ہونے والی خبروں سے مرتب کی گئی کے مطابق یکم جنوری 2016 سے اب تک چاروں صوبوں بشمول وفاقی دار الحکومت کے تقریبا ساڑھے 18 ہزار کے لگ بھگ ملک میں زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 11 ہزار کے لگ بھگ واقعات خواتین اور بچیوں کے ساتھ پیش آئے جبکہ ساڑھے سات ہزار کے قریب واقعات میں لڑکوں اور کم سن بچیوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنایا گیا، ان میں لا تعداد ایسے واقعات جن میں زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین اور بچوں کو ویڈیو بنا کر انہیں بلیک کر کے کئی کئی ماہ تک زیادتی کا نشانہ بنانے کے المناک واقعات بھی شامل ہیں۔ قصور، کراچی، گجرانوالہ، سرگودھا، لاہور سمیت کئی شہروں سے ایسے گروہ اور ملزم بھی پکڑے گئے جو کم سن بچوں اور بچیوں کی فحش ویڈیو (چائلڈ پورنوگرافی) بنا کر بیرون ملک بدنام زمانہ ڈارک ویب کو فراہم کرتے تھے اور اس کے عوض ڈارک ویب ان کو بھاری معاوضہ ادا کرتا تھا، ڈارک ویب چائلڈ پورنوگرافی (فحش ویڈیو) دنیا بھر میں ایسے لوگوں کو فراہم کرتا ہے جو عریاں ویڈیو دیکھ کر جنسی تسکین پوری کرتے ہیں۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی انسداد ریپ آرڈیننس کی تو سیالکوٹ واقعہ پر قوم اور ذرائع ابلاغ کے رد عمل نے حکومت اور حکمرانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا، جس کے بعد زیادتی کے واقعات کے ملزموں کو کڑی سزائیں دینے کیلئے ملک میں انسداد ریپ آرڈیننس پر تیزی سے کام ہوا، 25 نومبر کو وفاقی وزیر قانون و انصاف فروغ نسیم کی زیر صدارت اجلاس میں وفاقی کابینہ نے انسداد ریپ آرڈیننس کی منظوری دی، 26 نومبر کو اسمبلی کی کمیٹی برائے قانون سازی نے اس آرڈیننس کی منظوری دے کر حتمی منظوری کیلئے ایوان صدر بھجوا دیا، صدر مملکت عارف علوی نے بھی انسداد زیادتی (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020 کی منظوری دے دی جس کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت سے صدر پاکستان ملک بھر میں زیادتی کے مقدمات کی سماعت کیلئے سیشن ججز یا ایڈیشنل سیشن ججز پر مشتمل سپیشل عدالتیں قائم کی جائیں گی۔ یہ عدالتیں چار ماہ میں زیادتی کے ملزموں کی سزا جزا کا تعین کر کے زیادتی کے مقدمات کا فیصلہ کریں گی۔ مجرم کو سزا کیخلاف ہائیکورٹ میں اپیل کا حق ہو گا، وزیر اعظم انسداد ریپ کرائسز سیل قائم کریں گے، اطلاع ملنے کے 6 گھنٹے کے اندر متعلقہ تھانہ کی پولیس زیادتی کا شکار متاثرہ کا طبی معائنہ کرا کر رپورٹ حاصل کرے گی، اس ضمن میں سرکاری ہسپتالوں میں مناسب طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ زیادتی کے واقعہ کا طبی معائنہ ہسپتال ہذا کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی نگرانی میں ہو گا، نادرا ملکی سطح پر زیادتی کے مقدمات اور مجرموں کا ڈیٹا مرتب کرے گا، ایسے مقدمات کی تفتیش میں کوئی کوتاہی برتنے والے پولیس آفیسر کو تین سال تک قید اور جرمانہ کی سزا دی جا سکے گی، اس بابت حکام بالا کو غلط رپورٹنگ کرنے والے افسران و اہلکار بھی سزا کے مستحق ہونگے، اس آرڈیننس کو پارلیمانی سیکرٹری قانون ملائکہ بخاری، سیکرٹری قانون راجہ نعیم اکبر، بیرسٹر امبرین نے حتمی شکل دی، جسے بین الاقوامی معیار کے مطابق قرار دیا جا رہا ہے۔ انسداد ریپ آرڈیننس کے قانون کے متن سے زیادتی کے مجرموں کو نامرد بنانے سے پہلے ان سے اجازت لینے کی شرط حتمی مسودے سے ختم کر دی گئی ہے، اس ضمن میں بورڈ تشکیل دیا جائے گا جو فیصلہ کرے گا کہ ملزم کو کیمیکل کے ذریعہ نامرد بنانا ہے یا ادویات سے؟ مجرم کو نامرد بنانے کا فیصلہ اس کے فعل اور دیگر عوامل سے مشروط ہو گا، ملک کے تمام صوبے وفاق کو فنڈ دینے کے ساتھ قومی، بین الاقوامی ادارے اور شخصیات سے بھی اس بابت مالی امداد لی جائے گی۔ اس سلسلہ میں قائم کردہ انسداد زیادتی سیل ہونے والے واقعات کی ایف آئی آر کا اندراج یقینی بنائے گا۔ جبکہ اس نوعیت کے مقدمات کی تفتیش کیلئے جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی جس کا سربراہ ضلعی سطح کا افسر (ڈی پی او یا ایس ایس پی) ہو گا، جبکہ ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او جے آئی ٹی کے ممبر متعلقہ علاقے سے ہونگے، بصورت دیگر صوبہ کا انسپکٹر جنرل پولیس دیگر علاقوں سے جے آئی ٹی کے افسر تعینات کرنے کے مجاز ہونگے، جو متاثرہ کا میڈیکل کرانے کے ساتھ مقدمہ بابت ہر طرح کی شہادتیں مثلا فرانزک تجزیہ، میڈیکولیگل، وقوعہ کے حالات و واقعات جو مقدمہ کیلئے فائدہ مند ہوں اکٹھا کر کے استغاثہ کا حصہ بنائے گا۔ تفتیش کے مراحل مکمل ہونے کے بعد جے آئی ٹی پراسیکیوٹر کے ذریعے استغاثہ عدالت میں پیش کرے گی، جبکہ زیادتی کے مقدمات کی نگرانی ضلع کا ڈپٹی کمشنر اور ڈویژن کا کمشنر کرے گا، انسداد ریپ کرائسز سیل کا ایک ممبر ان کے ہمراہ ہو گا۔ سو ملک میں انسداد ریپ آرڈیننس 2020ء صدر مملکت عارف علوی نے پاس کر دیا ہے، جو 2017ء سے التواء کا شکار تھا، اس آرڈیننس کے پاس ہونے کے بعد اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم اور کابینہ کے ارکان ذاتی دلچسپی لے کر اس آرڈیننس پر عملدرآمد کیلئے جلد اقدامات کروائیں، تا کہ اس آرڈیننس کے نفاذ سے زیادتی کے ملزموں کو کڑی سزائیں ملیں گی تو آئندہ سیالکوٹ موٹر وے زیادتی کیس یا ننھی زینب زیادتی و قتل کیسز جیسے واقعات کی روک تھام ہو سکے گی۔
 

Akram Amir
About the Author: Akram Amir Read More Articles by Akram Amir: 50 Articles with 30664 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.