وکلاء سیاست میں جعلی ڈگری کی بازگشت

تحریر:شاہدنوشاہی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
2007ء عدلیہ آزادی تحریک جس میں وکلاء برادری نے سیاستدانوں،کاروباری طبقے،صحافی برادری کے ساتھ دیگر تمام عوامی حلقوں کی بھرپورحمائت حاصل کرنے کے بعد تحریک میں نہ صرف جان ڈالی بلکہ کامیابی کے جھنڈے گارڈدیئے اسے دیکھ کرایسا لگتا تھا کہ پاکستانی عدلیہ اور عوام کے درمیان ایسا اتحادواتفاق قائم ہونے جا رہا ہے جوملک میں روشن خیالی کی لہر بن کر ابھرے گا یہی نہیں عدلیہ کو بھی عدلیہ آزادی تحریک کی کامیابی کے بعد تاریخ کا ایسا سنہری موقع تھا کہ وہ اپنی ہیئت میں بنیادی تبدیلی کی مدد سے بتدریج ارتقائی عمل میں داخل کر سکتی تھی یہ سنہرا تصور وکلاء تحریک کی بنیادوں میں جڑا ہوا تھا اس تحریک نے مشرف کی حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا اس کے بعد صدر زرداری کو بھی وکلاء سے اسی طرح کے چیلنجزکاسامنا کرناپڑا اس تحریک کامغربی میڈیا میں بھی خوب چرچارہا۔اہل فکرحلقے سمجھ بیٹھے کہ وکلاء تحریک پاکستان میں ایک نئے دور کی ابتدا میں ایک سنگ میل ثابت ہوگی۔وکلاء نے ہمیشہ ملکی سلامتی،خوشحالی کومدنظررکھااورہردورمیں جمہوری اقدارکے فروغ کیلئے قوم کی رہنمائی اورجدوجہدکی ہے پرکبھی ایسانہیں ہواکہ۔وکلاء نے ہمیشہ ملک دشمن مافیاکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کی ہے خواہ وہ کسی بھی عہدے یاادارے کاحصہ ہو۔2007ء کی عدلیہ آزادی تحریک سے قبل حکومتیں بنانے چلانے اورگرانے والوں نے کبھی وکلاء کواس قدر سنجیدہ طاقت نہیں سمجھاتھاجوروپ عدلیہ آزادی تحریک میں سامنے آئی اورایک غیرجمہوری حکمران کوتاریخ میں پہلی باروکلاء کی جانب سے سخت ردعمل کاسامناکرناپڑا۔عدلیہ آزادی تحریک کی کامیابی نے ملک کے اقتدارپر قابض اشرفیہ اور مخصوص طبقے کویہ سوچنے پرمجبورکردیاکہ پاکستان ،ملکی آئین وقانون کی بانی اعلیٰ تعلیم یافتہ وکلاء برداری اتفاق واتحادسے کسی بھی محکمے یا کسی بھی ادارے کو راے راست دیکھا سکتی ہے اس طرح اشرفیہ کی حکمرانی کاتسلسل جلدٹوٹ سکتاتھا لہٰذ کسی بھی صورت اقتداراپنے ہاتھ میں رکھنے والوں نے وکلاء سیاست پرقبضہ کے منصوبے کے تحت بڑے پیمانے پرجعلی ڈگری ہولڈر وکیلوں کومخصوص دھڑے کی جانب سے پرموٹ کیا ۔ آج حال یہ ہے کہ اس دھڑے کی جانب سے آج تک جیتنے والے کئی سابق عہدیدار جعلی وکیل نکلے اس بار پنجاب بار کے الیکشن میں 95 کے قریب امیدواروں نے حصہ لیا ۔میڈیم گلزاربٹ ایڈووکیٹ کے دعویٰ پرہائی کورٹ کے چیف جسٹس لاہورجسٹس محمدقاسم خان نے نوٹس لیتے ہوے جب امیدواروں کی ڈگری کی تصدیق کا حکم دیا تو پندرہ امید وار جعلی وکیل نکلے جن میں سے زیادہ ترماضی میں بارکے کسی نہ کسی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ اسی طرح چالیس ہزار کے قریب پنجاب بار کی ووٹر لسٹ میں ، فوت شدگان ، جعلی وکیل ، پروکسی ووٹ شامل ہیں جسے مافیا استعمال کر تاہے اور ہر الیکشن میں اپنے امید وار جتواتا اور پھر ان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے ، ہم زیادہ دور نہیں جاتے پی ائی سی کا واقع ہی دیکھ لیتے ہیں کس طرح پوری پلانیگ کے ساتھ یہ واقع وکلاء کو بد نام کر نے کے لیا کروایا گیا اور ساری دنیا جان چکی ہے کہ کن لوگوں کواس سے فائدہ ہوا اور وکلاء برادری کا کیا نقصان ہوا، اس طرح کے بے شمار واقعات کروا کے آج ہمیں وکلاء گردی کے لقب سے نواز دیا گیا ہے۔اب وکلاء برادری کا مسئلہ کیا ہے ہم کس طرح اس سے چھٹکارہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ وکلاء کی اپنی ایک ہسٹری ہے اپنی روایات ہیں ہم اس خطے میں سب سے زیادہ جمہوری طریقے سے چلتے ہیں تیسری دنیا کے پاکستان جیسے ملک میں جمہوریت نہیں چلتی لیکن وکلاء نے منظم طریقے سے آج تک خود کو جمہوری رکھا ہے ہمارے ہاں ہرسال چار الیکشن ہوتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ الیکشن کروانے کاطریقہ، ووٹر لسٹوں کے ریکارڈاپ ڈیٹ کرنے کا طریقہ پرانا ہو گیا ہے ہمیں ضرورت تھی وقت کے ساتھ ساتھ الیکشن کا طریقہ تبدیل کرتے ۔اب ہمیں سب سے پہلے جعلی وکلاء کی چھانٹی کرنی ہے جس کی شروعات اس پنجاب بارکے الیکشن میں لاہور سے کامیاب ہونے والے دو جعلی وکلاء کالائسنس منسوخ کر کے ہو چکی ہے ۔مزید ہمیں ووٹرلسٹوں میں سے آج تک کے تمام فوت شدگان کا ووٹ ختم کر دینا چاہیے پروکسی ووٹ ختم کر دینا چاہے ۔اس مرتبہ لاہور میں 25000کی ووٹر لسٹ میں سے صرف چھ ہزار ووٹ کاسٹ ہوے باقی تمام گھوسٹ ووٹ تھے ۔ چھانٹی کے بعد ریکارڑ تمام محکموں کے پاس ہونا چاہے تاکہ چھانٹی کاسلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔وکلاء پروفیشن کا سب بڑا دشمن جعلی وکیل ہے جس کی مدد سے اس پیشے پر اتنے داغ لگ چکے ہیں اورلگاتار لگ رہے ہیں کہ اس کا قد دن بدن چھوٹا ہوتا جا رہا ہے ۔ساتھ اس بات کا ذکر کر نا بھی ضروری ہے کہ یہ مافیا نوجوان وکلاء کوپروفیشن میں آتے ہی الیکشن کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے جس سے اُن کی زندگی کے کئی سال ضائع ہو جاتے ہیں ایک سیشن جج ریٹائر ہونے والا ہوتا ہے تب بھی اس کی ٹرینگ کے لیے کلاسز ہو رہی ہوتی ہیں لیکن وکلاء مافیا جو آج تک وکلاء بار کے نظام پر قابض ہے انہوں نے نوجوان وکلاء کو پڑھانے،سیکھانے کی بجائے جیتے گابھی جیتے گا ،تیری جت شالاکے نعرے لگانے میں مصروف کرکے نظام عدل کاجنازہ نکال دیاہے ۔بارکے نظام میں نوجوان وکلاء کی تربیت کااہتمام کیاجاتاتومافیاکسی صورت وکلاء کواستعمال نہ کرپاتااورکبھی جعلی ڈگری وکیل نظام پرقابض نہ ہوپاتے ۔آج بھی نوجوان وکلاء کی حوصلہ شکنی کاسلسلہ جاری وساری ہے۔وکلاء برادری اپنی ساکھ بحال اوربرقراررکھنے کیلئے فوری طورپرنوجوان وکلاء کی حوصلہ افزائی کے ساتھ تربیت کابہترین نظام رائج کرے تاکہ آنے والے دورمیں مافیاکسی وکیل کواستعمال کرسکے اورنہ ہی کوئی جعلی وکیل ہماری صفوں میں خودکش حملہ آورکی صورت داخل ہونے کی جرات کرے
 

Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 514082 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.