یومِ خواندگی: کراچی یونیورسٹی کی شٹل سروس اور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خوف

image
 
1200ایکڑ پر محیط کراچی کی سب سے بڑی یونیورسٹی ”جامعہ کراچی“ میں تقریباً 50 ہزار طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ آج چونکہ عالمی یوم خواندگی دنیابھر میں منایا جارہاہے، اس لئے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ لوگوں کو خواندہ بنانے والی اور تعلیم فراہم کرنے والی کراچی کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے مسائل کیا ہیں، اس بارے میں بات کی جائے۔
 

کراچی یونیورسٹی میں اتنی بڑی تعداد میں طلبہ پڑھائے کرنے کی غرض سے جاتے ہیں اور خود کو خواندہ بناکر معاشرے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر کراچی یونیورسٹی کے طلبہ سے پوچھاجائے کہ انہیں یونیورسٹی کا سب سے اہم مسئلہ کیا لگتا ہے۔ ان میں سے اکثر طلبہ کا کہنا یہی ہے کہ انہیں آنے جانے میں مسائل کا سامناکرنا پڑتاہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں دوردراز کے علاقوں سے بھی طلبہ کی بڑی تعداد پڑھنے کی غرض سے آتی ہے۔ جب کراچی میں سی این جی کی ہڑتال ہوتی ہے یا بارش وغیرہ ہوتی ہے تو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ انہیں درپیش ہوجاتاہے۔ انہیں گھر جانے کیلئے گھنٹوں بس اسٹاپ پر کھڑا رہناپڑتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ کی بڑی تعداد پھر یونیورسٹی کے ہی پوائنٹس اور شٹل سروس سے آنا جانا پسند کرتی ہے۔ تاکہ انہیں گھنٹوں بس اسٹاپ پر نہ کھڑارہناپڑے اور وہ جلدی اپنے گھر پہنچ جائیں۔

 
انٹرنیٹ پر دستیاب 2017کے اعداد وشمار کے مطابق جامعہ کراچی میں 27 بسیں شٹل سروس کے طور پر چل رہی ہیں، جوکہ یقیناً 50 ہزار طلبہ والی جامعہ کیلئے ناکافی ہیں۔شٹل سروس میں بسیں کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے طلبہ کو مجبوراً ان ہی بسوں میں گھس کر سفر کرنا پڑتاہے۔ کئی بسوں میں تو طلبہ کی اتنی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے کہ بس ایک جانب جھک جاتی ہے اور ڈر رہتاہے کہ کہیں ان سے طلبہ نیچے کی جانب نہ گرِ جائیں یا پھر بس ہی کہیں کسی حادثے کا شکار نہ ہوجائے۔ جامعہ کراچی میں آپ کو خراب بسیں بھی موجود نظر آئیں گی، اگر ان بسوں کی مرمت کرکے انہیں بھی شٹل سروس میں شامل کرلیا جائے تو طلبہ کیلئے آسانی ہوسکتی ہے۔
 
image
 
ایک طرف توملکی خواندگی کو بڑھانے کی بات ہوتی ہے تو دوسری طرف خواندہ بننے کے خواہشمند طلبہ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے ہوتے۔ ایسے میں طلبہ دلبرداشتہ ہوکر گھر بیٹھ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن تعلیمی اداروں میں طلبہ داخلہ لینے سے گھبرانے اور کترانے لگتے ہیں۔ اس مسئلے کو دیکھتے ہوئے ملکی خواندگی کو بڑھانے کے خواہشمند عہدیداران کو جامعہ کراچی کے شٹل سروس میں موجود بسوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔
 
اب چونکہ وفاقی وزارت تعلیم کی طرف سے یہ اعلان سامنے آگیا ہے کہ 15ستمبر سے ملکی جامعات کو کھول دیاجائے گا اور یہاں پڑھائی کا عمل بھی شروع ہوجائے گا۔ چونکہ پاکستان میں اب بھی کورونا وائرس موجود ہے، اس لئے وزارت تعلیم نے چند احکامات بھی جاری کئے ہیں اور ان ایس او پیز پر عمل کروانے کیلئے جامعات کو کہا بھی ہے۔ لیکن اب یہ سوال ذہن میں آتاہے کہ اتنی بڑی تعداد میں جب طلبہ لٹک کر جامعہ کی شٹل سروس میں سفر کرتے ہیں تو کیا پھر ایس او پیز پر عمل کیا جاسکے گا؟ یقیناً یہ ناممکن ہوگا کہ بس میں سفر کرتے ہوئے ہر طالب علم کے درمیان 3فٹ کا فاصلہ ہو، ہر طالب علم سینیٹائزر کا استعمال بھی کررہاہو۔ چونکہ طلبہ گُھس کر بڑی تعداد میں ایک بس میں سفر کریں گے تو ایس او پیز کی خلاف ورزی ضرور ہوگی، اس مسئلے کے حل کیلئے جامعہ کراچی کو یونیورسٹی کھلنے سے پہلے ہی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ طلبہ میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکا جاسکے اوروہ صحت مند رہ کر یونیورسٹی آناجانا کرسکیں۔
 
واضح رہے کہ پہلے ہی 120خواندہ ممالک کی فہرست میں پاکستان نمبر 113پر ہے۔ ملک کی صرف 59.13فیصد آبادی خواندہ ہے۔ ایسے میں طلبہ کے اس طرح کے مسائل کو حل نہ کیا گیا تو آنے والے وقتوں میں ہائیر ایجوکیشن حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد مزید کم ہوتی جائے گی۔
 
YOU MAY ALSO LIKE: