اسامہ ایک شخص نہیں نظریے کا نام ہے

تحریر : محمداسلم لودھی

ایبٹ آباد آپریشن امریکی ڈرامہ تھا یا کچھ اور ۔ اس کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں لیکن سب سے تکلیف دہ بات امریکہ کا و ہ توہین آمیز رویہ ہے جو اس نے ایک دوست کے روپ میں ہمارے خلاف شروع کر رکھا ہے دوست تو وہ ہوتا ہے جو ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دے وہ دوست نہیں ہوتا ہے مشکل بھی خود ہی پیدا کرے پھر اس کا حساب بھی نہایت بے رحمی سے لے کچھ یہی صورت حال اس وقت پاکستان اور امریکی دوستی سامنے آرہی ہے ۔ ایک جانب امریکہ نے پاکستان کی خودمختاری پر حملہ کیا ہے تو دوسری جانب ایک لمبا چوڑا سوالنامہ پاکستانی حکمرانوں کو یہ کہتے ہوئے تھما دیا ہے کہ ان سوالوں کا جواب دو ۔

اس میں شک نہیں کہ پاکستانی حکمرانوں کی حیثیت محض امریکی کٹھ پتلیوں کی ہے کیونکہ ان کی قیمت صرف امریکی ڈالر ہیں وہ چاہیں پاکستانی قوم کو فروخت کر کے ملیں یا ان پر میزائل باری کروا کے ۔ ان مشکل ترین حالات میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت میں پاک فوج اور اس کے ذیلی ادارے آئی ایس آئی کا کردار مثبت ٬ موثر ٬جاندار اور قومی تقاضوں کے عین مطابق رہا ہے ۔ اگر اب تک ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں تو سائنس دانوں کے ساتھ ساتھ فوج کی تحفظانہ کاوشیں بھی ہمیشہ لائق تحسین رہی ہیں ۔وگرنہ حریص اور نااہل سیاست دانوں کی وجہ سے قومی عزت و ناموس کے ساتھ ساتھ ایٹمی اثاثے کب کے داﺅ پر لگ چکے ہوتے ۔پاکستانی سائنس دان خدا کے فضل و کرم سے اس قدر اہل ہیں کہ وہ جدید ترین ریڈار سسٹم بھی تیار کرسکتے ہیں ۔اگر وہ سیاچن میں منفی 50 ڈگری پر لاہور کا ٹمریچر فراہم کرنے والے خیمے بنا سکتے ہیں تو ایسی لیزر شعائیں بھی دریافت کرسکتے ہیں جن سے پاکستانی سرحدوں کو عبور کرنے والے جنگی جہاز یا میزائل ریزہ ریزہ ہوجائیں ۔ یہ سب کچھ ممکن ہے اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان سمیت پاکستانی سائنس دانوں کا اعتماد بحال کرتے ہوئے انہیں دفاع وطن کے لیے تحقیق کرنے کے لیے سہولتیں فراہم کی جائے ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اللہ تعالیٰ نے بہت اہلیت سے نوازا ہے اسی ڈاکٹر ثمر مبارک مند جیسے سائنس دان پاکستانی قوم کا عظیم سرمایہ ہیں لیکن ان کی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ۔

اسامہ کی شہادت کے پس منظر میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ سامنے آجائے گا لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جس عالمی سپرطاقت کے خلاف بات کرتے ہوئے بھی پاکستانی حکمرانوں کی ٹانگیں کانپتیں ہیں اور ان کے سامنے سر اٹھا کر بات کرنا بھی مسئلہ بن چکا ہے اسا مہ اسی امریکی جبرو استبداد٬ ظلم و زیادتی اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت بن کر ہمیشہ امریکہ کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہوا تھا اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اسامہ کسی ایک شخص کا نام نہیں تھا بلکہ وہ ایک سوچ اور نظریے کا نام بن چکا ہے جو امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ایک نہتے انسان کو اسلحی برتری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے شہید کردیا پھر انتہائی ذلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی میت کو سمند ر میں غرق کر کے اس سے چھٹکارا حاصل کرلیں گے ۔ حقیقت اس کے برعکس ہے پہلے اسامہ کی کوئی شخص بات نہیں کرتا تھا بلکہ امریکی موقف کو ہی لوگ ٹھیک تصور کرتے تھے لیکن شہادت کے بعد اسامہ ایک تحریک اور سوچ بن کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں( حکمرانوں کو چھوڑ کر ) کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگیا ہے ۔میری اس بات کا ثبوت لندن ٬ امریکہ جرمنی ٬ فرانس ٬ مصر ٬ شام ٬ لبنان ٬ انڈونیشیا٬ پاکستان٬ بنگلہ دیش ٬افغانستان٬ مقبوضہ کشمیر میں اسامہ کی ادا کی جانے والی غائبانہ نماز جنازہ اور احتجاجی جلوس ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اوبامہ کو تو شاید دنیا بھول جائے لیکن اسامہ کو بھولایا نہیں جاسکتا کیونکہ اس نے ایک ایسے مغرور٬ بددیانت٬ بے انصاف اور جبرو استبداد ملک امریکہ کے خلاف عملی طور پر جنگ کا آغاز کیا تھا اور یہ جنگ اسامہ کی موت سے ختم نہیں ہوئی بلکہ شروع ہوئی ہے ۔ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ مزاحمتی تحریکیں شخصیات کی محتاج نہیں ہوتیں بلکہ مزاحمتی سوچ ایسی تحریکوں کو زندگی اور روانی عطا کرتی ہیں ۔

امریکی سفیر کیمرون منٹر وائسرائے کی زبان استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے پاکستان کو ہر صورت بتانا ہوگا کہ اسامہ پانچ سال سے ایبٹ آباد میں کیا کررہا تھا لیکن امریکہ سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو تباہ کرنے والے امریکہ میں اتنا عرصہ کیسے چھپے رہے اگر پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی ناکامی کا ڈھونڈورا پوری دنیا میں پیٹ کر یہ پاکستان کو نااہل اور غیر ذمہ دار ملک کے طور پر بدنام کیا جارہا ہے تو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے ( جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ زمین کی تہہ میں رینگنے والے کیڑے بھی اپنے اواکس طیاروں کی مدد سے دیکھ سکتے ہیں ) بھی کامیاب قرار نہیں پاتی ۔ وہ مسلمان حکمرانوں کے تختے تو الٹنا جانتی ہے لیکن مسلمانوں کو غلام بنانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوگی ۔ تمام تر کوشش کے باوجود ایران میں ابھی تک سی آئی اے کامیاب نہیں ہوسکی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے حکمران امریکی پٹھو نہیں ایرانی عوام کے حقیقی نمائندے ہیں ۔

لیکن امریکی سفیر کا یہ توہین آمیز لہجہ اس تعصب ٬ عناد اور خباثت کی گواہی دے رہا ہے جو امریکہ پاکستان کے بارے میں اپنے دل میں رکھتا ہے لیکن پاکستانی حکمران اسے اپنا حقیقی دوست تصور کرتے ہیں ۔ جغرافیائی سرحدوں اور خود مختار ی کو پامال کرتے ہوئے امریکہ نے ایبٹ آباد پر یلغار کی جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین بلکہ پاکستان کی خود مختاری پر کھلا حملہ ہے۔

درحقیقت اس امریکی جارحیت کے تین مقاصد تھے پاک فوج کو ناکام ثابت کر کے پاکستانی قوم کی نظر میں گرانا ٬ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو نقصان پہنچانا اور اسامہ کی موت کا بہانہ بنا کر یہ ثابت کرنا کہ جتنے بھی دہشت گرد امریکہ کو مطلوب ہیں وہ سب پاکستان میں موجود ہیں ۔اب تک کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ اپنے مقاصد میں کامیاب جارہا ہے ۔ اس کے باوجود ہمیں ایک طرف امریکی جارحانہ کاروائیوں اور پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینا پڑے گا تو دوسری جانب سیکورٹی معاملات میں جو کوتاہی سرزد ہوئی ہے اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے اس کا بروقت ازالہ کرنا پڑے گا ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس لیڈر شپ نہیں ہے صدر کے روپ میں آصف علی زرداری سب سے بڑے امریکی پٹھو ثابت ہورہے ہیں جبکہ وزیر اعظم خود مختاری پر امریکی حملے کی مزاحمت کرنے کی بجائے اسے دنیا کی عظیم فتح قرار دے رہے ہیں ۔آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا جواب کسی قدر بہتر ہے لیکن عوام کے ذہنوں میں ابھرنے والے شک و شبہات پھر بھی دور نہیں ہو پارہے ۔

یہ درست ہے کہ پاکستا ن کے پاس نہ تو سٹیلتھ ٹیکنالوجی ہے نہ امریکی اواکس کی طرح جدید ریڈار سسٹم۔ دفاعی اعتبار سے بھی ہم اس کے ہم پلہ نہیں ہیں لیکن پاک فوج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے جو نتائج اور خطرات سے بے نیاز ہوکر وطن عزیز کا گزشتہ 63سے دفاع کرتی چلی آرہی ہے ۔ زمانہ جنگ ہو ٬ سیلاب کی تباہ کاری ہو ٬یا قیامت خیز زلزلے پاک فوج ہمیشہ اپنے ہم وطنوں کے تحفظ کے لیے جانی و مالی قربانیاں پیش کرتی رہی ہے ۔اگر کمی ہے تو جدید ریڈار سسٹم اور دفاعی ٹیکنالوجی کی ۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں دوست ملک چین اور اپنے سائنس دانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا تاکہ مستقبل میں ایسی توہین آمیز کاروائیوں سے بچا جا سکے۔کیونکہ امریکہ ملاعمر اور ایمن الظواہری کی تلاش کا بہانہ بنا کر ایبٹ آباد جیسی مزید کاروائیاں کرنے کی دھمکی دے رہا ہے گویا کراچی اور کوئٹہ پر بھی کسی وقت امریکی یلغار ہوسکتی ہے ۔ ایک طرف ہمیں امریکی جارحیت کا سامنا ہے تو دوسری طرف بھارت بھی سرجیکل سٹرائیک کرنے کا ارادہ ظاہر کرچکا ہے بلکہ راجستھان کی طرف بھارتی فوج اور فضائیہ کی جنگی مشقیں اور سرحدوں پر تعیناتی اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتی ہیں ۔یہ وقت پاک فوج اور اس کے دیگر اداروں پر تنقید اور نشتر زنی کرنے کا ہرگز نہیں ہے کیونکہ نہ صرف فوج ہی اس ملک کی سلامتی اور جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے بلکہ اندرونی اور بیرونی سازشوں کا مقابلہ کرنا بھی فوج ہی کا م ہے ۔سیاسی حکمران تو صرف پیسے بٹورنے ٬رنگ رلیاں منانے ٬ وزارتوں اور مشاورتوں کو اپنے چہتوں میں تقسیم کرنے کے لیے اقتدار میں آئے ہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ عوام مسائل کا شکار ہوکر خود کشیاں کریں یا وطن عزیز پر کوئی فوجی یلغار کر کے اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچا دے ۔ اگر خدا نخواستہ ہم نے غیروں کے بہکاوے میں آکر اپنی فوج کو بددل کردیا تو امریکہ اور بھارت پہلے ہی ہمارے ایٹمی اثاثے تباہ کرنے اور ہماری آزادی اور خود مختاری کوختم کرنے کے درپے ہیں ۔ یہ ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ سوائے چین اور ایران کے دنیا کا کوئی ملک پاکستان کی کھل کر حمایت نہیں کررہا وہ افغانی صدر کرزئی جس کی ناز برداری کے لیے پاکستانی صدر اور وزیر اعظم ہمیشہ پیش پیش رہے ہیں وہ پاکستان کے خلاف امریکہ کو مزید سخت رویہ اختیار کرنے کا مشورہ دے کر ہمارے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں ۔ یہ بات آج کی نہیں بلکہ کٹھ پتلی افغان حکومت کی جانب سے ہمیشہ پاکستان کی مخالفت اور بھارت سے دوستی کی باتیں ہی سامنے آتی رہی ہیں مجھے نہیں علم کہ افغان حکمرانوں کے پاس وہ کونسی گیڈر سنگھی ہے جس کی وجہ سے ہمارے صدر اور وزیر اعظم کبھی کابل پہنچے ہوتے ہیں تو کبھی اس بے ضمیر شخص کو اسلام آباد میں عشائیے دے رہے ہوتے ہیں ۔

اس لمحے جبکہ پاک فوج اور پاک فضائیہ خود کو سخت دباﺅ میں محسوس کررہی ہے اور یہ دباﺅ امریکہ پر اندھے اعتماد اور بھروسے کا نتیجہ ہے اس میں شک نہیں کہ پاکستانی قوم پہلے کی طرح وطن عزیز کے تحفظ اور سلامتی کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کی جانی و مالی قربانیوں کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے ہمیں ایک غیور قوم کی طرح حکمت و دانش کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر ایسا موقف اپنا نا چاہیئے کہ امریکہ سے جان چھوٹ جائے٬ ایٹمی اثاثے بھی محفوظ رہیں اور قومی عزت وناموس پر بھی کوئی آنچ نہ آئے ۔ اگر خدانخواستہ ہم خود ہی اپنی فوج اور اداروں پر تنقید کے نشتر چلاتے رہے اور ان پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے رہے تو ایک طرف دشمن کا کام آسان ہوجائے گا تو دوسری جانب ہماری قومی آزادی کو ایک بار پھر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا جائے گا ۔

جہاں تک سمندر میں اسامہ بن لادن کی نعش بہا کر امریکہ یہ سمجھ رہا ہے کہ اب وہ محفوظ ہوگیا ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے اگر ایک اسامہ شہید ہوا ہے تو لاکھوں اسامہ ٬ امریکہ سے بدلہ لینے کے لیے تیار اور آمادہ دکھائی دے رہے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسامہ جیسے لوگ کیوں پیدا ہوتے ہیں جب دنیا میں ظلم زیادتی ناانصافی انتہا پر پہنچ جائے تو مزاحمت کی علامت بن کر اسامہ جیسے لوگ منظر عام آتے ہیں جن کو کسی بندوق یا توپ کے گولے سے نہیں مارا جاسکتا ۔ وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 115633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.