حکومتی ٹوٹکے اور اہل مذہب

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت چوں کہ تبدیلی کادعوی لے کرآئی ہے ا س لیے وہ ہرمحکمے اورادارے میں بہتری کے نام پر مختلف ،،ٹوٹکے ،،آزماتی رہتی ہے اداروں کوسدھارنے کے لیے پی ٹی آئی کی غلط تشخیص کی وجہ سے ہرمحکمہ تقریبا نڈھال ہوچکاہے ،دوسال سے زائدعرصہ ہوگیاہے وزیراعظم اپنی فیلڈنگ ہی سیٹ نہیں کرپائے آئے روزکسی وزیرکوفارغ اورکسی کامحکمہ تبدیل کرنے کاتجربہ کیاجارہاہے مگربہتری پھربھی نہیں آرہی ،اقتدارکی غلام گردشوں میں لڑائی ہروقت عروج پرہوتی ہے،ایک وزیردوسرے مشیرکے خلاف سرنگیں کھودرہاہوتاہے،یہی وجہ ہے کہ کروناجیسی وباکے موسم میں بھی حکومت سیاسی ہم آہنگی پیدانہیں کرسکی وفاق صوبوں سے اورصوبے وفاق سے ٹکرارہے ہیں ،غرضیکہ وزیراعظم اوران کی ٹیم کی کسی ناکسی کے ساتھ چھیڑخانی لگی رہتی ہے ،

چھیڑخانی کایہ سلسلہ اداروں یاسیاست تک محدود نہیں بلکہ حکومت مذہبی طورپرحساس ایشوزاورطے شدہ امورکے ساتھ بھی یہ چھیڑخانی کرتی رہتی ہے اوران معاملات پر بھی تجربے کی کوشش کرتی ہے مگرمسلمانان پاکستان کی طر ف سے جب سخت ردعمل آتاہے توحکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے حکومت کادوسالہ ریکارڈ اٹھا کردیکھ لیں،آسیہ مسیح کی رہائی اور عاطف قادیانی کواقتصادی کونسل میں شامل کرنے سے لے کرقادیانیوں کوقومی اقلیتی کمیشن میں شامل کرنے کی تازہ واردات تک ایک تسلسل سے اقدامات کررہی ہے حالانکہ وزیراعظم اوران کی کابینہ کے ارکان کوپتہ ہے کہ یہ امورطے ہوچکے ہیں ان میں نقب نہیں لگائی جاسکتی مگربارباراس قسم کے اقدامات سے واضح ہورہاہے کہ یہ سب کچھ ایک ایجنڈے کے تحت کیاجارہاہے ۔
حکومت نے اپنے قیام کے پہلے سودنوں میں ہی ناموس قانون میں ترمیم کی کوشش کرکے اپنے عزائم واضح کردیئے تھے جس کے بعد اس موضوع پرکام کرنے والی جماعتیں اورادارے بیداری کامظاہرہ کررہے ہیں جوں ہی حکومتی ایوانوں سے ایسی کوئی کوشش ہوتی ہے توفوراسخت ردعمل آتاہے حکومت کوالٹے پاؤں بھاگناپڑتاہے ،حکومت کوکوئی مسئلہ توہے کہ وہ باربارایسی حرکتیں کرتی ہے کہ اسے سوجاتے بھی کھانے پڑتے ہیں اورسوپیازبھی ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ایلکٹ ایبلز کی سیاست کے پلے میں بہت سارے مشتبہ لوگ پارلیمنٹ میں گھس آئے ہیں جن کے عقائد واضح نہیں ہیں اور وہ مذہبی معاملات پر حملہ آور ہورہے ہیں۔

اس حکومت پرپہلے ہی ایسے اعتراضا ت ہیں کہ اسے توویسے بھی ایسے معاملات پر محتاط ہوناچاہیے مگرحکومت ان اعتراضا ت کوسچ ثابت کرنے کے لیے خود میدان میں آجاتی ہے کبھی پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکراسرائیل اوریہودیوں سے تعلقات کی تلقین کی جاتی ہے توکبھی کوئی یہودی ایجنٹ اسرائیلی جھنڈے کے ساتھ ایک ماہ تک اسلام آبادکی سرزمین پربیٹھارہتاہے مگرحکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی قانون حرکت میں نہیں آتاسوشل میڈیاپرجب اس کے خلاف طوفان برپاہوتاہے اور یونیورسٹی کے کچھ طلباء کی طرف سے جب اسرائیلی جھنڈ ہ پھاڑاجاتاہے توپولیس یہودی ایجنٹ کوحفاظتی تحویل میں لے لیتی ہے ۔
کبھی حج فارم آسان بنانے کے نام پراس سے ختم نبوت کاحلف نامہ ختم کردیاجاتاہے اس حوالے سے جب شوراٹھتاہے تووزیرمذہبی امورپیرنورالحق قادری نہایت معصومیت سے یہ کہتے ہیں کہ میرے علم میں لائے بغیریہ اقدام کیاگیا ہمارے وزیرمذہبی امورنہایت معصوم ہیں مذہبی ایشوزپرسب سے زیادہ ذمے داری ان کی بنتی ہے کہ وہ کابینہ میں بتائیں کہ یہ ایشوکتناحساس ہے یایہ معاملہ طے ہوچکاہے مگروزیرمذہبی امورکی خاموش مزاجی ان کی رضامندی سمجھی جاتی ہے ،انہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتاکہ وزارت مذہبی امورکون چلارہاہے کون ان ؒسے بالابالاحج کوٹہ تقسیم کردیتاہے کون انہیں بائی پاس کرکے حج مانیٹرکرنے سعودی عرب پہنچ جاتاہے کون حج مہنگاکردیتاہے ؟

موجودہ حکومت میں وزیرمذہبی امورکاعہدہ بھی ایک واجبی ساہوکررہے گیاہے اکثراوقات فواد چوہدری اپنے بیانات کی وجہ سے وزیرسائنس کم وزیرمذہبی امورزیادہ نظرآتے ہیں ،ملک بھرمیں قائم لاکھوں دینی مدارس بھی وزارت تعلیم کے ماتحت کردیئے ہیں اسلامی نظریاتی کونسل پہلے وزارت قانون کے پاس چلی گئی تھی رویت ہلال کامسئلہ نہ پہلے وزارت مذہبی امورسے حل ہوانہ اب ہورہاہے البتہ یہاں بھی فواد چوہدری کے ٹوٹکے استعمال کیے جارہے ہیں وزارت مذہبی امورکے پاس لے دے کرایک حج باقی رہے جاتاہے جس کاحال قوم کے سامنے ہے جبکہ اس مرتبہ قومی اقلیتی کمیشن کی سمری بھی وزارت مذہبی امورنے بھیجی تھی وزارت مذہبی اموراب لاکھ وضاحتیں دے مگرسمری میں یاکابینہ میں کہیں ناکہیں غلطی توہوئی ہے ؟سوال یہ ہے کہ یہ غلطی کس نے کی ؟

کوروناوائرس آیاتوخاص ایجنڈے کے تحت اہل مذہب کونشانہ بنایاگیا تبلیغی جماعتیں جوملک بھرمیں پھیلی ہوئی تھیں اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں واپسی کاراستہ دینے کی بجائے انہیں نشانے پررکھ لیا گیا مساجدکے آئمہ کرام کونمازپڑھانے پرگرفتارکیاگیاتوعلماء کی طر ف سے سخت ردعمل آیاجس کے بعدحکومت ایک ضابطہ اخلاق بنانے پرتیارہوئی پھرصدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی اوروزیرمذہبی اموراسلام آباداورراولپنڈی کی مساجدکادورہ کرکے ضابطہ اخلاق پرعمل درآمدکامشاہدہ کرتے نظرآئے جیسے ملک میں سب سے بڑامسئلہ مساجدمیں نمازیوں کاہے اس سے بھی بڑاتماشایہ ہواکہ صدرمملکت ایک ٹویٹ کے ذریعے لہترارروڈ کی ایک مسجدکی شکایت ڈپٹی کمشنرکولگاتے ہوئے پائے گئے ۔

قادیانی جماعت ایک تسلسل کے ساتھ پروپیگنڈہ کررہی ہے کہ اس کے ہزاروں کارکن وزیراعظم کی بنائی ہوئی ٹائیگرفورس میں رجسٹرڈہوئے ہیں مگرحکومتی ایوانوں میں اس حوالے سے خاموشی ہے ٹائیگرفورس پہلے ہی متنازعہ تھی اس پراس طرح کے الزامات کے بعد اپنی حیثیت کھورہی ہے جبکہ دوسری طرف ٹائیگرفورس کومسجدکے حوالے سے ضابطہ اخلاق پرعمل درآمدبنانے کے لیے استعمال کرنے کی بھی اطلاعات ہیں اگریہ ہواتوپھرملک میں ایک اورتماشہ لگنے کوہے ۔

حکومت جب اس قسم کے مذہبی معاملات میں پھنستی ہے اوراس پرمختلف الزامات لگتے ہیں توپھرحکومت ،،دم ،،کروانے کے لیے مولاناطارق جمیل سے رجوع کرتی ہے مولاناطارق جمیل دوڑے دوڑے آتے ہیں وزیراعظم کودم کرتے ہیں اوریوں حکومت پرجوسنگین الزامات لگ رہے ہوتے ہیں اس سے وقتی طورپرافاقہ ہوجاتاہے مولاناطارق جمیل اب دم کے ساتھ ساتھ اپنے مریض کی تعریف بھی کرتے ہیں اوریہ بھی بتاتے ہیں کہ اس میں مریض بے چارہ کاکوئی قصورنہیں بس انہیں اجڑاچمن ملا ظاہرہے کہ اجڑے چمن میں آسیب اورجنات کاسایہ ہوتاہے مریض نہایت معصوم ہے حکومت مولاناطارق جمیل کے ٹوٹکوں اوردموں پرپھرسے کچھ عرصہ سفرکرنے لگتی ہے ۔

عالمی طاقتوں کی کوشش ہے کہ کسی ناکسی طرح قانون توہین رسالت ختم کیاجائے قادیانیوں کے حوالے سے فیصلہ بدلاجائے،مدارس کوبندکیاجائے ،میڈیاکوکنٹرول کیاجائے ، عالمی طاقتیں اقوام متحدہ کے ذریعے توہین رسالت کا قانون ختم کرنے کی کوششیں کررہی ہیں ۔ اقوام متحدہ بھی پاکستان سے ICERD اور ICPRC کنونشنز کی آڑ میں آئین پاکستان کے تحت بنائے گئے توہین رسالت کے قانون کو ختم کرنے اور توہین رسالت کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کے بجائے توہین رسالت کا جھوٹا الزام عائد کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی اور سزا کی سفارش کررہاہے ۔ امریکا کی طرف سے بھی اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جاتارہاہے ،اسی پلان کے تحت موجودہ اسمبلی سے مذہبی قوتوں کوبڑی حدتک باہرکیاگیا مگرپاکستانی عوام بیدارہیں حکومت عوام اوران کی سوچ کوقیدنہیں کرسکتی ۔

وزیراعظم نے ریاست مدینہ بنانے کاایک نعرہ لگایاتھا مگراب یہ نعرہ ان کی زبان پرکم ہی آتاہے معلوم نہیں ریاست مدینہ کے اس نعرے سے وہ پیچھے ہٹ گئے ہیں یاان کامقصدپوراہوگیاہے لیکن ریاست مدینہ بنانے کے نام پرمذہب کے ساتھ اورمذہبی طورپرطے شدہ ایشوزکے ساتھ کھلواڑنہ کیاجائے یہ ملک ایک نظریاتی ملک ہے اسلام کے نام پرقائم ہواہے یہاں کسی کواجازت نہیں دی جاسکتی وہ عالمی قوتوں کاایجنڈہ مسلط کرے ،۔

 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 84552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.