منافقوں کی محفل

زندگی کی کہانی کی تکمیل میں رشتوں کی بہت اہمیت ہے۔ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی سب سے پہلے ماں اور باپ کا رشتہ اس کے ساتھ جڑ جاتا ہے اور ان سے جڑے بہت سے رشتے اس سے منسوب ہو جاتے ہیں۔ انہیں رشتوں کے بیچ زندگی پروان چڑھتی ہے اور جب انسان باہر کی دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اور نئے رشتے اپنے ساتھ جوڑ لیتا ہے۔ اتنے رشتے بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اور ان کے منفرد رنگ اور مزاج۔ کون سا رنگ پکا، کون سا رنگ کچا۔۔۔کون سا مزاج اپنا، کون سا مزاج بیگانہ۔۔۔بھری برادری میں زندگی گزار کے، خاص طور پر دوستوں کے جھرمٹ میں ایک عرصہ گزار کے۔۔۔۔بڑھاپے کی دہلیز پہ قدم رکھتے ہی ہر شخص بہت سے معاملات میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ اس کی جھکی کمر، آنکھوں کی بجھتی روشنی، بالوں کی سفیدی اور چہرے کی جھرئیاں ان رشتوں کی ان گنت سلوٹوں، پیچ و خم اور بدلتے رنگوں کا پتا دیتی ہیں۔ رشتوں کے بیچ زندگی گزار کے بھی انجام تنہائی ہوتا ہے۔

انسان کو شہرت ملتی ہے تو دنیا خود کو اس سے منسوب کر لیتی ہے۔ جہاں زوال آتا ہے ہاتھ ملانے والے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں کیونکہ جب تک نام ہوتا ہے تب تک کام ہوتا ہے۔ جب تک پیسہ ہوتا ہے تب تک مطلب جڑا رہتا ہے۔ جو رشتے پہلے گلے لگاتے تھے وہ غربت میں جان چھڑاتے ہیں۔ بہت سے عاشق جو ابتدا میں وفا کے وعدے کرتے نظر آتے ہیں مالی حالات، روزگار کی مشکلات اور تنزل کے باعث بدلتے نظر آتے ہیں۔ پکے پکے وعدے اور کچے کچے رنگ۔۔۔

زندگی کا یہ عجب سفر اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ مطلب سے ہر رشتہ جڑا ہوا ہے۔ مطلب ختم، رنگ بدلا، رابطہ ختم۔ اداکاری میں فنکاری دنیاداری کی کشتی پار لگا دیتی ہے۔

رشتہ کیا ہے؟ جس میں کوئی بناوٹ نہ ہو۔ جو ہر پل میٹھا رہے حقیقت میں وہ سب سے کڑوا اور مشکوک رشتہ ہوتا ہے۔ میٹھے میٹھے بول کا کڑوا کڑوا مول۔۔۔جو سن بھی لے، سنا بھی دے، پیار بھی جتاۓ، غصہ بھی دکھاۓ۔۔۔ایسے رشتے دل کی دھڑکن ہوتے ہیں جیسے ای۔سی۔جی پہ لکیر جب تک اوپر نیچے حرکت کرتی ہے تب تک زندگی ہوتی ہے۔ جیسے ہی لکیر سیدھی ہوئ زندگی کی امید بھی ختم ہو جاتی ہے۔ انسانی زندگی میں ایسے تعلقات آتے ہیں جو میٹھا زہر زندگی میں بھر جاتے ہیں۔ جو ایک پل میں کچھ ہو اور دوسرے پل میں کچھ ایسے شخص نے کسی خاص مطلب کے لیے خود کو دوسروں سے منسوب کیا ہوتا ہے۔ ایسا شخص اداکاری اور فنکاری میں پوری دیانت داری دکھاتے ہوۓ دنیاداری کے مکمل مزے لوٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ جب تک مطلب نکل رہا ہے تب تک لوگ مسکرا کر ملتے ہیں۔ مطلب نکلنا بند ہو جاۓ یا آپ کے حالات ان کے مطالب کو پورا نہ کر پاتے ہوں تو ماتھے کے بل، چہرے کا رنگ اور لہجے کا بدلنا دیکھئیے!کتنے تعلقات بظاہر ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور آپ کی جڑیں بھی کاٹتے رہتے ہیں۔ ان کا پتا تب چلتا ہے جب وہ آپ کے زوال پہ ہنستے اور قہقہہ لگاتے دکھائ دیتے ہیں:

میرے زوال پہ دل کھول کے ہنسا سنگدل
میں جھک کے ہنس دیا اس لازوال مورت پہ

انسان اپنی زندگی میں اپنے گرد منافقوں کی محفل سجاۓ بیٹھا ہوتا ہے۔ ان منافقوں کے جھوٹ کی گونج میں بہت سے سچ پہ مبنی رشتے عموما// اپنا احساس کھو بیٹھتے ہیں۔ چونکہ وہ اس کے ساتھ مخلص ہوتے ہیں وہ اس کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ جھوٹے اپنا مطلب پورا کر کے نکلتے جاتے ہیں اور چند سچے رشتے محفل برخاست ہونے پہ بڑھاپے میں اس کے ساتھ رہ جاتے ہیں جن کے سچ کی گونج کبھی جھوٹ کی آواز میں دب چکی تھی۔تعلقات بہت زیادہ ہونا کوئ کمال نہیں۔ چند لیکن خالص تعلقات زندگی کو مخلص اور خوبصورت جزبات سے بھر دیتے ہیں۔ انسان کو شروع سے ایسے رشتوں کو اپنی نظر میں رکھنے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ ان کا وجود جھوٹ کے مجسموں میں کہیں کھو نہ جاۓ۔ جھوٹ کے مجسمے گر کر رہتے ہیں اور سچ کے انسان نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں لیکن اکثر وقت کا پہیہ زندگی کو بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچا چکا ہوتا ہے۔ کاش کہ ہم بندہ شناس بنیں اور جوانی میں ہی ایسے رشتوں کو سینے سے لگا لیں ورنہ دنیا "منافقوں کی محفل" کے سوا کچھ بھی نہیں۔
انسانیت کا چشمہ لگا کہ ذرا دیکھو
یہ دنیا کیا ہے؟جھوٹوں کی محفل ہے۔۔۔
 

Syeda Khair-ul-Bariyah
About the Author: Syeda Khair-ul-Bariyah Read More Articles by Syeda Khair-ul-Bariyah: 24 Articles with 40026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.