نقش قدم

اتوار کی شام تھی- میں اجمل کے ساتھ چہل قدمی کے لیے نکلا تھا- وہ برسوں سے میرا پڑوسی تھا اور اسکول میں بچوں کو پڑھاتا تھا- پندرہ بیس سال پہلے اس چہل قدمی وغیرہ کا کوئی تصور نہیں تھا- دو دوست ملتے تھے تو سیدھا کسی ہوٹل کا رخ کرتے- ہوٹل میں کم دیر بیٹھے تو ایک ایک پیالی چائے پی لی اور اٹھ گئے- باتیں زیادہ دیر چلیں تو نوبت دو اور دو سے زیادہ پیالیوں تک جا پہنچتی تھی- اب اس طرح کسی عام ہوٹل میں بیٹھنا ایک معیوب بات سمجھی جاتی ہے-

ٹہلتے ٹہلتے ہم دونوں گھر کے قریب ایک پارک میں آگئے- اس سے پہلے وہ مجھے بتا چکا تھا کہ اس کی بیوی بچوں کو لے کر اپنی ماں کے گھر گئی ہوئی ہے اور دو ایک روز میں واپس آئے گی- وہاں کسی بچے کی سالگرہ کی تقریب تھی-

خالص گھریلو ٹائپ کے آدمی جو باتیں کرتے ہیں، وہ ہی باتیں ہم دونوں بھی کر رہے تھے- اپنے اپنے کاموں کے بارے میں اور اپنے اپنے گھروں کے بارے میں- میرے پوچھنے پر اس نے اپنے اسکول میں ہونے والی مصروفیات کے بارے میں بتایا- جواب میں میں نے اسے یہ اطلاع دی کہ پاکستان پوسٹ جس میں میں کام کرتا ہوں اب ایک منافع بخش ادارہ بن چکا ہے-

میں گھر سے نکلا تھا تو میری بیوی رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی- بچے ٹی وی آن کرکے بے دلی سے اسکول کا کام نمٹا رہے تھے- بیوی بچے دونوں ہی مصروف تھے اس لیے مجھے گھر کی کوئی فکر نہیں تھی- البتہ اجمل کچھ چپ چپ سا تھا- میں نے سوچا کہ بیوی بچوں کے چلے جانے سے وہ اداس ہوگیا ہے-

ہم دونوں پارک میں ایک بنچ پر بیٹھ گئے- زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک آدمی اپنی موٹر سائیکل گیٹ پر کھڑی کرکے پارک میں آیا- اسے دیکھتے ہی پارک میں موجود چند نوعمر لڑکے اس کی طرف لپکے- ایسا معلوم دیتا تھا کہ وہ اسی کا انتظار کر رہے تھے- وہ اپنی جیبوں سے پیسے نکال کر اسے دینے لگے- وہ جس لڑکے سے پیسے لیتا، اپنے ہاتھ میں پکڑے ایک تھیلے میں سے پلاسٹک کی ایک تھیلی نکال کر اسے پکڑا دیتا- یہ منظر دیکھ کر اجمل نے بڑے تاسف سے مجھے دیکھا- میں بھی افسردگی سے سر ہلا کر رہ گیا-

"یہ لڑکے اس چھوٹی سی عمر میں ہی نشے کے عادی ہوگئے ہیں- آگے جا کر کیا کریں گے"- میں نے کچھ دیر بعد کہا-

"ان منشیات فروشوں کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بری طرح تباہ ہو کر رہ گیا ہے- اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں بھی یہ برائی بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے"- اجمل نے افسوس سے کہا-

"ادارے جب کمزور ہوجاتے ہیں تو یہ ہی کچھ ہوتا ہے- اگر پولیس اور دوسرے محکمے متحرک ہوں تو ایسے لوگوں کو یہ کام کرنے کی ہمت نہ ہو"- مجھے ٹی وی کے کسی مذاکرے کی بات یاد آگئی تھی وہ میں نے دوہرا دی-

"ادارے ہی سب کچھ نہیں کرتے- لوگوں کو خود بھی اچھے برے کا خیال رکھنا پڑتا ہے- دنیا بھر میں جرائم پیشہ لوگوں نے شریف اور سیدھے سادھے لوگوں کا جینا حرام کردیا ہے- دوسرے جرائم تو ایک طرف، منشیات جیسے دھندے میں بہت سارے لوگ آگئے ہیں- یہ منظر جو ابھی ہم نے دیکھا ہے، پورے ملک میں جگہ جگہ نظر آتا ہے- ایسا معلوم دیتا ہے کہ جیسے دودھ والا آیا اور دودھ دے کر چلا گیا"- اجمل نے کہا-

"مجھے تو بہت ہی خوف محسوس ہوتا ہے- ہمارے بچوں کے لیے باہر کا ماحول بہت ہی غیر محفوظ ہوگیا ہے- انھیں غلط راہ پر ڈالنے کے لیے جگہ جگہ لوگ موجود ہیں- لڑکیوں کی تو زیادہ فکر نہیں ہوتی، وہ تو گھروں میں ہی رہتی ہیں- ویسے بھی لڑکوں کے مقابلے میں ان میں اچھے برے کی زیادہ تمیز ہوتی ہے- لڑکوں کو کب تک گھروں میں بند رکھا جا سکتا ہے"- میں نے فکرمند لہجے میں کہا-

"تمہاری بات ٹھیک ہے- ویسے ایک بات کہوں- ہمارے آس پاس کی خوشیوں اور اطمینان کا کریڈٹ دو لوگوں کو جاتا ہے- ایک تو ہمارے شریف النفس اور گھریلو مردوں کو اور دوسرا خواتین کو"-

اس کی پہلی بات تو مجھے ٹھیک لگی- ایک اچھا اور گھریلو مرد بہت سارے لوگوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے- اس کی دوسری بات سے مجھے یوں لگا کہ عورتوں کی حمایت میں اجمل کا بیان محض اس لیے ہے کہ اس کی بیوی میکے گئی ہوئی تھی اور اب اسے یاد آرہی تھی- میں نے سر ہلا کر اس کی بات کی تائید تو کی مگر بولا کچھ نہیں-

اجمل کو توقع تھی کی عورتوں کے حق میں بات کرنے پر میں کچھ کہوں گا- اس نے مجھے خاموش دیکھا تو بولا- "تم نے میری بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا- اس کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ اچھے ماحول کا کریڈٹ خواتین کو کیوں جاتا ہے؟"-

"میں کیا تبصرہ کروں- سوچتا ہوں تمہاری دل شکنی نہ ہوجائے- چلو اتنا کہے دیتا ہوں کہ جب میری بیوی میکے چلی جاتی ہے تو مجھے بھی احساس ہونے لگتا ہے کہ گھر کی ساری خوشیاں اس نیک بخت کے دم سے ہی ہیں"-

اس نے مسکرا کر کہا- " تم نے غلط سمجھا ہے- آج رات میں جس قدر پرسکون نیند سوؤں گا تم اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے- مجھے تو رہ رہ کر یہ خیال ستا رہا ہے کہ دو ایک روز بعد وہ واپس آجائے گی"-

"تم کیا کہنا چاہتے ہو- کبھی عورتوں کی عظمت کے گن گاتے ہو اور کبھی اتنی بیزاری دکھاتے ہو"- میں نے حیرت بھرے لہجے میں کہا-

"بیوی میکے گئی ہے تو ذہن کچھ آزاد ہوا ہے اور ڈھنگ کی باتیں سوچنے کا موقع ملا ہے- میرے ذہن میں ابھی کچھ دیر پہلے یہ خیال آیا تھا کہ دنیا میں ہر طرف قسم قسم کے جرائم ہوتے ہیں- معمولی جرائم بھی اور بھیانک جرائم بھی- ان بھیانک جرائم کی تفصیل سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں- ان کی فہرست بنانے بیٹھو تو صفحے کے صفحے سیاہ ہو جائیں- ان سارے جرائم کا ارتکاب مرد ہی کرتے ہیں- اس کے برعکس عورتوں کی ایک مختصر سی تعداد چھوٹی موٹی مجرمانہ سرگرمیوں میں تو مبتلا ہوسکتی ہے مگر ان کی بہت بڑی تعداد سیدھی سادھی لائف گزارتی ہے سوائے اس کے کہ اپنے ساتھ رہنے والوں سے ان کی تو تکار چلتی رہتی ہے- مگر یہ حقیقت ہے کہ عورتیں بنیادی طور پر رحمدل اور بے ضرر ہوتی ہیں- اپنی تنگی ترشی اور کم مائیگی کا شکوہ وہ اپنے شوہروں سے تو ضرور کرلیتی ہیں مگر ان محرومیوں کو دور کرنے کے لیے وہ لوگوں کو اسلحہ کے زور پر نہیں لوٹتیں- نہ ہی وہ معاشرے میں بھیانک قسم کی برائیاں پھیلانے کا سبب بنتی ہیں- منشیات جیسی لعنت سے بے حساب پیسے کمانے کی دھن میں بے شمار خاندانوں کو تباہ نہیں کرتیں- وہ بے گناہ اور معصوم کا تو کیا خود اپنے سے انتہائی برا سلوک کرنے والے لوگوں کا خون بھی نہیں بہاتیں بلکہ اس معاملے کو الله اور قانون پر چھوڑ دیتی ہیں جو ایک ٹھیک طریقہ ہے- وہ بد اخلاق اور بے مروت نہیں ہوتیں - ہر وقت غصے میں نہیں رہتیں- بغیر احسان جتائے چوبیس گھنٹے گھر کے لوگوں کی خدمت میں لگی رہتی ہیں- وہ آفسوں میں ہوں تو رشوت نہیں لیتیں- اپنے ساتھ کام کرنے والے چھوٹے ملازمین سے تحقیر آمیز رویہ نہیں رکھتیں- وہ سائنس کے شعبے میں ہوں تو اسلحہ اور بم بنانے نہیں بیٹھ جاتیں، نہ ہی افیون وغیرہ کو ہائی پاور بنانے کے لیے ریسرچ کرتی ہیں، بلکہ ایسی چیزیں ایجاد کرتی ہیں جو انسانوں کے فائدوں کے لیے ہوں- وہ ٹیچر ہوں تو درس و تدریس کے پیشے کی عظمت کو ہر وقت سامنے رکھتی ہیں- اگر وہ لکھتی ہیں تو تعمیری ادب لکھتی ہیں- اپنی اچھی سوچوں کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر بہت صحت مند ہوتی ہیں اسی لیے وہ ان منفی خیالات سے دور رہتی ہیں کہ جن پر عمل کرکے دوسرے لوگوں کی زندگی جہنم بن جائے اور پورا معاشرہ اس سے متاثر ہو- وہ چاہتی ہیں کہ وہ اور ان کے ارد گرد رہنے والے ایک اچھی ، پرسکون اور خوشیوں بھری زندگی گزاریں- یہ تو مرد ہی ہیں جو مختلف جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان جرائم کے نتیجے میں مخلوق خدا کو ذہنی اور جسمانی اذیتیں سہنا پڑتی ہیں"-

میں نے اجمل کی باتیں سن کر تھوڑا سا غور کیا تو واقعی یہ حقیقت میرے سامنے آئی کہ دنیا کے کسی بھی ملک کے معاشرے پر اگر ایک نظر ڈالیں تو ان میں جرائم کا ارتکاب کرنے والے زیادہ تر مرد ہی ہوتے ہیں-

میں نے کہا- "بات تو تمہاری ٹھیک ہے- مگر اس کی وجہ کیا ہے- مردوں ہی کی ایک کثیر تعداد کیوں جرائم کا راستہ اپناتی ہے؟"

میری بات سن کر اجمل بولا- "پیدائشی تو کوئی بھی برا نہیں ہوتا- تمام برائیاں انسان بری صحبت سے سیکھتا ہے- بری صحبت لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو بہت جلد میسر آجاتی ہے کیوں کہ وہ شروع ہی سے آزادی سے باہر گھومتے پھرتے ہیں- اپنی کم عقلی اور نا سمجھی کی وجہ سے ان میں اچھی بری باتوں کی تمیز کم ہوتی ہے جس کا فائدہ برے لوگ اٹھاتے ہیں- ان بدقماش لوگوں کے ساتھ رہ کر دوسری بری باتوں کے علاوہ ان کی طبیعت میں لالچ بھی پیدا ہوجاتا ہے- لالچی انسانوں کا گزارہ محنت سے کمائے ہوۓ کم پیسوں سے نہیں ہوتا اس لیے وہ روپیہ حاصل کرنے کے لیے شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں- ناجائز طریقے سے دولت کمانے کے لیے وہ مختلف قسم کے چھوٹے بڑے جرائم کرنا شروع کردیتے ہیں- ان کا ہدف معصوم اور کمزور لوگ ہوتے ہیں- وہ اس بات کی بھی پرواہ نہیں کرتے کہ کہ ان کی زیادتیوں اور ظلم کی وجہ سے کتنے گھر تباہ ہو رہے ہیں اور لوگ ان کو بد دعائیں دے رہے ہیں - وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس مختصر سی زندگی کے بعد وہ الله کے سامنے معصوم لوگوں پر کیے گئے ظلم و ستم کا حساب کیسے دیں گے"-

اجمل کی باتیں حقیقت پر مبنی تھیں- میں نے کہا- "تم نے ٹھیک کہا تھا- کسی بھی معاشرے کے سکون اور خوش حالی میں عورتوں کا بھی ہاتھ ہوتا ہے کیوں کہ ان کی ایک بڑی تعداد کسی بھی قسم کے جرائم کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتی- ان کی اکثریت میں نرم خوئی، خوش اخلاقی، ہمدردی، اپنے خاندان کی عزت اور مفادات کا خیال، قناعت پسندی، مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور عزت نفس کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے- یہ تمام خاصیتیں ان مردوں میں یکسر معدوم ہوتی ہیں جو جرم کی راہ پر چل نکلتے ہیں- اگر جرائم کی راہ پر چلنے والے مرد عورتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ ان کی یہ صفات اپنا لیں تو اس میں ان کا بھی فائدہ ہے اور معاشرے کا بھی"-

(ختم شد)

Mukhtar Ahmed
About the Author: Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mukhtar Ahmed: 70 Articles with 123412 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.