خوفناک مماثلت

لوگ حیران تھے،حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا،ایسے کیسے ممکن ہے۔یہ سب توخاموش،مرنجا مرنج اورآرام کی زندگی گزارنے والے ہیں۔انہیں توآسائش سے پیارہے۔قلم اورکتاب سے ان کی دوستی ہے۔ان لوگوں نے ہتھیارکیسےاٹھالئےاوریہ لوگ بلا کے سپاہی بھی ثابت ہورہے ہیں۔مورخ لکھتے ہیں کہ اس فوج نے جوبرطانیہ کے ذہین،پڑھے لکھے اورسوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں پرمشتمل تھی،یوں فتح ونصرت کے جھنڈے گاڑے کہ دیکھنےوالےحیران رہ گئے۔مقابلے پرتاج برطانیہ کی مستقل فوج تھی لیکن یہ لوگ جس جانب بڑھے فتح ان کامقدرہوتی اورجس جتھےسے ٹکراتے اسے پاش پاش کرکے رکھ دیتے۔ انہیں بہت سے محاذوں کاسامناتھامگران کے قدم نہ ڈگمگائے۔یہ لوگ کون تھے جنہیں آلیورکرامویل کے فوجی کہاجاتاہے۔ یہ کیسے وجود میں آئے اورانہیں یوں ہتھیار اٹھانے پرکس نےمجبورکیالیکن یہ بات طے ہےکہ1647ء سے1649ء تک کے دو سالوں میں انہوں نے ایک تاریخ مرتب کردی۔برطانیہ کارخ ایسے موڑدیاکہ پھراس کے بعدنہ بادشاہ نےکبھی سوچا کہ مطلق العنان بن کرجوچاہے کرسکتاہے،نہ فوج نے لوگوں کے جذبات کےمقابلے میں کسی آمریت پسندبادشاہ کاساتھ دیااورنہ پارلیمنٹ نے تصورکیاکہ چونکہ وہ اب منتخب ہوکرآچکے ہیں توجوچاہے کرلیں ،بادشاہ کی آمریت کوتسلیم کرلیں یاعوام کی مرضی کے خلاف کوئی قانون منظورکرلیں۔

چارلس اوّل ان بادشاہوں میں سے ایک تھاجوآئین،قانون اورپارلیمنٹ کوکھلوناسمجھتاتھا۔وہ صرف25سال کی عمرمیں برطانیہ کے تخت پربیٹھا۔اس نے تاج پرسرفرازہونے کے صرف تین سال کے اندراندرپارلیمنٹ توڑدی۔اس لئے پارلیمنٹ نے اس کےسامنے تین عجیب وغریب مطالبات رکھ دئیے۔

یہ کہ بادشاہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیرکوئی ٹیکس نہیں لگائے گا۔جب زمانہ امن ہوتوکسی فوجی کوسول عہدے پر تعینات نہیں کیاجائے گااورنہ ہی اپنامقصدحاصل کرنےکیلئے فوجی عدالتیں لگائی جائیں گی اورنہ ہی انہیں شہروں میں امن عامہ بحال کرنے کیلئےبھیجاجائےگا۔ فوج کسی کوبغیرثبوت اور واضح الزامات کے بغیرگرفتار نہیں کرسکے گی۔بادشاہ نے پارلیمنٹ توڑدی اورپھر 11سال تک بغیرپارلیمنٹ کے راج کرتارہا۔اسے اس کانشہ ساہوگیا تھالیکن عوامی دباؤکے تحت اسے دوبارہ انتخابات کراناپڑ ے اور1640ءمیں آلیورکرامویل اس پارلیمنٹ کارکن منتخب ہوا۔اس پارلیمنٹ کوبھی جب بادشاہ کی آمریت سے لڑناپڑاتوصرف تین ہفتوں بعدانہیں گھربھجوادیاگیااوراسی سال نئے انتخابات ہوئے۔کرامویل دوبارہ منتخب ہو کرپارلیمنٹ میں جاپہنچا۔

اس دفعہ پارلیمنٹ کے ارکان ذراڈرے ڈرے اورسہمے سہمے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح مفاہمت سے کچھ لواورکچھ دو کے اصول پرمعاملات کوآگے بڑھایاجائےاورجمہوریت کی گاڑی کوچلنے دیاجائے لیکن لوگ توبادشاہ سے نفرت کرتے تھے۔انہوں نے توان ارکان کواس لئے نہیں بھیجاتھاکہ ان کے جذبات کاسوداکردیاجائے۔بادشاہ کے سامنے مختلف مواقع پرمختلف شرائط رکھی جاتی رہیں۔ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ فوج کوپارلیمنٹ کے ماتحت کردیاجائے۔یہ شرط اس بادشاہ کوکیسے منظور ہوسکتی تھی جواسی فوج کے بل بوتے پرحکمرانی کررہاتھا۔لوگ اب روزروزکے مذاکرات سے تنگ آچکے تھے۔ان کے نزدیک پارلیمنٹ کے ارکان اپنے مفادات کی خاطر ان کے جذبات سے کھیل رہے تھے۔انہیں یہ منافقت پسندنہ تھی۔ ایسے میں آلیور کرامویل جس کاکوئی فوجی تجربہ نہ تھاجوصرف گاؤں کی سکیورٹی فورس میں چندسال ملازم رہاتھااس نے ایک فوج ترتیب دینا شروع کردی جوبادشاہ کی آمریت اورپارلیمنٹ کی منافقت سے بیک وقت لڑے۔ معرکے شروع ہو گئے۔بادشاہ کی فوج ہرمحاذپرشکست کھانے لگی۔کرامویل کی فوج میں ذہین ، باصلاحیت اورپڑھے لکھے افرادتھے۔ان میں حالات کی وسعت کرنے کاایک مذہبی جذبہ بھی عودکرآیا۔کرامویل کی تقریروں میں وہ جوش وجذبہ تھاکہ آگ لگادیتا۔وہ اپنے آپ کواللہ کاسپاہی تصورکرتاتھا۔دوسری جانب پارلیمنٹ کے ارکان سسٹم بچانے کیلئے مذاکرات کررہے تھے ۔ لوگوں کوان مذاکرات سے نفرت ہونے لگی۔وہ انہیں فراڈ،دھوکادہی اوردل کا بہلاواسمجھتے۔

دسمبر1648ءکوکرامویل کی اس عوامی فوجی کے ایک جتھے نے ان تمام ارکان پارلیمنٹ کامحاصرہ کرلیا۔وہ مزید مذاکرات کے حامی تھے۔ اس محاصرے کی قیادت تھامس پرائڈ کررہاتھا۔ اس واقعے کوتاریخ میں پرائڈ سپرج کے نام سے جاناجاتاہے۔ کرامویل اس وقت شمال میں بادشاہ کی وفادارفوجوں سے جنگ میں مصروف تھا۔اگلے دن وہ لندن پہنچااوران ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ ہوگیا جوبادشاہ پرمقدمہ چلا کراسے منطقی انجام تک پہنچاناچاہتے تھے۔اسے یقین تھاکہ بادشاہ کی موت ہی انگلینڈ میں خانہ جنگی کوختم کرسکتی ہے۔لوگ اب نہ ارکان پارلیمنٹ پربھروسہ کرتے تھے اورنہ کوئی مذاکراتی حل چاہتے تھے ۔ بادشاہ پرمقدمہ چلایاگیا۔59ممبران کی عدالت بیٹھی جس نے اسے مجرم گردانتے ہوئے ڈیتھ وارنٹ پردستخط کردئیے۔ 30 جنوری 1649ءکو مطلق العنان بادشاہ کاسرتیزدھارلہراتے ہوئے چھرے کی زدپرتھا۔

یہ دنیاکی تاریخ کاانوکھا اورعلیحدہ ورق نہیں ہے۔ایسی مثالیں آپ کوجگہ جگہ مل جائیں گی۔ جب لوگ اپنے جذبات اور احساس سے مذاق صرف ایک حد تک برداشت کرتے ہیں وہ اپنی مرضی کے خلاف قانون سازی کی اجازت اگرایک آمر کو نہیں دیتے توپھراسے بھی نہیں دیتے جسے انہوں نے ووٹوں سے منتخب کرکے بھیجاہوتاہے۔اقتدارکانشہ ایسی چیزہے کہ کبھی بادشاہ کویہ گمان ہونے لگتاہے کہ وہ بالادست ہے اورکبھی پارلیمنٹ یہ یقین کرلیتی ہے کہ وہ بالادست ہے۔ بالادست توعوام ہوتی ہے۔ نقارۂ خلق ہی آوازخداہوتاہے۔جواس نقارے پراپنے کان بند کرلیتے ہیں ان کی زندگیوں میں کوئی نہ کوئی کرامویل ضرورنکلتاہے۔اس خوفناک مماثلت کوآپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 318710 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.