مسئلہ کشمیر اور عالم اسلام کی بے رخی ۰۰۰

کشمیر کا مسئلہ عالمِ اسلام کے لئے شاید اہمیت نہیں رکھتا، کیونکہ عالمِ اسلام خصوصاً عرب ممالک کے اندرونی حالات خود انتہائی کشیدہ ہیں۔ان ممالک کے حکمرانوں کے خلاف اگر کوئی شہری چاہے وہ کتناہی اہم اور اعلیٰ درجہ پر فائز ہو کچھ کہہ دے تو اس کے خلاف فوراً کارروائی کی جاتی ہے اور نہیں معلوم اس بے چارہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔ ان ممالک میں جہاں اسلامی قوانین کے نفاذ کی بات کہی جاتی ہے وہاں پر انسانیت کی کوئی قدرو قیمت دکھائی نہیں دیتی۔ اور جب ہندوستانی حکومت جموں و کشمیر کے خصوصی موقف ، آئین کے دفعہ 370 کو برخواست کرتی ہے تو اس کا اثر صرف پاکستانی وزیر اعظم اور پاکستانی عوام کے علاوہ کسی بھی ملک کے حکمراں کو نہیں ہوا۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اس مسئلہ کو عالمی سطح پر اٹھانے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی سطح پر کشمیر کے سفیر کی حیثیت سے اس مسئلہ کو اٹھائیں گے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق عمران خان کے کہنے پر پاکستانی عوام ملک بھر میں جمعہ کے روز کشمیریوں سے اظہار یکجہتی منایا اس موقع پر عوام نے ریلیاں نکالی جن میں اسکولس، کالجس، اور یونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات، سرکاری و نجی ملازمین نے مرکزی شاہراؤں پر جمع ہوئے۔ وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم ہاؤس میں خطاب کیا اس موقع پر کابینی ارکان موجود تھے۔ عمران خان نے کہا کہ کشمیری عوام پر مشکل وقت ہے اور ایسے موقع پر تمام پاکستانی کشمیر کے ساتھ کھڑے ہیں۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ عمران خان ہندوستانی کشمیر کے مسئلہ پر جس طرح عالمی سطح پر اٹھانا چاہتے ہیں اس کے برخلاف عالمِ اسلام کی جانب سے اس سلسلہ کوئی آواز اٹھتی دکھائی نہیں دیتی ۔ اب دیکھنا ہیکہ عمران خان کس طرح عالمِ اسلام اور دیگر عالمی طاقتوں کے حکمرانوں کو کشمیر کے مسئلہ کو سمجھا پائیں گے اور کشمیری مسلمانوں کے ساتھ جو ناانصافی ہوئی ہے یا ہورہی ہے اس کے خلاف کس قسم کی کارروائی کرنے میں کامیابی حاصل کریں گے۔ کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ثالثی کا رول ادا کرنے سے کترانے کی کوشش کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی مسئلہ ہے اوراسے دونوں ممالک خود مل بیٹھ کر حل کرلے سکتے ہیں۔ جبکہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی عالمی قائدین کو مسئلہ کشمیرپر بات کرنے سے کسی نہ کسی خاموش کرانے میں کامیابی حاصل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔وزیر اعظم ہند مودی 4؍ ستمبر کو روس کا دورہ کرنے والے ہیں اس دورے سے قبل روس کے نمائندہ خصوصی نیکولائیکٹاشیف کا کہنا ہیکہ روس آئین کے آرٹیکل370کو منسوخ کرنے اور نئے ڈیل کے بارے میں ہندوستان کے موقف کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر عالمی ممالک کی جانب سے بھی کشمیر کے مسئلہ کو ہندوستان کا اندرونی مسئلہ بتاتے ہوئے دخل اندازی سے گریز کیا جارہا ہے۔5؍ اگسٹ کو ہندوستانی حکومت نے دفعہ 370کی برخواستگی کے بعد سے جموں و کشمیر اور لداخ میں بعض مقامات پر کرفیو نافذ ہے تو بعض مقامات پر کرفیو نہ ہونے کے باوجود کرفیو جیسی صورتحال دکھائی ہے۔ فون سرویسز بھی معطل کردی گئی تھیں جو شاید بحال کردی گئیں ، تعلیمی ادارے ابھی تک تقریباً بند ہیں ۔ عوامی احتجاج کو دبانے کیلئے ہندوستانی حکومت کس طرح کشمیریو ں پر ظلم و بربریت ڈھارہی ہے اس کا علم شاید حقیقت میں کسی کو نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہیکہ کشمیری مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کا احساس صرف اور صرف پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور پاکستانی قائدین اور عوام کو ہی ہورہا ہے کیونکہ عالمی سطح پر مسلم حکمرانوں کی خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ عالمِ اسلام کے حکمراں اپنے اقتدار کو مضبوط و مستحکم بنائے رکھنے کیلئے اولین ترجیح دیتے ہیں۔ انہیں فلسطینی، کشمیری اور دیگر ممالک بشمول انکے اپنے ملک کے مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔اس کا اندازۃ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں عالمِ اسلام کی افواج جس طرح یمن میں حوثی بغاوت کو کچلنے کیلئے حملے کررہی ہیں ،ان حملوں کی خبریں جس طرح میڈیا کے ذریعہ منظرعام پر آرہی ہیں اس سے ایسا محسوس ہوتا ہیکہ یمن میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں۔ معصوم اور بے قصور یمنی بشمول بچے، خواتین اور ضعیف مردو خواتین کا جس طرح مسلم ممالک کی افواج کی جانب سے خطرناک فضائی کارروائیوں کے ذریعہ حملے کرکے خون بہایا جارہا ہے شاید اس کی مثال عالمِ اسلام میں ماضی میں نہیں ملتی۔کشمیر کے حالات معمول پر آنے کیلئے کتنا وقت لگے گا اس کا کسی کو علم نہیں ، ہندوستانی حکومت کشمیریوں کو خوشحال زندگی فراہم کرنے کی بات تو کررہی ہے لیکن احتجاج کرنے والے کشمیری معصوم بچوں، نوجوانوں اور خواتین کے ساتھ کیا معاملہ کررہی ہے اس کی رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جارہی ہے۔ اپوزیشن قائد راہول گاندھی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا ایک وفد کشمیری عوام سے ملاقات کرکے ان مظلوموں کی روداد سننے سری نگر پہنچا تھا لیکن حکومت نے انہیں سری نگر ایئرپورٹ سے ہی واپس بھیج دیا۔ کشمیر کے حالات دیکھتے ہوئے پاکستانی حکومت نے ہندوستانی فضائیہ کیلئے اپنے فضائی حدود کی بندش کا فیصلہ کرنے اعلان کیا ہے لیکن نہیں معلوم اس کا اعلان کتنی قلیل مدت میں کیا جائے گا۔گذشتہ دنوں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے فرانس کے دورہ کے موقع پر پاکستانی فضائی حدود کا استعمال کرچکے ہیں جبکہ اس سے قبل ماہِ جون میں نریندر مودی نے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے کرغرستان کے دارالحکومت پشکیک جانے کیلئے پاکستانی فضائی حدود کا استعمال نہیں کیا تھا بلکہ انکی پرواز عمان، ایران اور وسطیٰ ایشیاء کے متعدد ممالک سے ہوتی ہوئی گئی تھی۔ اس وقت پاکستانی حکومت نے اپنے فضائی حدود سے سفر کرنے کیلئے ہندوستانی حکومت کو اصولی طور پر منظوری دی تھی۔اب دیکھنا ہیکہ پاکستان ، ہندوستان کے لئے اپنے فضائی حدود اور زمینی راستوں کو بند کردے گا یا نہیں، اگر بند کرے گا تو پاکستان پر عالمی سطحسے کس طرح کا دباؤ پڑے گا اور ہندوستان کو اس سے کتنا نقصان پہنچے گا۔ کیونکہ اگر پاکستان پر عالمی دباؤ پڑے گاتو شاید فضائی حدود بند کرنا ناممکن ہے جبکہ افغانستان نے پہلے ہی پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ ہندوستان کیلئے اپنی فضائی بندش نہ کریں ،اس بندش کی وجہ سے افغانستان کو شدید نقصان کا اندیشہ ہے اور اس کا اثر افغانستان میں عنقریب ہونے والے صدارتی انتخابات پربھی پڑسکتا ہے۔ کشمیر تنازعہ کے پیش نظر پاکستان نے ہندوستان سے تمام تجارتی تعلقات منقطع کرلئے ہیں جس کی وجہ سے ہندوستان سے پاکستان جانے والے مختلف ادویات میں استعمال کئے جانے والے خام مال اور کیمیکلز کو بھی پاکستان میں لانے سے روک دیا گیا ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اس پابندی کی وجہ سے پاکستان میں فارماسوٹیکل انڈسٹری کا کہنا ہیکہ زندگی بچانے والی بیشتر ادویات کی قیمتوں میں اضافہ اور مارکیٹ میں ان کی کمی کا خدشہ بڑھنے لگا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ پاکستان میں بنائے جانے والی ادویات میں استعمال ہونے والے خام مال کا تقریباً 50فیصد حصہ ہندوستان سے پاکستان بھیجا جاتا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ اس سلسلہ پاکستانی حکومت عوام کی صحت کے خیال کے سلسلہ میں کس طرح کا اقدام کرتی ہے ۔

ہندوستانی وزیر اعظم کو عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اعلیٰ ترین ایوارڈس
نریندر مودی پہلے ہندوستانی وزیر اعظم ہونگے جنہیں گذشتہ پانچ سال کے عرصہ میں چھ مسلم ممالک نے اپنے سب سے بڑے یعنی اعلیٰ سویلین ایوارڈس سے نوازا ہے۔ عالمی سطح پر نریندر مودی اپنے آپ کو منانے کی بھرپور کوشش کرچکے ہیں، نریندر مودی جس طرح عالمی ممالک کے سربراہوں سے ملاقات کرکے، ان سے مصافحہ کرتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ انکی دوستی بہت پرانی ہے ۔ ہندوستانی وزیراعظم کی حیثیت سے انہوں نے جس طرح کئی ممالک کا دورہ کیا اور ان ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے ساتھ ساتھ معاشی صورتحال کو مستحکم بنانے کے لئے باہمی شراکت داری اور سرمایہ کاری و دیگر معاہدات کئے اس سے ان کی قائدانہ صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں ، یہی وجہ ہے کہ عالمی ممالک بشمول عالمِ اسلام نے مودی کو اپنے سب سے اہم ایوارڈ سے نوازا۔ ان ممالک میں سعودی عرب، مالدیپ، افغانستان، فلسطین، عرب امارات اور بحرین شامل ہیں۔گذشتے دنوں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان نے وزیر اعظم نریندر مودی کو یو اے ای کے سب سے بڑے سول ایوارڈ ’’زید میڈل‘‘ سے نوازا۔اس موقع پر شیخ زید نے اپنے سرکاری ٹویئٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ نریندر مودی کو یہ ایوارڈ ’دوستی اور تعاون کو فروغ دینے میں ان کے کردار کے اعتراف میں‘ دیا گیا ہے۔اس کے بعد24؍ اگسٹ کو بحرین کے بادشاہ حماد بن عیسیٰ الخیفہ نے بھی وزیر اعظم مودی کو بحرین کا سب سے بڑا اباوقار یوارڈعطا کیا۔ متحدہ عرب امارات کا باوقار ایوارڈ حاصل کرنے کے بعدوزیر اعظم ہند نریندر مودی نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ تھوری دیر پہلے ہی آرڈر آف زید سے نوازا گیا، ایک فرد سے زیادہ یہ ایوارڈ انڈیا کے ثقافتی اقدار اور 130کروڑ ہندوستانی شہریوں کے نام ہے۔ عرب امارات کی جانب سے سویلین ایوارڈ دیئے جانے پر پاکستان نے اس کی مذمت کی اور احتجاج کے طور پر پاکستانی ایوانِ بالا کے چیئرمین محمد صادق سنجرانی نے ہفتہ کی رات متحدہ عرب امارات کا اپنا پارلیمانی وفد کے ساتھ پہلے سے طے شدہ دورہ منسوخ کردیا۔ اس موقع پر پاکستانی سینیٹ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتاہے ، مودی حکومت کی جانب سے اس وقت کشمیری مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کردی گئی ہے اور کرفیو نافذ ہے، لہذا ایسے موقع پر متحدہ عرب امارات کا دورہ پاکستانی قوم اور کشمیری ماؤں ، بہنوں اور بزرگوں کی دل آزادی کا سبب بنے گا۔ اس سے قبل وزیر اعظم کو اپریل 2016میں سعودی عرب نے سب سے بڑے سول اعزاز’’شاہ عبدالعزیز ایوارڈ‘‘ سے نوازا تھا اور یہ ایوارڈ انہیں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے عطا کیا تھا۔وزیر اعظم نریندر مودی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی فرانس میں ملاقات کرچکے ہیں اس طرح وہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو ہندوستان کا اندرونی مسئلہ بتاکر پاکستان کو یکہ و تنہا کرنا چاہتے ہیں اور عالمی قائدین بھی مسئلہ کشمیر کو دونوں ممالک کاباہمی معاملہ بتاکر خاموشی اختیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ کشمیر کے مسئلہ پران ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات خراب نہ ہونے پائیں۰۰۰۰

صدر ٹرمپ اور صدر حسن روحانی کی ملاقات؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ، ایرانی صدر حسن روحانی سے اگلے چند ہفتوں میں ملاقات کے خوہاں دکھائی دیتے ہیں لیکن ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے دورہ فرانس کے موقع پرکہا کہ اگر امریکہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے میں واپس بھی آجائے تب بھی ایران اور امریکی صدور کے مابین ملاقات کا کوئی امکان نہیں ہے۔امریکی اور ایرانی صدور کی ملاقات کے سلسلہ میں فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ کشیدگی میں کمی کیلئے دونوں ملکوں کی سربراہ قیادت کی ملاقات ممکن ہے۔ فرانسیسی صدر نے پیرس میں اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں ایران پر خلیجی خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشیں بند کرنے پرزور دیا اور کہا کہ خلیجی ممالک میں کشیدگی کی گونج پیرس میں گروپ سیون کے سربراہ اجلاس کے موقع پر بھی سنی گئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کشیدگی کم کرنے کیلئے صدرڈونلڈ ٹرمپ اورصدر ڈاکٹر حسن روحانی کے درمیان ملاقات ممکن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ملکوں کے صدور ایک دوسرے سے ملنے کو تیار ہیں تاہم اس کیلئے ماحول سازگار بنانا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ میں نے ایرانی صدر سے ملاقات کے دوران بھی کہا تھا کہ ٹرمپ سے ملاقات کے نتیجے میں کشیدگی کے خاتمے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ اب دیکھنا ہیکہ جی سیون سربراہی اجلاس کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان کس قسم کے حالات پیدا ہوتے ہیں۔جواد ظریف جی سیون سربراہی اجلاس کے موقع پر پیرس میں صدر ایمانوئل میکخواں اور فرانسی وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ سمجھا جارہا ہے کہ یہ دورہ تہران کے ساتھ جی سیون ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی کرنے کی ایک اہم کوشش ہے۔

کیا افغانستان میں قیام امن ممکن ہے؟
افغانستان میں قیام امن کے سلسلہ میں طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں مذاکرات کا عمل جاری ہے سمجھا جارہا ہے افغانستان میں 28؍ ستمبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات سے قبل ہی طالبان کے ساتھ امن معاہدہ نتیجہ خیز ثابت ہو۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق افغانستان میں 1996ء سے 2001ء تک طالبان کا دور رہا اس موقع پر خواتین کو تعلیم اور روزگار سمیت بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا گیا۔اور اب سمجھا جارہا ہے اگر افغانستان میں پھر سے ایک مرتبہ طالبان کا کنٹرول قائم ہوگیا تو افغان خواتین پر طالبان پابندیاں عائد کردیں گے۔ لیکن قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہیکہ طالبان افغان خواتین کو وہ تمام حقوق دیں گے جن کی الاسلام اور افغان معاشرے میں اجازت ہوگی۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی افغانستان میں پہلے صدارتی انتخاب کو ترجیح دے رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ حکومت کی پہلی ترجیح صدارتی انتخابات کا انعقاد ہے اور دوسری ترجیح امن معاہدہ ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق انہوں نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدہ ہو لیکن ایسا امن معاہدہ نہ جو افغانستان کو طالبستان میں تبدیل کردے۔ اشرف غنی کا کہنا تھاکہ لوگ امن چاہتے ہیں وہ افغانستان چاہتے ہیں نہ کہ طالبستان۔ اشرف غنی نے طالبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا خون بہانے پر غیر جشن مناتے ہیں ، کیا تم لوگ غیروں کے لئے افغان عوام کو درد اور غم دیتے ہو۔ اب دیکھنا ہیکہ صدارتی انتخابات 28؍ ستمبر کو ہوپائیں گے یا نہیں کیونکہ اس سے قبل دو مرتبہ صدارتی انتخابات ملتوی کئے جاچکے ہیں یعنی یہ انتخابات 20؍ اپریل کو ہونا تھے لیکن اب یہ تاریخ 28؍ ستمبر مقرر کی گئی اور اس سے قبل امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے سلسلہ میں طالبان سے دوحہ میں جومذاکرات کئے جارہے ہیں کامیاب ہوں۔ طالبان ایک طرف مذاکرات بھی کررہے ہیں اور دوسری جانب افغانستان کے بعض علاقوں میں پولیس اور سیکیوریٹی فورس وغیرہ پر حملے بھی کررہے ہیں ۔ اب دیکھنا ہیکہ افغان صدر اشرف غنی صدارتی انتخابات وقت پر کراپاتے ہیں اور امریکہ ، طالبان کے ساتھ امن معاہدہ میں کامیاب ہوپاتا ہے یا نہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اگر واشنگٹن طالبان کے ساتھ 18سالہ طویل جنگ کے خاتمے کیلئے معاہدہ کرلیتا ہے تو بھی امریکی افواج وہاں موجود رہیں گی۔ انکا کہنا ہے کہ ہم وہاں اپنی موجودگی برقرار رکھنے جارہے ہیں ، ہم اس موجودگی کو بہت حد تک کم کررہے ہیں اور ہمیشہ وہاں اپنی موجودگی رکھیں گے۔ اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان جس طرح امریکی افواج کا افغانستان سے خاتمہ چاہتے ہیں اس پر امریکہ کسی بھی صورت راضی نہ ہوگا ۔ اب دیکھنا ہے کہ طالبان امریکی صدر کے فیصلہ کو کس طرح لیتے ہیں اور افغانستان میں قیام امن کیلئے راضی ہوتے ہیں یا نہیں۰۰۰
***
 

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 213327 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.