مسلمان اور سازشی نظریے

مذکورہ مضمون میں عمران شاہد بھنڈر صاحب کی کتاب سے اقتباسات ہیں جن میں ترامیم کرکے یہاں شائع کیا جارہاہے

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ اللھم صل علیٰ محمد وآل محمد وعجل فرجھم اجمعین

مسلمان خصوصا تیسری دنیا کے اس مذہبی انسان کی کمزوریاں اور خامیاں ہی ہیں جن کی وجہ سے سرمایہ دار کو اپنے مفادات کے حصول میں کچھ مشکل پیش نہیں آرہی۔ سرمایہ دار کا آسان ہدف وہ مذہبی انسان ہے جو اسلامی تہذیبی و ثقافتی روایات سے تو وابستہ رہنا چاہتا ہے مگر ’ہستی کا علم‘ اور منطق سے بے خبر مذہبی تعلیمات کوفکری مشقوں اور عملی مشقوں سے سمجھنے کے بجائے صرف آباء و اجداد کی تقلید پر گذارنا چاہتا ہے۔ جس دنیا میں وہ رہتا ہے اس سے اس کے وجود کا کیا رشتہ ہے اسے سمجھنا ہی نہیں چاہتا، وہ تحقیق کرکے اپنی سماجی اور تاریخی یک رُخی روایات کے خلاف اصل بات سننے کو تیار نہیں ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سےتاریخی یک رُخی اور اسلام کی اصل تعبیر کے درمیان فرق کو دیکھا جاسکتا ہے۔

پوری دنیا میں اس وقت مسلمان ریاستوں کا کردار قابلِ مذمت ہے جو تاریخی غلطیوں سے بھی سیکھنے کو تیار نظر نہیں آتے اوران ریاستوں کے رہنے والے اس بات سے بے خبر ہیں کہ کس طرح سے سامراج نے فلسفیانہ علوم کی بنیاد پر نہ صرف سرمایہ داری نظام کو ترقی دی ہے، بلکہ انھی علوم نے سامراج کو اور بھی مکار اور عیار بنادیا ہے کہ وہ انھی علوم کے ذریعے پہلے سے زیادہ مہذب طریقے سے انسانیت کا استحصال کر رہا ہے۔ اس نے انسان کوتقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔ سرمایہ داری نظام جو فردیت کی نشونما کا دعویدار ہے اسی نے درحقیقت پوری دنیا کے انسان کی اصل انفرادیت کو چھین کراسے نہ صرف پارہ پارہ کردیا ہے، بلکہ سرمایہ داری نظام اور فرد کی انفرادیت کا سفر دو مختلف سمتوں میں جاری ہے، جسے عہدِ حاضر کا انسان جبر تلے آکر طے کرنے پر مجبور ہے، جب کہ سامراج اپنے سفر کو جاری رکھنے کے لیے مختلف ’’نظریاتی‘‘ راستے ہموار کرتا رہتا ہے۔

آج کی ریڈیکل اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی بھی اسی نظریاتی جنگ کی ایک کڑی ہے اور موجودہ بنیاد پرستی کا اصل ذمے دار سامراج ہے وہ چاہے ہندو ہے مسیحی یا یہودی ہے اور ان کا معاون و مددگار مسلمان ہے جس کی شناخت ایک زر خرید سے زیادہ نہیں ہے۔ مسلمان جہاں بھی شیطان کا مددگار بنا وہاں شیطان نے اُس کی دین کی نا درست تعبیر کے دروازے ہی سے نفوذ پیدا کیا اور اُس کو جھانسا دیا، جب کہ قرآن اور سیرت پیغمبر ﷺ اس تعبیر سے الٹ ہے جو یہ جاہل ملّا اور اس کے حواری کرتے ہیں، جس کا بنیادی سبب اندھی تقلید، خود تحقیق اور مطالعہ سے بے اعتنائی اور حق کی پیروی میں کاہلی، سستی آرام طلبی، عیش کوشی، آسانی طلبی اور غیر سنجیدگی ہے،اسی باعث مسلمان کو سامراج نے اپنا آلۂِ کار بنایا ہوا ہے۔ روشن خیالی فلسفیوں کے فلسفوں میں انسان دوستی کا عنصر نمایاں تھا ۔ ان کے فلسفوں میں علمیاتی کے برعکس اخلاقی پہلو فطرتِ انسانی کے قریب تر تھا۔ روشن خیال اپنے فلسفے کے حقیقی تضادات کی تحلیل کرتے ہوئے ان کو دباتے تھے، لیکن اس کو خالصتاًَ علمیاتی پہلو قرار دیتے تھے اور مخفی طور پر اپنے اقتصادی مفادات کیلئے استعمال کرتے تھے اور آج بھی کررہے ہیں۔

علمیاتی پہلو جس میں تعقل کی سربلندی کا پہلو نکلتا ہے، اسے سرمایہ داری نظام میں ’’انتظامی معاشرے‘‘ کے قیام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔تاہم بیسویں صدی کے فلسفی و دانشور مغربی درسگاہوں میں بھاری معاوضوں کے عوض سرمایہ داری کے فروغ کے لیے ایسی ایسی تھیوریوں کی تشکیل میں مصروف ہیں جو سامراج کے ظلم کو جواز فراہم کرتی ہیں اور ان میں سرِ فہرست ’’مابعد جدیدیت ‘‘اور ’’ لاتشکیل‘‘ ہے۔ ان کے تحت مسیحی و یہودی بنیاد پرستی کو خصوصاََ نظریاتی مضبوطی بخشی گئی ہے۔

مغربی بنیاد پرستوں اور سامراج کی بین المربوط چالیں یہ ہیں کہ وہ ایک طرف تو مسلمانوں اور تیسری دنیا کے لوگوں کو اپنے فلسفوں کے تناظر میں جدیدیت کے نعروں کے ذریعے آسانی سے بے وقوف بنا کر اپنے اقتصادی و معاشی مفادات حاصل کر رہے ہیں تو دوسری طرف مسیحی و یہودی بنیاد پرست نظریے کو بھی تحفظ فراہم کر رہے ہیں، اس کے برعکس مسلمان عملی نہیں صرف نظری حد تک ہی مذہبی ’خیالیات‘ پر انحصار کیے ہوئے ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ بنیاد پرست نہ ہوکر بھی مسیحی و یہودی بنیاد پرستوں کے نرغے میں’’دہشت گرد‘‘ بنا ہوا ہے اور اپنی شناخت کو ’ ’التوا‘‘ میں اس لیے رکھے ہوئے ہے کہ اس نے جدید علوم کو ترقی دے کر اپنے اسلامی اقدار اورسائنس اور منطق کے رشتے کے ساتھ، مشترک قدر کو نہ تو دریافت کیا ہے اور نہ ہی کبھی اس بنیاد پر استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمان یہ سمجھتا ہے ایسا کرنے سے اُس کی تاریخی یک رُخی بنیاد پرستی پر ضرب لگے گی اور اسے چھوڑنا پڑے گا۔ جس دن اس مشرک مسلمان نے اپنا یہ بت توڑ دیا تو بہت کچھ بہتر ہوجائے گا۔

اسی وجہ سے سب سے ضروری یہ ہے کہ ہم اپنی مذہبی تعلیمات اور اقدار کو سائنٹفک تحقیق سے مربوط کریں اور اپنے عقائد سے لیکر معاملات (سیاسی، اقتصادی، تہذیبی) کو جانچیں اور ان تعلیمات میں جعلی اور مفاد پرست شخصیات کی روایات و سنتوں کو ترک کریں اور دین کے ٹھیکیدار بنے ان تاریخی شخصیات کو اپنے ہمت اور حوصلے سے مسترد کردیں، یہ عمل ہمارے لیے نہ صرف اس دنیا میں سامراجی طاقتوں سے دور کرنے، خود کو سامراجی نہ بننے سے دور کرے گا بلکہ دنیاوی ترقی کے ساتھ اُخروی سعادت بھی دے گا اور فطری دین یعنی حق پرستی کی راہ پر ہمارے قدم استوار کرے گا جس میں ہماری نفسیاتی حالت خود اعتمادی، یقین، حوصلے ، قوت وغیرہ سے بھرپور ہوگی۔
 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 59374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.