ورلڈ ریفیوجی ڈے اور پاکستان میں افغان غیر قانونی تارکین وطن و پناہ گزین

ہر سال بیس جون کو عالمی ورلڈ پناہ گزین ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے انسانی تاریخ میں نقل مکانی کی جڑیں بہت دور تک پھیلی ہوئی ہیں بلکہ اس کی لپیٹ میں حال اور مستقبل بھی آجاتے ہیں نقل مکانی جنگی ہولناکیاں، قدرتی آفات، قحط، معاشی مسائل کی وجہ سے کی جاتی رہی ہیں1950تک پناہ گزینوں کے لئے کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی لیکن جنگ عظیم دوم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونے والی نقل مکانی اور انکے مسائل کے حل کے لئے14دسمبر1950ء میں اقوام متحدہ کے تحت UNHCRکا قیام عمل میں لایا گیا ٹھیک اگلے سال جولائی میں ورلڈ ریفیوجی کنونشن میں اس کے اصول و ضوابط کو فریم کیاگیا جس کے بعد 1967میں پروٹوکول ٹو ریفیو جی کنونشن میں باقاعدہ طور پر پناہ گزین کا اسٹیٹس دیا گیاUNHCRبہترین خدمات کے نتیجے میں1954میں نوبل پرائز کا حق دار قرار پایا۔UNHCRکی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پناہ گزینوں کی تعداد میں ہوشربا یا خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے جن میں اکثریت شام، عراق، برما ودیگر افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی ہے جس کی تعداد25ملین تک جاپہنچی ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسائلم حاصل کرنے والوں کی کل تعداد کا 12.5فیصد افغان باشندوں پر مشتمل ہے جوکہ پاکستان کے علاوہ ہے۔ UNHCRکے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا میزبان ملک ہے جہاں1.4ملین رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں جن کی قانونی مدت رواں ماہ30تاریخ کو پوری ہورہی ہے جس کے بارے میں پاکستان حکام نے متعلقہ اداروں کو آگاہ کردیا ہے پاکستان میں افغان پناہ گزین پانچ مختلف سیریز میں داخل ہوئے پہلی بار1978-79کی رشین جارحیت کے نتیجے میں تقریباً50لاکھ افغانیوں کا بوجھ پاکستان کو اٹھاناپڑا اس کے بعد 1992میں مجاہدین کی آپس کی خانہ جنگی کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور پاکستان کو جائے مسکن بنایا ۔1996میں طالبان کے کابل پر کنٹرول کے بعد ایک بار پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا اور پھر90کی دہائی کے آخر میں قحط سالی و خوراک کے فقدان کی وجہ سے بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین نے پاکستان کا رخ کیا اور پانچویں بار امریکی حملے کے بعد افغان نقل مکانی کرنے والوں کا سلسلہ ایک بار پھر سے شروع ہوگیا جنہیں نا تو رجسٹرڈ کیا گیا نہ ہی ان کا کوئی ڈیٹاUNHCRکے پاس موجود ہےUNHCRکے اعداد و شمار کے برعکس پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد اس کے کہیں گنا زیادہ ہے ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد60لاکھ سے زائد ہے ۔پاکستان دنیا میں پناہ گزینوں کو ہوسٹ کرنے والا نہ صرف بڑا بلکہ سب سے زیادہ لمبے عرصے کے لئے بوجھ اٹھانے والا ملک ہے ۔پاکستان ناتو1951 کے کنونشن کا سگنیٹری ہے نہ ہی1967کے پروٹوکول کا لیکن اقوام متحدہ کا ممبر ملک ہونے کے ناطے پناہ گزینوں کے قوانین کو ماننے کا پابند ضرور ہے UNHCRکی خود کی وضح کردہ اصطلاح کے مطابق پناہ گزین اور تارکین وطن دو الگ اصطلاح ہیں اس کے تحت اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو پاکستان میں موجود افغانوں کی اکثریت زیادہ تر غیر قانونی تارکین وطن پر مشتمل ہے جوکہ معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستان نازل ہوئے افغان پناہ گزین کے آنے کے بعد پاکستان میں بہت سی غیر اخلاقی و غیر قانونی اقدار بھی امپورٹ ہوئیں جن میں بھتہ خوری،اغوا برائے تاوان، اسمگلنگ، کار لفٹنگ، منشیات و اسلحہ کی ترسیل نمایاں ہیں افغان پناہ گزین و غیر قانونی تارکین وطن کی وجہ سے پاکستان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے جن میں دہشت گردی و دیگر بڑے جرائم سرفہرست ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی بڑی بڑی کاروائیوں میں افغان باشندوں کا براہ راست یا بالراست تعلق رہا ہے جیسا کہ افغانستان اس وقت بھارت ودیگر پاکستان دشمن قوتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ان کے لئے افغان باشندے پاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں اور عدم استحکام کے لئے افغان باشندے یا افغان پناہ گزین بہترین افرادی قوت و اثاثہ ہیں ۔کراچی سے اسلام آباد تک تاجر حضرات کو ناصرف افغانستان سے بھتے کی کالیں موصول ہوتی رہیں بلکہ بصورت دیگر سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں جس سے پاکستان میں تاجروں وسرمایہ کاروں کو غیر محفوظ ہونے کا احساس ہوا اور کافی لوگ اپنا سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل کرنے پر مجبور ہوئے ۔جرائم ودہشتگردی میں افغان پناہ گزین و غیر قانونی تارکین وطن کی خطرناک حد تک انوالو منٹ کے رد عمل میں حکومت نے جب ان کی واپسی کے لئے اقدامات کئے تو رد عمل میں افغان باشندوں نے دنیا میں پاکستان کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کرتے ہوئے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی اور افسوس کہ ہماری کچھ سیاسی جماعتیں ذاتی مفاد کی خاطر قومی مفاد کو روندتے ہوئے نظر آئیں اور مطالبہ کیا کہ افغان باشندوں کو پاکستانی شہریت دی جائے جن میں اے این پی ،اچکزئی گروپ، جے یو آئی (ف) وغیرہ سرفہرست ہیں جس کی وجہ صرف ووٹ بنک اور سیاسی مفادات ہیں اس ضمن میں پچھلے دو ادوار میں نادرا حکام پر مختلف بااثر سیاسی شخصیات افغان حکام کو شناختی کارڈ جاری کرنے کے لئے دباؤ اور سنگین نتائج کی دھمکیاں تک دیتی رہیں جسے باقاعدہ طور پر نادرا حکام نے وزارت داخلہ کو تحریری طور پر بھی آگاہ کیا جس کے بعد وزارت داخلہ نے ایکشن لیتے ہوئے ایسے شناختی کارڈوں کی بڑی تعداد کو بلاک کرنے کے احکامات بھی جاری کئے جس پر بھی انہوں نے سخت رد عمل دیا اس صورتحال کے برعکس ایران میں بھی تقریباً1.5 ملین سے زائد افغان پناہ گزین نے مسکن بنایا لیکن ایرانی حکام نے ان کی نقل و حرکت کو کیمپوں تک محدود رکھا اور شروع سے ہی ان پر کڑی نظر رکھی جبکہ پاکستان میں افغان باشندے بڑی بڑی جائیدادیں تک خرید چکے ہیں اور مختلف کاروبار پر ان کا مکمل کنٹرول ہے ۔پشاور میں ٹرانسپورٹ، قالین سازی، کاسمیٹکس وغیرہ پر افغان باشندوں کا ہی کنٹرول ہے۔کراچی ، اسلام آباد و ملک کے دیگر شہروں میں افغان باشندے نہ صرف مختلف جائیدادوں کے مالک ہیں بلکہ بڑے بڑے کاروبار آزادی سے کررہے ہیں۔ہوٹلنگ پر اسی فیصد سے زائد افغان شہریوں کا قبضہ ہے اور ہمارے افغان بھائیوں کی احسان فراموشی کا یہ عالم ہے کہ ناصرف پاکستان کے خلاف زہر اگلتے نظر آتے ہیں بلکہ PTMکی شکل میں حالیہ اٹھنے والی پشتونستان موومنٹ اور ملکی سلامتی اداروں کے خلاف پروپیگنڈہ بھی کرتے پھر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ افغانیوں نے روز اول سے ہی کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا۔UNHCRکا افغان باشندوں کے تحفظ کے لئے پاکستان پر دباؤ سمجھ سے بالا تر ہے ایک طرف پاکستان چالیس سال سے افغان باشندوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے دوسری طرف ان کی وجہ سے پاکستان کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔ افغان باشندوں سے زیادہ معاشی طور پر ہمارے اپنے لوگ پیچھے ہیں اس ضمن میں تھر میں غذائی قلت و پسماندگی کے نتیجے میں ہزاروں اموات ہوچکی ہیں اس کے علاوہ بلوچستان وملک کے دیگر علاقے شدید پسماندگی کا شکار ہیں اگر UNHCRکو افغان باشندوں کی اتنی فکر ہے تو انہیں بھارت و دیگر مغربی ممالک میں سیٹلڈ کرا دے۔پاکستانی حکام کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ دہشت گردی کے ناسور سے ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ سکے۔
 

Inshal Rao
About the Author: Inshal Rao Read More Articles by Inshal Rao: 143 Articles with 89985 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.