جسم امانت ، مرضی اللہ کی

جسم امانت ، مرضی اللہ کی

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں " کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے کسی گوشے میں بیٹھی، پردہ نشین ، کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیاءدار تھے۔اور جب آپ کسی چیز کو ناپسند فرماتے تو ہم آپ علیہ السلام کے چہرہ انور کے آثار سے پہچان لیتے۔

قرآن کریم کی سورہ قصص میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کرتے ہوۓ آیت نمبر 25 میں
اللہ تعالیٰ نے عورت کی شرم و حیاء کو بطور خاص ذکر کیا ہے کہ یہ عورت کا اصل زیور ہے ۔ اور حیا و حجاب سے بے نیازی اور بے باکی عورت کے لئے شرعاً بھی ناپسندیدہ ہے اور عرفاً بھی ، یہی وجہ ہے کہ پردے کے باقاعدہ احکام نہ ہونے کے باوجود اُس وقت بھی خواتین شرم و حیا کے لباس میں رہتی تھیں، اور مردوں سے معاملات کرتے وقت شرم و حیاء کو پوری طرح ملحوظ رکھتی تھیں ، کہ یہی عورت کا نیچرل سین ہے -

شروع میں ذکر کردہ حدیث میں ایک تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال حیاء کا بیان ہے اور دوسرا یہ بھی معلوم ہوا کہ حیاء صنف نازک کا ایک خاص وصف ہے خاص کر کنواری لڑکی تو پیکر حیاء ہوتی ہے ۔
علماء فرماتے ہیں کہ حیاء ایسی پاکیزہ صفت کا نام ہے جو انسان کو ناپسندیدہ اور بری چیزوں کے چھوڑ نے پر آمادہ کرے ۔

الحمدللہ ہمارے پاکستانی معاشرے میں حیاء ، پاکدامنی اور پردے کو کچھ این جی اوز اور میڈیا کی طرف سے بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کی بیسیوں کوششوں کے باوجود اب بھی عوام کی اکثریت جزء ایمان جبکہ بے حیائی اور فحاشی کو انتہائی معیوب اور اسلامی اقدار کے منافی سمجھتی ہے ، افسوس کہ ہمارے ہاں سیکولر طبقے کے حضرات و خواتین سے اسلامی اقدار اور مشرقی کلچر کی یہ مقبولیت کسی طرح ہضم نہیں ہورہی یہی وجہ ہے کہ حیاء کے اس وصف کو ہر دور میں صنفِ نازک سے مختلف حربوں کے ذریعے چھیننے کی کوشش کی جاتی رہی ہے شروع شروع میں "عورتوں کے حقوق " کے دلفریب نعرے کے ذریعہ مسلمان خواتین کو دھوکہ دیا گیا ، پھرآزادی نسواں کا دلکش نعرہ لگا کر بہت ساری سادہ لوح خواتین کے سر سے حیاء کی چادر اتار دی گئی ،اُن کے چہروں سے نقاب نوچ لئے گئے ،آنکھوں سے شرم وحیاء لوٹ لی گئی، بر سرِ محفل نچائی گئیں، اپنے کاروبار کو وسعت دینے کے لئے اشتہارات کی زینت بنادی گئیں اور کھیل کے میدانوں کو اُن کے ذریعے سے سجایا گیا اور اب "میرا جسم میری مرضی" جیسے بیہودہ اور ذومعنی نعروں کے ذریعہ مسلم خواتین سے یہ وصف چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے ابھی حال ہی میں آٹھ مارچ 2019 کو کچھ این جی اوز کی سیکولرز خواتین نے مختلف مقامات پر مارچ اورمظاہرے کئے
پلے کارڈز اٹھائے یہ لبرلز آنٹیاں کیا چاہتی تھیں اس کی وضاحت اُن پلے کارڈز پر لکھی گئیں تحریروں نے کردی ہے کہ جس وقت عورت نے ہر طرح کے قید و بند سے مکمل طور پر آزاد ہوکر پھٹی جینز اور شرٹ پہن لی تو اُس کو سارے حقوق مل جائیں گے-

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام نے عورت کے حقوق محفوظ کر دئيے تھے , اور صنفِ نازک کو معاشرے میں قابل احترام مقام و مرتبہ عطا کر چکا ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ہمارے معاشرے نے عورت کو وہ مقام و مرتبہ اور حقوق نہیں دئیے جو اسلام نے مقرر کئے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا لبرلز آنٹیاں جو کچھ مانگ رہی ہیں وہ واقعی حقوق کہلائے جانے کے قابل ہیں ؟ یا پھر سارے حقوق پھٹی جینز اور مختصر شرٹ میں چھپے ہوئے ہیں؟

کیا اس مارچ میں عورت کی تعلیم پر بات ہوئی؟

وراثت پر ہوئی؟ کاروکاری پر ہوئی؟ قرآن سے شادی کرنے پر ہوئی ؟ گھریلو تشدد پر ہوئی ؟ بیوہ سے شادی معیوب سمجھنے پر ہوئی ؟ کسی لڑکی کے نکاح کے وقت اس کی پسند اور ناپسند پر ہوئی ؟ اور کیا چند ذاتی نوعیت کے مسائل اور خواہشات کو پورے ملک کی خواتین کے مسائل اور مشکلات کی شکل میں پیش کرنے سے ہمارے ملک کی غلط پکچر دنیا کے سامنے نہیں گئی ؟ یہ چند مھٹی بھر سیکولرز خالائیں آخر چاہتی کیا ہیں ؟ وہی جس کی تشریح مارچ میں ان کے ساتھ مو جود ایک لبرل بابا جی نے اچھے طریقے سے کردی تھی، غالباً وہیل چیئر پر بیٹھے باباجی نے فرمایا: جو کچھ تم کر رہی ہوں یہ بہت کم ہے ، نکاح کو ہی ختم کرنا پڑے گا " یعنی بقول بابا جی عورت کی ساری پریشانیوں اور مشکلات کی جڑ نکاح ہے جب تک عورت کو نکاح کے بندھن سے آزاد نہیں کیا جائے گا یہ مشکلات اور مسائل جوں کے توں رہیں گے"

بعض لوگ لبرل باباجی کو خواہ مخواہ ٹھوک رہے ہیں کہ انہوں نے نکاح پر اعتراض کیا لیکن آنٹیوں کے پریکٹیکل کو دیکھ کر اس سے بہتر تشریح اور وضاحت اور ہو ہی نہیں سکتی تھی جو بابا جی نے فرمائی ، بابا جی خود تو بغیر نکاح کے پیدا نہیں ہوئے ہوں گے اور نہ ہی ہم ایسا سوچ سکتے ہیں لیکن لگتا ہے باباجی اپنے پیرنٹ سے سخت نالاں ہوں گے کہ آخر آپ کو بھی ایک دوسرے کی آزادی چھیننے کی کیا ضرورت پڑی تھی؟ یوں بغیر نکاح کے بھی تو دنیا میں آیا جا سکتا ہے -

اسلام میں میرا جسم تو کیا میری زندگی بھی میری ملکیت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام میں خود کشی کی اجازت نہیں ہے۔ اب بھی علمائے کرام کی بڑی تعداد اعضا کو عطیہ تک کرنے کی اجازت نہیں دیتی ، کیونکہ جب انسان کے اعضا اُس کی ملکیت ہی نہیں تو پھر دوسروں کو عطیہ کیسے کئے جا سکتے ہیں ، انسان کا جسم اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے جس کے متعلق آخرت میں پوچھ گچھ ہو گی۔ افسوس یہ ہے کہ جو لوگ "میرا جسم میری مرضی" کا نعرہ لگاتے ہیں و ہ دین کے احکامات اور تشریحات کو تسلیم ہی نہیں کرتے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو معاشرے "میرا جسم میری مرضی" کے فارمولے کو یک طرفہ طور پرمکمل قبول کرتے ہیں، وہاں عمومی طور پر جسم فروشی ایک باقاعدہ قانونی کاروبار کی شکل میں نظر آتی ہے اور ظاہر ہے اسلام اس کو برداشت نہیں کرتا۔

آج اگر ایک عورت میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگاسکتی ہے تو کل کلاں مرد بھی کسی عورت کو گھورنے پر کہہ سکتا ہے کہ میری آنکھیں ، میری مرضی ۔ یا یہ کہ میرے ہاتھ ہیں اور میری مرضی کہ تمہیں جس طرح چاہوں چھووں ٫ وہ کِہسکتا ہے کہ:
نا تم دل کی سرحد کو چھوو دشمن کی طرح ،
نا ہم تمہیں چائے پلائے ابھینندن کی طرح ۔

یہی وجہ ہے کہ کبھی بر سرِ بازار اُسکو چھیڑا جاتا ہے اور کبھی ٹرینوں اور بسوں میں اسکے ساتھ زیادتیاں کیجاتی ہیں، جب اُسکو خود بن سنور کر اور باہر نکل کر دوسروں کو اپنی طرف مائل کرنے میں شرم نہیں آئی تو پھر بے حیا اور اوباش نوجوانوں سے خیر کی کیا توقع کی جاسکتی ہے !

کسی عورت کا اپنے جسم کی اس طرح نمائش کرنے (جو دوسروں کی طبیعت اور مرضی پر اثرانداز ہو ، باعثِ دعوت ، شہوت اور تکلیف ہو) کی حوصلہ افزائی نہ شرعاً کیجا سکتی ہے اور نہ عقلاً ، عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف شرٹ ، سکرٹ اور کھلے بالوں کے ساتھ اپنے جسم پر اپنی مرضی جتائی جا رہی ہے اور دوسری طرف چادر اور چاردیواری کا انتخاب کرنے والی خواتین کو گلی سڑی لاشیں قرار دیکر اُن سے اُن کی مرضی کو چھینا جارہا ہے، یعنی جو اختیار یہ سیکولرز خواتین اپنے لئے چاہتی ہیں، اسے دوسروں کو دینے کے لئے تیار نہیں ، صرف اس لئے کہ وہ ان کے مادر پدر آزاد نظرئیے کے منافی ہے-

سوال یہ ہے کہ جب آپ خود چادر اور چاردیواری سے اپنی مرضی سے باہر نکل چکی ہیں ، شرٹ اور سکرٹ زیبِ تن کر چکی ہیں ،حیا اور ردائے حیا کو پرے پھینک چکی ہیں تو دیگر اسلام پسند خواتین کو اُن کی مرضی سے چادر اور چاردیواری کے اندر رہنے کی اجازت نہ دینا چہ معنی دارد؟ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

اس نعرے پر اگر گہرائی سے غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ یہ صرف عورت کی آزادی کے لئے نہیں بلکہ اسلام کی حدود اور پاپندیوں سے مکمل آزادی کے لیے ایجاد کیا گیا ہے-

کاش یہ ناداں ، لبرلز خالائیں سمجھ جاتیں کہ اسلام نے اُنکی آبرو اور حرمت کا کتنا خوبصورت انتظام فرمایا ہے! اسلام عورتوں کےحقوق کاضامن ہے ، اسلام نے عورت کو دیگر حقوق دینے کے ساتھ ساتھ یہ تعلیم بھی دی ہے کہ شرم و حیا عورت کا سب سے قیمتی زیور ہے ، اسلام کہتا ہے حیاء ایمان کا شعبہ ہے ، حیاء سراپا خیر ہے ، ہر دین کا امتیازی وصف ہوتا ہے اور اسلام کا وصف حیا ہے،حیا اور ایمان باہم ملے ہوۓ ہیں جب ایک اٹھا دیا جاۓ تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے۔

گویا اسلام کی نظر میں تو شرم و حیا عورت کا سب سے بڑا حق ہے جو ہر صورت میں اسکو ملنا چاہیے نہ کہ بے شرمی اور بے حیائی ! کاش وہ وقت آجائے کہ ہماری یہ لبرلز خالائیں اور بہنیں حجاب اور پردے کے لئے بھی اتنا جتن کریں جتنا کہ بے حیائی اور عریانی پھیلانے کے لئےکر رہی ہیں،ہماری لائف میں کتنے ایسے مواقع آتے ہیں جہاں ہم کسی وجہ سے اپنے اختیار سے یا مجبوراً اپنی مرضی استعمال نہیں کرسکتے ، بچوں کی خاطر والدین کی خاطر ، بیوی یا شوہر کی خاطر ، دوستوں ، رشتداروں اور مہمانوں کی خاطر ، یا قومی ، ملکی اور انٹرنیشنل قوانین کی وجہ سے، تو پھر اللہ تعالیٰ کے احکامات کے سامنے اپنی مرضی قربان کر کے سرِ تسلیم خم کرنے میں آخر کیا حرج ہے؟

مسلمان تو اللہ تعالیٰ کی خاطر جان بھی دے دیتا ہے خواہش اور مرضی کو قربان کرنا کونسی بڑی بات ہے-

Mufti Abdul Wahab
About the Author: Mufti Abdul Wahab Read More Articles by Mufti Abdul Wahab: 42 Articles with 36858 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.