اداس اداس اداسیاں

اداسی کی کوئی تو آخری حد ہو،
کہ جس کے بعد، ممکن نا رہے کچھ اور غم سہنا۔۔۔۔

اداس رہنے کا کوئی ایک وقت متعین نہیں ہوتا ہے.....اداسی بس اداسی ہے.....کب، کہاں، کیسے آ جائے حتمی طور پہ کوئی نہیں بتا سکتا ہے..... طلوع آفتاب ہو یا غروب آفتاب دونوں میں فلک پہ چھائی سرخی دل کے موسم پہ اثرانداز ہوتی ہے.......مری کی یخ بستہ ہواؤں میں ایک گرم کافی کا مگ بھی اداسی کا سبب بنتا ہے۔۔۔۔۔۔کاغان میں برف باری سے بچنے کے لیے آگ کے گرد بیٹھنا اور جھیل سیف الملوک کے کنارے کھڑے ہو کر دور تلک دیکھنا بھی اداسی ہے۔۔۔۔۔۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اداسی کا احساس تب ہی ہوتا ہے جب آپ اکیلے ہوں۔۔۔۔۔۔۔میں نے مال روڈ میں لوگوں کے ہجوم کے درمیان بھی اداسی کو محسوس کیا ہے۔۔۔۔۔ایک party میں، جہاں لوگ ہی لوگ تھے۔۔۔۔میں نے میز پہ بیٹھے اداسی کو چلتے پھرتے دیکھا ہے۔۔۔۔۔

کلاس میں لیکچر کے دوران، اداسی بال کھولے بار بار دھیان بھٹکا رہی ہوتی تھی۔۔۔۔۔ہجر تو اداسی سے اٹا ہوا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔وصل کے لمحات میں دوسرے کو اچانک کھونے کا ڈر بھی اداس کر دیتا ہے۔۔۔۔۔۔بعض اوقات ہمارے پاس الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ ہوتا ہے لیکن کسی کو دلاسہ دینا ہو تو ایک لفظ زبان سے نہیں نکلتا ہے۔۔۔۔۔یہ بےبسی ہے پر اداس کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

مجھے یاد ہے یونیورسٹی میں ہماری فٹ بال کی ٹیم فائنل جیت گئی تھی۔۔۔اس وقت مجھے اپنی ٹیم کی جیت سے زیادہ دوسری ٹیم کی ہار کا دکھ ہوا جو اداسی کا سبب بنا۔۔۔۔۔۔لائبریری میں کتابوں کے اندر رکھے گئے پھول جو کہ خود مرجھا گئے ہوتے ہیں لیکن ان میں سے ابھی تک بھینی بھینی خوشبو آ رہی ہوتی تھی مجھے اداس ہونے پہ مجبور کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

پھر اس نے دور درختوں کے جھنڈ کو دیکھتے ہوئے کہا اب یہ مت کہنا کہ یہ بےضرر سے چپ چاپ کھڑے ہوئے درخت بھی تمہیں اداس کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔

میں اس کے سوال پی مسکرایا اور بولا۔۔۔۔۔۔درخت تو اداسی کا گڑھ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے نجانے کتنے لوگوں کے عروج و زوال دیکھے ہیں۔۔۔۔۔کتنے ہی لوگوں نے انکو اپنے غم سنا کر اپنے من کا بوجھ ہلکا کیا ہو گا۔۔۔۔۔۔غم کے بوجھ سے انکے پتے کمزور ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب وہ ٹوٹ جاتے ہیں۔۔۔۔۔صرف ٹوٹنے سے ہی بات ختم نہیں ہوتی ہے۔۔۔۔تم نے کبھی پتوں کا کرلانا سنا ہے؟؟؟ یہ جب قدموں کے نیچے آتے ہیں ان کی سسکیاں گونجتیں ہیں۔۔۔۔۔پر انکی آواز میں عجیب سا درد محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔

اس نے ہنستے ہوئے شرارت آمیز لہجے میں کہا کہ یہ تو تمہارا فلسفہ ہے۔۔۔۔۔مجھے تو اس پہ نہیں یقین۔۔۔۔۔اداسی جیسا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔۔۔۔۔یہ تو بس بےکار لوگوں جا شغل ہے۔۔۔۔۔مجھے دیکھو میں تو کبھی نہیں اداس ہوئی۔۔۔وہ کھلکھلا کے ہنس پڑی۔۔۔۔

اور میں اس کی کئی راتوں کی جاگی ہوئی آنکھوں (جو کہ کچھ کچھ نم بھی ہو رہیں تھیں) کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

A Rehman Khan
About the Author: A Rehman Khan Read More Articles by A Rehman Khan: 5 Articles with 8722 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.