مضبوط سہارے کا نظریہ

 نوٹ: یہ ایک کثیر الجہتی مضمون ہے جس میں ہم اس تصور یا نظریئے کہ ایک انسان کو پرسکون زندگی گزارنے کے لئے کسی مضبوط سہارے کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے پر بات کریں گے۔ اس مضمون کو کئی ایک مثالوں سے بھی مزین کیا جائے گا ۔ امید ہے کہ قارئین اسے پسند کرنے کے ساتھ ساتھ سراہیں گے بھی۔
نظریہ
پر سکون زندگی گزارنے کے لئے انسان کو کسی نہ کسی مضبوط سہارے کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔
یہ بات ویسے تو اتنی پیچیدہ نہیں کہ اسے سمجھنے یا سمجھانے کے لئے بہت زیادہ مثالوں یا بحث کی ضرورت ہو لیکن اس کے متنوع پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لئے اس پر چند صفحات کی بات کر لینا مناسب لگتا ہے۔
ایک شخص کو رہنے کے لئے ایک مضبوط مکان یا عمارت کی ضرورت ہوتی ہے جو اسے ہر طرح کے موسموں اور حالات میں پناہ دے سکے اور اس کی حفاظت بھی کرے۔ ایک مضبوط عمارت کا آغاز ، بنیاد سے ہوتا ہے۔ بنیاد کا مضبوط ہونا اس کی ’اوور آل‘ مضبوطی کے لئے نا گزیر ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ مکان مضبوط ہو لیکن اس کی بنیاد کمزور ہو،۔ایک مضبوط بنیاد پر ایک مضبوط دیوار تعمیر کی جائے گی تا کہ اس پر مضبوط چھت ڈالی جا سکے۔ ایک دیوار اپنی طاقت بنیاد اور مضبوط اینٹ سے لے گی۔ کچی اینٹ مضبوط عمارت نہیں بنا سکتی۔ اسی طرح کمزور دیوار ایک بھاری اور مضبوط دیوار کو سہارا نہیں دے سکتی۔ اس لئے دیوار کا مضبوط ہونا ، مضبوط چھت کے لئے ضروری قرار پا تا ہے۔ اس طرح ایک مضبوط سہارا دوسرے پہلو یا حصے کی مضبوطی کو یقینی بناتا ہے۔
ایک درخت کو دیکھ لیں، جب تک تنا طاقت ور نہیں ہو گا ، ایک مضبوط تناور درخت نہیں بن سکے گا۔ مضبوط تنے کو سہارا دینے کے لئے ایک مضبوط جڑ کی ضرورت ہو گی جس کے بغیر وہ مضبوط تنا اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ مضبوط تنے سے شاخیں پھوٹتی ہیں جن پر برگ و بر لگتے ہیں۔ یہ پھول اور پتے جو اپنی ہستی میں تو بہت کمزور اور نازک ہوتے ہیں کسی مضبوط تنے اور مضبوط شاخ سے تعلق کی بدولت اونچائی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور اپنا سر فخر سے بلند کرتے ہیں۔ اگر یہ مضبوط سہارا کاٹ دیا جائے یا ان کا تعلق اس مضبوط سہارے سے کسی طرح کٹ جائے تو وہ ہواؤں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور پھر خاک نشین ہو جاتے ہیں ان کی سر بلندی اور وقار بر قرار نہیں رہتا۔ وہ اپنی کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر وقت کی طاقت ان سے جیسے مر ضی سلوک کر سکتی ہے۔
انسانی وجود کو کچھ دیر کے لئے زیرِ غور لاتے ہیں۔ اس وجود سے اگر ہڈیوں کا ڈھانچہ نکال دیا جائے تو اس کی طاقت مٹی کے ایک ڈھیلے سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ ماس کی طاقت کا انحصارم ہڈی کی طاقت پر ہے جتنی ہڈی مضبوط ہو گی، ماس اور جسم میں بھی اتنی ہی زیادہ طاقت محسوس ہو گی اور اگر ماس کا ہڈی سے تعلق منقطع کر دیا جائے تو ماس کی طاقت زیرو ہو جاتی ہے۔ ہمارے دانت ہمیں کھانا کھانے، سخت چیزوں کو چبانے اور توڑنے میں مدد دیتے ہیں اور جب یہ دانت رخصت ہو جاتے ہیں تو منہ کی طاقت بس دلیہ وغیرہ کھانے’ جوگی‘ رہ جاتی ہے اور وہ بھی بے مزہ ہو کر۔ اسی طرح ہمارے ہاتھوں کی طاقت ہماری ہڈیوں اور ناخنوں کی مرہونِ منت ہو تی ہے ،اگر یہ ہڈیاں اور ناخن ساتھ دیں تو نہ ہاتھ کام کر پاتے ہیں ا ور وہ کسی چیز کو پکڑنے یا توڑنے کی طاقت سے عاری ہو جاتے ہیں۔
مضبوط سہارے کی اس نفسیات کے تحت انسان نے کیا کچھ کیا :
۱۔ خاندان کی تخلیق
۲۔ ذات اور قبیلے کا فروغ
۳۔ علاقائی تعصبات
۴۔ لسانی تعصبات
۵۔ مذہبی تعصبات
۶۔ سیاسی تعصبات
۷۔ ممالک کا وجود
۸۔ طاقت کا حصول
۹۔ اقوامِ متحدہ کا وجود
۱۰۔ معاشی، دفاعی بلاکوں وغیرہ کا وجود
۱۱۔ بین الاقوامی اتحاد اور اتفاق کی ضرورت
۱۲۔ روحانیت کی ضرورت
۱۳۔ سماجی سوسائٹیوں کی ضرورت۔۔۔ادب، کاروبار وغیرہ کے حلقے، تنظیمیں وغیرہ
مضبوط سہارے کے حصول کے لئے انسان زندگی بھر جستجو اور سعی میں رہتا ہے۔ اوپر ترتیب دئے گئے عنوانات کو ایک ایک کر کے زیرِ بحث لانے کی کوشش کرتے ہیں تا کہ بنیادی نظریہ اور خیال زیادہ واضح اور راسخ ہو سکے۔
انسان در اصل اپنی فطرت، جبلت اور حیثیت میں کمزور واقع ہوا ہے اس کی کمزوری ہے کہ اس کے ساتھ حادثات پیش آتے ہیں یا آ سکتے ہیں، پھر اس کو امراض کا سامنا رہا ہے اور رہتا ہے۔ کوئی بیماری یا اٹیک اس پر کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔ انسان کی سب سے بڑی کمزوری اس کا مر جانا ہے۔ اس پر موت کا ہر دم پہرا رہتا ہے جو اسے کسی بھی وقت اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔ دراصل اس کی ان فطرتی کمزوریوں کی بنا پر اسے ہر وقت کسی مضبوط سہارے کی ضرورت رہتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس کی سماجی زندگی بھی بہت سے تقاضے کرتی ہیں جن کی وجہ سے اسے مضبوط سہاروں کی ضرورت رہتی ہے۔ ہم اس پر اوپر بیان کردہ پہلوؤں کے حوالے سے بات کریں گے۔
خاندان کی تخلیق ، موجودہ مغربی دنیا کو کسی حد تک چھوڑ کر، ہمیشہ انسانی معاشروں میں جز وِ لازم رہا ہے۔ ویسے تو ایک حد تک جنگلی حیات میں بھی خاندان کا تصور پایا جاتا ہے اور وہ بھی جنگل کے خطرات کے پیشِ نظر ہی وجود میں آیا لگتا ہے۔ جو جانور شکار کرتے ہیں یا مضبوط ہوتے ہیں وہ چھوٹے گروہوں میں ہوتے ہیں اور جو جانور شکار ہوتے ہیں وہ بڑے گروہوں یا خاندانوں میں پائے جاتے ہیں جیسا کہ شیر اور ہرن کے خاندان۔ اسی طرح ہاتھی کا خاندان، زیبروں کے خاندان وغیرہ۔ سماجی طور پر انسان کو خاندان کی ہمیشہ ضرورت رہی ہے۔ خاندان کے رشتوں کو مذاہب نے مقدس قرار دے کر صلہ رحمی کے ضابطے کو تقویت دی ہے۔ویسے فطرتی طور پرانسان کو اپنے بچوں سے محبت ہوتی ہے اور بچوں کو ماں باپ سے محبت ہوتی ہے۔ بچپن میں ماں باپ ، بچوں کے مضبوط سہارے کا کام کرتے ہیں اور وہ زندگی کے ہر معاملے اور مسئلے پر اپنے والدین کی مدد، حمایت اور سہارے کے طلبگار رہتے ہیں۔ بہت سارے بچوں کے تو آئیڈئل بھی ان کے والدین ہی ہوتے ہیں۔ انسان جب جوانی کی زندگی میں داخل ہوتا تو اسے سہارے کی کم سے کم ضرورت ہوتی ہے۔ وہ صحت کی بہترین حالت میں ہوتا ہے جہاں اسے سہارے کی کوئی ضرروت نہیں اس لئے اس عمر میں اس سے بہت سی خرابیاں بھی سر زد ہو جاتی ہیں جیسا کہ ماں باپ کی پرواہ نہ کرنا، بہن بھائیوں سے تعلق توڑ لینا وغیرہ۔ اور جب وہ بوڑھا ہوتا ہے تو ایک بار پھر اسے سہارے کی شدید ضرورت پڑتی ہے۔ وہ کسی لاٹھی کا سہارا لیتا ہے، کسی سٹینڈ کا سہارا یا کسی شخص کا سہارا اس کی مجبوری بن جاتا ہے۔ اس کے رویئے بھی جوانی کی نسبت عاجزی اور انکساری والے ہو جاتے ہیں ۔اس کے خاندان کے متعلق رویئے بدل جاتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو وہ نصیحتیں کر رہا ہوتا ہے جن پر خود اس نے جوانی میں عمل نہیں کیا ہوتا۔ خاندان انسان کے پہلے مضبوط سہارے کے طور پر سامنے آتا ہے۔
قبیلہ اور ذات برادری کا تصور اور وجود بھی انسان کے مضبوط سہارے کی تلاش اور موجودگی کے احساس کے تناظر میں ہے۔ ایک خاندان ایک محدود سہارا ہے لیکن سماجی زندگی میں انسان کو بڑے گروہوں سے مقابلے کی نوبت آتی ہے جن کے آگے ایک خاندان کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔ ایک خاندان چند افراد پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ برادری اور قبیلہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں افراد اور آج کل تو لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں ذاتیں اور قبیلے اپنی افرادی قوت رکھتے ہیں ۔ جو کہ ان کے نام کے ساتھ منسلک ہو کر نام کی طاقت اور تعلق میں اضافہ کرتے ہیں۔ انسان کی ذاتیں، قبیلے وغیرہ مشرق میں زیادہ مضبوط اور مستحکم رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ مغرب کچھ صدیاں پہلے قبیلوں کے چکر سے نکل کر قومی دھاروں میں آ گیا اور اسے قبیلوں کی ضرورت نہ رہی جب کہ ہماری سوسائٹی ابھی تک قومی دھاروں کی بجائے ذاتوں اور قبیلوں کا شکار چلی آ رہی ہے جس کا مظاہرہ لوگ فیس بک کر بھی کرتے ہیں جس میں وہ اپنی ذات اور قبیلے کی دوسری ذاتوں اور قبیلوں پر برتری کا اظہار بڑے فخر اور مان سے کرتے ہیں جس سے ان کی سوچ کی ترجمانی ہوتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے لڑتے ہیں تو مخالف کو ذات اور قبیلے کا طعنہ اور گالی دیتے ہیں اور دوسرے قبیلہ یا ذات والے اس کے جواب میں اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہے۔ اس طرح ذاتوں اور قبیلوں کی لڑائی مشرق میں ابھی جاری ہے اس لئے کسی نہ کسی ذات اور قبیلے کا سہارا لینا ضروری سمجھا جاتا ہے۔
علاقائی تعصب : کبھی کبھی بات ذات اور قبیلے سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے اور ایک بڑے علاقے تک پھیل جاتی ہے۔ اور انسان اس علاقے کو اتنی محبت یا اپنائیت دیتا ہے یا دلی اور ذہنی طور پر اس کا سہارا لینے کی کوشش کرتا ہے کہ دوسرے علاقے اور وہاں کے لوگ اسے کمتر لگنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے علاقے کی محبت میں دوسرے علاقے سے نفرت اختیار کر لیتا ہے۔یہ بات اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک ان علاقوں کا باہمی اتصال نہ کر دیا جائے یا لوگ کسی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کو فروغ نہ دے لیں۔ مثلاً پاکستان میں کبھی کبھی سندھی، بلوچی، پختون وغیرہ کی بات چل نکلتی ہے تو سننے میں آتا ہے کہ لوگوں میں صوبائی تعصب بھی بہت زیادہ ہے لیکن جب کرکٹ میچ ہو یا بھارت سے کسی قسم کا کلیش سامنے آئے تو پورا پاکستان متحد بھی نظر آتا ہے۔ایسے ہی زمینی یا سماوی آفات کی صورت میں پورا پاکستان ان علاقائی تعصبات سے آزاد نظر آتا ہے۔ شاید اس وقت انسان کو بڑے سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
لسانی تعصبات بھی انسان کی اسی سہارا تلاشی کی بنیاد پر فروغ پاتاہے۔ لسانی تعصبات بھی علاقائی تعصبات جیسے ہوتے ہیں اور اکثر علاقائی بھی ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی علاقائی نہیں بھی ہوتے صرف لسانی ہوتے ہیں جیسا کہ کراچی میں ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے لوگ آباد ہو گئے پھر ان کے اندر ایک لسانی تعصب ابھارا گیا کہ وہ اردو سپیکر ہیں۔ اب ان کے پاس اپنا کوئی علاقہ تو نہ تھا لیکن ان کی پہچان کا بنیادی عنصر ان کی لسانی تخصیص ہی تھا۔ ان کو اپنی بقا اور سلامتی کے لئے جو خدشات و خطرات در پیش تھے ان کے پیشِ نظر انہوں نے مہاجر کارڈ کا استعمال کیا اور اپنی سلامتی اور ترقی کے لئے اس اجتماعی سہارے کو ضروری سمجھا۔ اس لسانی انفرادیت میں ان کے دل کا سہارا اور مضبوطی کا احساس شامل تھا۔ دنیا میں اکثر لسانی اقلیتیں اپنی انفرادیت آپس میں تعلقداری میں ہی سمجھتی ہیں اور اس میں ان کے دل کی تقویت بھی ہوتی ہے، جب انسان اپنے لوگوں سے مایوس ہوتا ہے تو اپنے ہم زبانوں سے دور چلا جاناچاہتا ہے، وہ اس کیفیت میں بکھر جانا بھی چاہتا ہے اور اپنے سہاروں کو خیر باد کہہ دینا چاہتا ہے:
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو، اور ہم زباں کوئی نہ ہو
بے درو دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
اورا گر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو غالبؔ
مذہبی تعصبات بھی انسانی دلوں کا ایک بہت بڑا سہارا ہیں۔ انسان مذہب کے ساتھ اپنے جذبات کسی بھی اور غیر مادی چیز سے زیادہ منسلک کرتا ہے۔ اکثرو بیشتر یہ مذہب اسے اپنے والدین اور آبا و اجداد کی طرف سے ملا ہوتا ہے جن سے انسان کو سب سے زیادہ عقیدت اور محبت ہوتی ہے اوراصل میں یہ ماں باپ کی محبت ہی ہوتی ہے جو مذہب میں ڈھل جاتی ہے اور انسان ساری زندگی اس مذہب کے ساتھ منسلک رہتا ہے۔ مذہب کا یہ سہارا ہر مذہب کے ماننے والے کو میسر آتا ہے اور سب سے بڑا ہوتا ہے۔ زمینی و سماوی آفات و بلیات میں بھی انسان مذہب کی طرف رجوع کرتا ہے اور انسانوں کے طرف سے ملنے والی مشکلات میں بھی ہم مذہب ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہیں اور ایک دوسرے کی اخلاقی ، مالی اور سیاسی معاونت بھی کرتے ہیں۔آج کل مذاہب بین الا قوامی ہو چکے ہیں ایک مذہب کے ماننے والے دنیا کے ہر بڑے ملک میں آباد ہو چکے ہیں۔ ایک عیسائی شخص کو یہ بات سہارا دیتی ہے کہ اس کے ہم مذہب دنیا میں ہر جگہ ہیں، اسی طرح ایک مسلمان کو یہ بات سہارا دیتی ہے کہ باقی دنیا کے ساتھ ساتھ یورپ کے ہر ملک میں بھی مسلمان موجود ہیں ان کی علاقائی کمیونٹی بھی وجود میں آ چکی ہے اور ان کے بہت سے مسائل کا حل بھی وہاں موجود ہے۔
سیاسی تعصبات جمہوریت کے اس دور میں بہت عام ہو چکے ہیں۔ جب جمہوریت کا ماحول نہیں تھا تو انسان سیاسی طور پر مختلف پارٹیوں میں منقسم نہیں ہوتے تھے۔ ان کے تعصبات مذاہب، فرقوں اور علاقوں کی بنیاد پر ہی فروغ پاتے تھے۔ لیکن اب تقریبا ً جمہوری ملک میں انسان سیاسی طور پر بھی تقسیم ہوتا ہے، تعصب اختیار کرتا ہے یا اپنے دل کا سہارا ڈھونڈتا ہے۔ آج کا دور زیادہ سے زیادہ نظریات کا دور ہے اس لئے انسان کسی نہ کسی نظریئے یا نقطہ نظر کے پیشِ نظر کسی نہ کسی پارٹی میں اپنے ذہن اور نظریئے کی تسکین پاتا ہے اور وہ اس گروہ یا سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی کو فروغ دیتا ہے۔ کبھی کبھی وہ اس تعلق میں شدت بھی اختیار کرتا ہے اور اپنے مخالفوں کو طنز اور دشنام کا نشانہ بناتا ہے۔ کبھی کبھی اپنی پارٹی کے لئے بڑی سے بڑی قربانی بھی دیتا ہے اور کئی ایک رشتے اور ناطے بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ مختصر طور پر یہ کہ اسے کسی سیاسی شخصیت، پارٹی یا گروہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس سے وہ اپنے دل کا اطمینان اور تسلی حاصل کرے۔
ممالک کا وجود بھی ایک انسان کا قلبی و ذہنی سہارا ہوتا ہے جس کے ساتھ بعض اوقات مذاہب کا تصور منسلک ہوتا ہے اور بعض اوقات نہیں ہوتا۔ جیسا کہ بعض مذہبی ممالک ہیں اور بعض صرف علاقائی وحدت ایک ملک کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ کسی شخص کو یہ سہارا کہ وہ دنیا میں کسی ملک کا باشندہ ہے ایک بڑا سہارا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو ایک سے دوسرے ملک کا سفر اختیار کرتے ہیں یا بین الاقوامی شخصیات ہوتی ہیں جن کو اکثر بین الاقوامی دوروں پے رہنا پڑتا ہے یا ایسے بہت سے لوگ جو ایک ملک چھوڑ کر کسی اور ملک میں روزگار یا رہائش اختیار کر لیتے ہیں ان کو اپنے اصلی ملک کی یاد بہت ستاتی ہے اور وہ اس ملک سے اپنی نسبت سے اپنے دل کا سکون پاتے ہیں۔ کئی ایک توسال ہا سال باہر گزار کر واپس آ جاتے ہیں لیکن بعض کو حالات واپسی کی مہلت یا اجازت نہیں دیتے۔وہ اپنے نام یا علاقے کے ساتھ اپنے پرانے یا اصلی ملک کا نام منسلک کر لیتے ہیں مثلاً جب انگلینڈ کے لوگ امریکہ گئے تو انہوں نے وہاں’ نیو انگلینڈ‘ کے نام سے ایک علاقہ بسا لیا ۔ ابھی کل ٹی وی پے امریکہ میں آباد پاکستانیوں کے ایک گروہ کو دکھایا گیا جنہوں نے امریکہ کے ایک علاقے کو’ لِٹل پاکستان‘ Little Pakistan کا نام دیا ہوا ہے اور وہ وہاں آباد ہیں۔ لاہور شہر میں، قصور شہرکے لوگ آباد ہوئے تو انہوں نے ایک بستی کو’ قصور پورہ ‘کا نام دے دیا۔ انسان اپنے ملک سے محبت میں اپنی جان اور مال ودولت بھی قربان کر دیتا ہے جیسا کہ پاکستان کی محبت نے برِ صغیر کے مسلمانوں ،جو ہجرت کر کے پاکستان میں آئے ، سے نا قابلِ بیان قربانی لی۔
طاقت کا حصول بھی اسی سہارا طلبی کی نفسیات کے تحت عمل میں آتا ہے۔طاقت کا حصول انسان اس لئے کرتا ہے کہ وہ دوسروں سے محفوظ رہ سکے یا دوسروں کو اپنے تابع رکھ سکے۔ سپر پاورز دوسروں کو تابع رکھنے کا سوچتی ہیں جب کہ ایک عام ملک اپنے دفاع کا سوچتا ہے۔ آج کے دور میں ایٹمی طاقت بننے کا خواب ہر ملک دیکھتا ہے اور ایک زمانہ آئے گا کہ ہر ملک ایٹمی طاقت اور ہتھیار حاصل کر چکا ہو گا۔ کیوں کہ دنیا کا ایک ملک جتنی ترقی کر لیتا ہے تو دوسرے ممالک بھی وہ ٹیکنالوجی آہستہ آہستہ حاصل کر لیتے ہیں۔ ایٹمی طاقت بھی آہستہ آہستہ پرانی ہو جائے گی اور یہ دنیا کے ممالک کا سہارا بنے گی اور بڑی حد تک بن بھی چکی ہے۔ ممالک سے مراد وہاں کے بسنے والے لوگ ہیں۔ ممالک کی طاقت اس ملک کے با شندوں کے دل کا سہارا ہے اور دنیا کے لوگوں کو اگر موقع ملے تو وہ اپنے ملک کوطاقتور بنانا چاہتے ہیں کیوں کہ ملک کی طاقت ان کے دل کا مضبوط سہارا بن جاتی ہے جس سے وہ سکون پاتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا وجود بھی انسان کو ایک مضبوط بین الاقوامی سہارا دینے کے لئے عمل میں لایا گیا۔ انسانوں کو باہمی جنگ وجدال کا خطرہ تھا اور پوری دنیا دو عالمی جنگیں دیکھ بھی چکی تھی۔ اتنی بڑی تباہی کی دنیا پھر سے متحمل نہیں ہو سکتی تھی اس خوف کے پیشِ نظر دنیا کے تمام ممالک اس بات پر متفق ہو گئے کہ ایک تنظیم ایسی بنائی جائے جو تمام ممالک کو اکٹھا رکھ سکے۔ اور خاص طور پر جن طاقتور ممالک کے باہم لڑنے کا امکان زیادہ تھا ان کو اس تنظیم میں ویٹو کی شکل میں چودھراہٹ بھی دے دی گئی تا کہ بڑی طاقتوں کے باہم بھڑنے کا امکان کم کیا جا سکے۔ اقوامِ متحدہ اِس وقت کے اور اُس وقت کے ڈرے ہو ئے تمام دنیا کے انسانوں کا ایک مضبوط سہارا ہے۔ جس سے نہ کوئی ملک علیحدہ ہونا چاہتا ہے اور نہ کوئی اسے توڑنا چاہتا ہے۔ اس کی کارکردگی اگرچہ اتنی قابلِ تعریف اور مثالی نہیں ہے جتنی کہ ہونی چایئے تھی اور اس کی کئی ایک وجوہات بھی ہیں۔ لیکن اس کی تمام تر قباحتوں کے باوجود اس کی موجودگی انسانوں کا، دنیا کے لحاظ سے، آخری سہارا ہے اس کے بعد وہ کسی اور فورم پے نہیں جا سکتے۔
معاشی ود فاعی بلاکوں کا وجود بھی اسی تناظر کی ایک کڑی ہے۔ جب ایک ملک پوری دنیا کے ساتھ تجارت، تعلقات یا ثقافتی روابط نہیں رکھ سکتا تو وہ اپنی مرضی اور مفاد کے مطابق اقوامِ متحدہ کے ممبر ممالک میں سے کچھ ممالک کے ساتھ اپنے دفاعی، تجارتی یا ثقافتی تعلقات کو فروغ دیتا ہے۔ جیسا کہ مسلم ممالک نے ’او آئی سی ‘کے نام سے ایک اسلامی تنظیم بنائی ہوئی ہے۔ اسی طرح یورپی ممالک نے ’یورپی یونین‘ کے نام سے تنظیم سازی کی ہوئی ہے۔ سارک، نیٹو، ٹاپی، سی پیک وغیرہ اسی نفسیات کے تحت وجود میں آئے اور آ رہے ہیں۔ ایسا کرنا بھی انسان کے دل کو سہارا دیتا ے کہ اب اس کا حال یا مستقبل محفوظ ہو چکا ہے یا ہو جائے گا۔ کیوں کہ پوری دنیا کے ساتھ تعلقات نہیں رکھے جا سکتے لیکن کچھ ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات ہر ملک کی ضرورت ہے۔ اکیلا ملک کسی طرح بھی ’سروائیو‘ نہیں کر سکتا۔
بین الاقوامی اتحاد اور اتفاق کے ضرورت ہمیشہ رہتی ہے اور عالمی امن انسان کا بہت بڑا سہارا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے بن جانے کے بعد بھی اس عالمی امن کے استحکام اور استقلال کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ اس مقصد کے لئے عالمی کھیلیں، مذاکرات، مباحثے، اظہار خیال وغیرہ کے شیدول بنائے اور اپنائے جاتے ہیں تا کہ لوگ ایک دوسرے کے قریب آتے رہیں۔ پچھے دنوں ملکہ برطانیہ نے تمام دنیا کے ہونہار نوجوانوں کو میڈل اور اسناد وغیرہ سے نوازا ہے جن میں تین پاکستانی بھی تھے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے ساری دنیا میں اپنی پالیسیوں اور مقاصد کے مطابق سرگرمیاں کرتے رہتے ہیں جس سے دنیا کو آپس میں منسلک ہونے کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس کہ انسان اس دنیا میں اکیلا نہیں ، نہ اس کا ملک اکیلا ہے بلکہ وہ تمام انسانی برادری سے منسلک ہے اس کے دل کو بڑی تقویت دیتا ہے۔
ؑٓؒ روحانی سہارا:عالمی تناظر سے ہم پھر ذاتی تناظر میں واپس آتے ہیں ۔انسان کا زیادہ تر وقت اور معاملات اس کے آس پاس اور قریبی لوگوں کے ساتھ ہی گزرتے اور بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ وہ اپنے مذہب، علاقائی ثقافت اور اپنے گھریلو حالات کے ساتھ ہی زیادہ وقت گزرتا ہے اور انہی چیزوں کا سامنا بھی کرتا ہے۔اس لئے اس کو مقامی طور پر کسی بڑے مضبوط سہارے کی ضرورت زیادہ محسوس ہو گی۔ اس طرح کا سہارا بھی وہ اکثر حاصل کر لیتا ہے۔ ان تمام مادی روابط اور مرئی حالات کے بعد انسان کو اپنے ذہن کی طاقت اور سکون کے لئے روحانی سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس روحانی سہارے کی ضرورت اس وقت کے مغرب میں مشرق کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ کیوں کہ تمام تر مادی ترقی کر لینے کے بعد اور اخلاقی ضابطے اپنی مرضی سے طے کر لینے کے بعدبھی، یورپ ذہنی بے سکونی کے صحرا میں بھٹک رہا ہے۔ انہوں نے مادیت میں سکون پانا چاہا، لیکن سکون نہ ملا۔ پھر انہوں نے سیکسsex میں سکون پانے کی ناکام کوشش کی ۔ جو سکون روحانیت میں رکھا گیا ہے اورجو مذاہب پر سچے دل سے علم پیرا ہونے سے مل سکتا ہے وہ مادی لذتوں میں نہیں مل سکتا۔ جیسے جیسے مادیت کا تجربہ وسیع ہو گا ،روحانیت کی ضرورت بھی زیادہ محسوس ہو گی۔ روحانی سہاروں کے بغیر، جسمانی سہارے انسان کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔مادیت کی ایک حد ہے وہ انسان کو اس سے آگے سکون نہیں دے سکتی۔ انسان کو ایک مرحلے پر اپنا سب کچھ ایک بہت بڑی ناقابلِ ادراک ذات کے سپرد کرنا پڑتا ہے تا کہ وہ ذہنی طور پر کچھ دیر کے لئے سکون پا سکے جیسے کوئی شخص کچھ دیر کے لئے اپنا بوجھ اتار کر سستا لے اور پھر سے اپنی ذمہ داریوں کو سنبھال لے۔ روحانیت انسان کی ہمیشہ سے ضرورت رہی ہے اور ہمیشہ اہے گی۔ یہ اس کو بہترین سہارا مہیا کرتی ہے۔
سماجی سوسائٹیوں کی ضرورت بھی اس دور کی اشد ضرورتوں میں سے ہے جن کے سہارے کے بغیر انسان اپنی نفسیات کو ادھورا محسوس کرتا ہے ۔ کسی نہ کسی قسم کی مثبت سوسائٹی انسان کے دلی سہارے کے لئے ضروری ہے۔ روحانی طور پر بھی اس قسم کا تعلق مناسب ہے لیکن روحانیت ہر کسی کا تجربہ یا مزاج نہیں ہو سکتا۔ اکثر انسانوں کا مزاج سماجی ہو تا ہے۔ اس لحاظ سے پیشہ ورانہ ، یا ہم ذوق اور ہم مزاج لوگوں کی سوساٗٹیاں وجود میں لائی جاتی ہیں جن سے انسان کو اقلیت یا تنہائی کا احساس کم کیا جا سکتا ہے۔ان چھوٹے سماجی گروہوں کے فنکشنز ہوتے رہتے ہیں جن میں شرکت سے احساس تنہائی اور علیحدگی کم ہوتا ہے۔ خاص طور پر حساس لوگوں کے لئے یہ زیادہ مفید اور معاون ثابت ہو سکتی ہیں اور ہوتی بھی ہیں، بیرونِ ملک جانے والے اقلیت کا شکار ہونے والے لوگ ان سماجی گروہوں کی مدد سے اپنے دل کی سہارے تلاش کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو آسان بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
اوپر بیان کردہ مواد بڑی حد تک سہارے کے نظریئے کو مستحکم کرتا ہے۔ انسان چوں کہ کمزور ہے اور کمزور کو سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک وقت میں ایک اور دوسرے وقت میں دوسرے سہارے کی طرف رجوع بھی ہو سکتا ہے اور بیک وقت کئی سہارے بھی انسان کے ذہن اور استعمال میں آ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں فردِ واحد سے لے کر بین الاقوامی حالات و واقعات تک کی بات شامل کرنے کا مقصد اس نظریئے کو ہمہ گیر نوعیت اور اہمیت دینا تھا۔ اس ضمن میں بہت سی اور باتیں اور مثالیں بھی شامل ِ مضمون کی جا سکتی ہیں لیکن مضمون پہلے ہی کافی طویل ہو گیا محسوس ہوتا ہے اس لئے اسے یہاں ختم کرتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ قارئین کو پسند آئے گا اور وہ اپنی قیمتی رائے سے نوازیں گے۔ پیشگی شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اﷲ حافظ

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 288505 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More