گیری کرسٹن: 2011 میں انڈیا کو ورلڈ کپ جتوانے والے کوچ کیا پاکستان کے لیے اپنی کارکردگی دہرا پائیں گے؟

گیری کرسٹن کو پاکستان کرکٹ ٹیم میں وائٹ بال کا نیا کوچ مقرر کیا گیا ہے۔ ان کی کوچنگ میں انڈیا نے 2011 کا ورلڈ کپ جیتا تھا اور ان کی بعض خوبیوں کا اعتراف خود سابق انڈین کرکٹرز کر چکے ہیں۔
گیری کرسٹن
Getty Images

اگست 2008 کے دوران سچن ٹنڈولکر کے بائیں بازو کی کہنی پر چوٹ لگی اور اس انجری کے باعث وہ سری لنکا کے خلاف سیریز سے باہر ہو گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب وراٹ کوہلی کے کیریئر کا آغاز ہوا۔

تب انڈین کرکٹ ٹیم کے کوچ گیری کرسٹن تھے جن کے پاس، اُن کے بقول، اس نوکری سے قبل کوچنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔

ایک انٹرویو میں گیری کرسٹن نے بتایا کہ انھیں ایک روز انڈین کرکٹ بورڈ میں سنیل گواسکر کی طرف سے ای میل موصول ہوئی کہ ’کیا آپ انڈین کرکٹ ٹیم کی کوچنگ میں دلچسپی لیں گے؟‘

گیری کے مطابق یہ ای میل دیکھ کر انھیں لگا کہ شاید اُن کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے چنانچہ انھوں نے اس ای میل کا جواب نہیں دیا۔ دو روز بعد انھیں ایک اور ای میل موصول ہوئی جس میں اسی آفر کے ساتھ ساتھ بزنس کلاس کا ٹکٹ بھی تھا۔ گیری کے مطابق یہ ای میل دیکھ کر ان کی اہلیہ کو لگا شاید کسی سے نام کی غلطی ہوئی ہو گی۔

جب گیری کرسٹن انڈین کوچ بننے سے قبل انٹرویو دینے جا رہے تھے تو انھوں نے راستے میں اس بارے میں انڈین بولر انیل کمبلے کو بتایا جو یہ سب سُن کر ہنس پڑے۔

انٹرویو میں ان سے پہلا سوال یہ ہوا کہ آپ کا انڈین کرکٹ کے لیے کیا وژن ہے؟ اس پر انھوں نے جواب دیا ’میرے پاس کوئی وژن نہیں ہے۔‘ لیکن پھر انھیں ’کوچنگ کے صفر گھنٹوں کے تجربے کی بنیاد پر دنیا کی سب سے ہائی پروفائل ٹیم کا کوچ بنا دیا گیا۔‘

مگر یہ وہی گیری کرسٹن تھے جن کی کوچنگ میں چند سال بعد انڈین کرکٹ ٹیم نے سنہ 2011 کا ورلڈ کپ جیتا۔ اب انھیں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا کوچ مقرر کیا گیا ہے۔

دھونی، گیری کرسٹن
Getty Images
گیری کرسٹن کے بقول ’میں احمق ہوتا اگر دھونی کو فائنل میں پانچویں نمبر پر آنے سے روکتا‘

گیری کرسٹن سے قبل انڈیا کے کوچ گریگ چیپل تھے جن کا دور سینیئر کھلاڑیوں کے ساتھ لڑائی کے باعث متنازع ہوا تھا۔ ان کی موجودگی میں انڈیا سنہ 2007 کے ورلڈ کپ میں پہلے راؤنڈ میں ہی باہر ہو گیا تھا۔

ان کے بعد گیری کرسٹن کا دور آیا جس میں انھوں نے آغاز میں ہی کچھ بڑے فیصلے کیے، جیسے انجری کا شکار سچن ٹنڈولکر کی جگہ وراٹ کوہلی کو بطور اوپنر کھلانا۔

گیری کرسٹن کے مطابق وراٹ کوہلی کو اچھی کارکردگی دکھانے میں کچھ وقت لگا تھا۔ جب انھیں تیسرے نمبر پر دوبارہ موقع ملا تو کوہلی نے کیریئر کی پہلی سنچری بنائی۔

گیری کرسٹن کے بقول ’مجھے اس چیز میں مزہ آتا تھا جب میں انھیں (کوہلی کو) صرف ایک اور میچ دیتا تھا۔ پھر وہ بہتر ہو جاتے تھے۔ آپ کو اِن لڑکوں کے ساتھ وقت گزارنا پڑتا ہے۔‘

گیری کرسٹن کے مطابق ان کی ہمیشہ سے یہی سوچ رہی ہے کہ وہ کھلاڑی کو اس وقت تک سپورٹ کرتے ہیں جب تک وہ بہتر نہیں ہو جاتے۔

انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’ہر ہزار میں سے ایک کھلاڑی بہترین ہوتا ہے۔ تو باقی 999 کا کیا؟ ہم صرف اس ایک عمدہ کھلاڑی کی موجودگی کا جشن مناتے ہیں۔‘

گیری کرسٹن کی وہ خوبیاں جو انڈیا کو ٹرافی دلانے میں مددگار ثابت ہوئیں

تصویر
Getty Images

’انڈیا ٹوڈے‘ کو دیے ایک انٹرویو میں ہربھجن سنگھ بتاتے ہیں کہ گیری کرسٹن نے ورلڈ کپ سے قبل ایک اصول بنایا تھا کہ کوئی کھلاڑی اخبار نہیں پڑھے گا اور نہ ہی ٹی وی پر خبریں دیکھے گا۔

دراصل گیری کرسٹن چاہتے تھے کہ کھلاڑی شائقین کی توقعات کے بوجھ تلے دب نہ جائیں۔

ورلڈ کپ کے دوران گیری کرسٹن اور انڈین ٹیم مینجمنٹ کا پلان تھا کہ چونکہ میچز میں کڑے مقابلے ہو سکتے ہیں تو اس لیے کپتان ایم ایس دھونی کو نیچے کھلانا چاہیے تاکہ وہ مشکل مراحل پر میچ جتوا سکیں۔

تاہم سری لنکا کے خلاف فائنل میں جب 278 رنز کے تعاقب میں انڈیا کی 31 رنز پر دوسری وکٹ گری تو دھونی نے اُن سے کہا کہ وراٹ کوہلی کے بعد یووراج کی جگہ وہ خود پانچویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے جائیں گے۔

گیری کرسٹن کے مطابق ’میں احمق ہوتا اگر اس وقت کہتا کہ نہیں یہ ہماری سٹریٹجی کا حصہ نہیں۔‘

اس فائنل میں دھونی کے 79 گیندوں پر کلیدی 91 رنز کی بدولت انڈیا نے 2011 کا ورلڈ کپ جیتا تھا۔

گیری کرسٹن
Getty Images
جب گیری کرسٹن نے انڈین کرکٹ ٹیم کا کنٹرول سنبھالا تو اس وقت ٹنڈولکر ریٹائرمنٹ لینے کے بارے میں سوچ رہے تھے

اسی دور میں پیڈنگ اپٹن انڈیا کے مینٹل کنڈشنگ اور سٹریٹیجک لیڈرشپ کوچ تھے۔ ’کرک انفو‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو کے مطابق 2007 کے ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش سے شکست کے بعد انڈین ٹیم اپنی ’دس سال کی سب سے نچلی سطح پر آ چکی تھی۔ گیری کرسٹن اور میرے پاس ٹیم کو اٹھانے کے لیے 2008 سے 2011 تک تین سال تھے۔ 2011 میں یہ ٹیم 10 سال کی سب سے مضبوط سطح پر پہنچ چکی تھی۔‘

گیری کرسٹن نے اس عرصے میں انڈین ٹیم میں اعتماد کو بحال کیا اور ایسا ماحول بنایا کہ کھلاڑی اپنی کارکردگی کی ذمہ داری لیں۔ جیسے انھوں نے سچن ٹنڈولکر کو ریٹائرمنٹ لینے سے روکا تھا۔

انھوں نے ان کرکٹرز کی نشاندہی کی جو ٹورنامنٹ میں انرجی لا سکتے ہیں، جیسے یووراج سنگھ جو 2011 کے ورلڈ کپ کے بہترین کھلاڑی قرار پائے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یووراج کو چھ ماہ قبل ہی سری لنکا کے دورے سے ڈراپ کیا گیا تھا اور انھوں نے دوبارہ ٹیم میں جگہ بنانے کے لیے کڑی محنت کی تھی۔

بطور انڈین کوچ گیری کرسٹن نے غیر مقبول فیصلے لینے سے گریز نہیں کیا۔ جیسے آخر کے دو میچوں میں آر ایشون کو نہیں کھلایا گیا کیونکہ یہ فیصلہ حریف ٹیم اور پچ کنڈیشن سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔

اکثر مبصرین یہ کہتے ہیں کہ آن پیپر، 2003 میں انڈیا کے پاس ایک بہتر ٹیم تھی۔ تاہم گیری کرسٹن کا یہ ماننا ہے کہ کسی بھی میچ میں ایک بہترین کیچ، 30 رنز کی باری یا تین اوورز کی نپی تلی بولنگ معنی خیز ثابت ہو سکتی ہے لہٰذا محض اعداد و شمار پر نظر ڈال کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ نمایاں کارکردگی نہیں۔

گیری کرسٹن
Getty Images
2003 میں جنوبی افریقہ کے دورۂ پاکستان کے دوران فاسٹ بولر شعیب اختر کی ایک گیند نے بلے باز گیری کرسٹن کو بُری طرح زخمی کر دیا تھا

’ٹرافی جتوانے کی کوئی ضمانت نہیں‘

رواں سال امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ نے وائٹ اور ریڈ بال کے لیے الگ الگ کوچز مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ساتھ پوڈ کاسٹ میں گیری کرسٹن کا کہنا تھا کہ انھیں خوشی ہوئی جب انھیں پاکستانی ٹیم کو کوچ کرنے کی پیشکش کی گئی جو ان کے لیے باعث فخر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس کے ذریعے دوبارہ انٹرنیشنل کرکٹ میں کوچنگ کا موقع ملا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان ہی کیوں؟ تو انھوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا ’مجھے پیشکش ہوئی تھی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے جہاں کھلاڑی پنپ سکیں۔

’مجھے لگتا ہے کہ پاکستان (کرکٹ ٹیم) چار سے پانچ کوچنگ کی بہترین جابز میں سے ایک ہے۔ یہ خیال کہ آپ دنیا کے کچھ بہترین کرکٹرز کے ساتھ کام کر سکتے ہیں، میرے لیے پُرکشش تھا۔ میرے لیے یہ اہم نہیں کہ میں پاکستانی، انڈین، سری لنکن یا انگلش کرکٹ ٹیم کا کوچ ہوں، بلکہ اہم یہ بات ہے کہ میرے پاس دنیا کے بہترین کرکٹرز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بارے میں یہی تصور آج تک قائم ہے کہ یہ باصلاحیت کھلاڑی ہیں جو ہمیشہ اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ کھلاڑیوں کی اس حوالے سے حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کے مطابق کارکردگی دکھائیں۔

جب گیری سے پوچھا گیا کہ ان کے پسندیدہ پاکستانی کرکٹرز کون ہیں تو انھوں نے بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی، محمد رضوان اور حارث رؤف کے نام لیے۔ ’مجھے یہ سفر طے کرنا ہے کہ ان کھلاڑیوں سے بہترین کارکردگی کیسے نکلوانی ہے۔ سب سے اہم اچھا ماحول پیدا کرنا ہے جو چیلنجنگ بھی ہو اور اسے میں مزہ بھی آئے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت وہ اپنے سابقہ معاہدوں کے باعث پاکستانی ٹیم سے دور ہیں تاہم ان کی اسسٹنٹ کوچ اظہر محمود سے باقاعدہ بات چیت ہوتی رہتی ہے۔

اس انٹرویو میں جب گیری کرسٹن سے پوچھا گیا کہ آنے والے تین آئی سی سی ایونٹس کے حوالے سے انھوں نے کیا اہداف طے کیے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ اہم چیز یہ اندازہ لگانا ہے کہ ٹیم ابھی کہاں کھڑی ہے اور اسے کہاں تک جانا ہے ’چاہے بات ورلڈ کپ جیتنے کی ہو، جو کہ آسان نہیں۔‘

’کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ بس اس میں حصہ لینے سے آپ جیت جائیں گے۔ لیکن اگر آپ ایک آئی سی سی ایونٹ جیت جائیں تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔‘

بابر اعظم، شاہین آفریدی، محمد رضوان
Getty Images

کیا یہ تجربہ کامیاب ہو سکتا ہے؟

پاکستان کے وائٹ بال کوچ گیری کرسٹن کہتے ہیں کہ چاہے رواں سال ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی بات ہو یا دو سال بعد کے ٹورنامنٹ کی ’میرا کام یہ ہے کہ ٹیم بہترین کارکردگی دکھائے۔‘

’اگر ٹیم اپنی صلاحیت کے مطابق بہترین کھیل پیش کر رہی ہے تو ہمارے پاس اچھا موقع ہو گا کہ ہم ایک ٹرافی جیت سکیں۔ (تاہم) اگر ٹیم اپنی صلاحیت کے مطابق نہیں کھیلتی تو ہم نہیں جیت سکیں گے۔‘

انھوں نے کہاں کہ ’ٹرافی کی ضمانت تو نہیں دی جا سکتی لیکن آپ ایسے اقدام اٹھا سکتے ہیں تاکہ آپ کے پاس اس کا بہترین موقع ہو۔‘

تاہم بعض مبصرین وائٹ اور ریڈ بال کے لیے الگ کوچز کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔

سابق کرکٹر کامران اکمل نے اپنے یوٹیوب چینل پر ایک ویڈیو میں کہا ہے کہ ’اگر ایسے تجربوں سے ہماری کرکٹ بہتر ہوتی ہے تو ضرور ایسے تجربے کرنے چاہییں۔ لیکن کامیاب نہ ہوئے تو ضرور بتائیے گا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے۔‘

کامران اکمل کی رائے ہے کہ یہ تاثر دینا غلط ہے کہ ’اب ہم نے انگلینڈ کرکٹ کو فالو کرنا ہے۔ ہم نے پہلے آسٹریلیا کا تجربہ کیا لیکن اس نے ہمارے سسٹم کو مزید خراب کیا۔‘

’وائٹ اور ریڈ بال کے لیے الگ کوچز بنانے کا تجربہ کاپی کیا جا رہا ہے۔‘

دریں اثنا گیری کرسٹن کے مطابق پاکستان کے بارے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ یہ ٹیم ہمیشہ آئی سی سی ایونٹس میں اچھا کھیلتی ہے۔ انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ کھلاڑیوں پر اکثر توقعات کا بوجھ ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ کھلاڑیوں کو فینز کی توقعات کا ’بوجھ‘ لینے کی بجائے شائقین کے ساتھ اپنے سفر سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔

گیری کرسٹن نے فینز کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ ’کارکردگی کے بارے میں تحمل سے کام لیں۔ یہ آپ ہی کے کھلاڑی ہیں۔۔۔ کھیل، کھیل نہیں رہے گا اگر آپ ہاریں ہی نہ۔ اچھی اپوزیشن آپ کو ہمیشہ چیلنج کرے گی۔‘

گیری کرسٹین نے کہا کہ وہ تسلسل کو پسند کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ ان کھلاڑیوں کو سپورٹ کرتے ہیں جن کی فارم اچھی نہیں چل رہی ہوتی۔ ’اگر میں کسی کھلاڑی کو پِک کرتا ہوں اور اسے بیک کرتا ہوں تو وہ کھلاڑی کھیلے گا۔ وہ کہیں نہیں جائے گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.