ہماری زندگی پر صحبت کا اثر ( پہلا حصہ )

ہماری دنیاوی مختصر زندگی میں صحبت کا بڑا اہم اثر رونما ہوتا ہے بری صحبت اثر برا اور اچھی صحبت کا اثر ہمیشہ اچھا ہی نظر آتا ہے ہمیں اپنی زندگی کن لوگوں سے صحبت اختیار کرنی چاہئیے اور کیسی صحبت سے بچنا چاہئیے یہ ہی کچھ اس آرٹیکل میں بتانے کی کوشش کی گئی ہے ۔



میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
اصل میں صحبت کے معنی ہمنشینی ، ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، سنگت اور ایک نشست میں جمع ہونا ہے ایک تحقیق کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 95 فیصد حصہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جن کی زندگی پر دوسروں کااثر زیادہ ہوتا ہے وہ دوسروں کی صحبت میں رہ کر ان کا اثر زیادہ قبول کرتے ہیں جبکہ شریعت میں اس کی سخت احتیاط پر زور دیا گیا ہے جیسے امام ترمذی کی ایک حدیث مبارکہ جسے حضرت ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے روایت کیا ہے کہ سرکار صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ " آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لئیے ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دوست بناتے وقت دیکھ لے کہ کسے دوست بنا رہا ہے " اصل میں پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ انسان کی پہلی درسگاہ یا تربیت گاہ ماں کی گود ہے اس کے بعد اسکول اور کالج ہے اس کے تھوڑے ٹائم کے بعد یہ کہا جانے لگا کہ ایک انسان کے گھر کے بعد اگر کوئی درسگاہ ہے تو گلی کا چورہا ہوتا ہے جہاں رات کو یا فرصت میں کسی بھی وقت کچھ لوگ مل کر ایک نشست جمع لیتے ہیں اور یہاں وہاں کی ہانکتے رہتے تھے جبکہ بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ آج کے معاشرے میں انسان نے اپنا زیادہ تر وقت اپنے موبائل پر گزارنا شروع کردیا ہے اور اس کو ہی دوست کا روپ دے دیا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہم جیسے انسان کو اپنا دوست مانتے ہیں تو ہمیں اس سے وہ ہی سیکھنے کو ملے گا جو اس کے پاس ہے اگر وہ اچھے ماحول کی تربیت کا حامل انسان ہوگا تو آپ کو بھی اس کی ذاتِ سے اچھی باتیں سیکھنے کو ملیں گی اور اگر بری صحبت کی تربیت کا حامل انسان ہوگا تو آپ کو سوائے بری باتوں اور برے اعمال کے کچھ نہیں ملے گا جو حدیث بیان کی گئی اس میں بھی سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے یہ ہی فرمایا کہ تم دیکھ لو کہ تم کس طرح کے انسان کو اپنا دوست بنارہے ہو سرکار علیہ وآلیہ وسلم نے انسان کی نفسیات بیان کردی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آنے والے وقت میں میری امت کے لوگ کس طرح کے لوگوں کو اپنا دوست بنائیں گے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں آج کے معاشرے میں ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارا نوجوان یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی بھی ماحول کے لوگوں کے ساتھ میں بیٹھ جائے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا اس کا کچھ نہیں بگڑے گا لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ انسان کے زندگی کے متعلق تباہ ہونے یا کامیاب ہونے کے لئے صرف ایک لمحہ کافی ہے وہ لمحہ جو آپ کو برے دوستوں کے ہمنشینی اختیار کرکے غلط راستے پر نکال دے اور اچھے اور نیک دوست کے ساتھ سے صحیح راستے کا تعین کردے کیونکہ بدقسمتی سے ہم نے کسی مفتی یا عالم دین کی صحبت اختیار نہیں کی ہمیں دین سے دوری کے سبب اچھے یا برے راستے کے تعین کا کوئی علم نہیں ہمیں جو راستہ دکھلایا جائے گا ہم اسی راستے پر چل پڑتے ہیں پھر پچھتاوے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار علیہ وآلیہ وسلم کے فرمان کا مطلب ہی یہی ہے کہ ہم جس کو دوست بناتے ہیں ہمیں اس کے بارے میں یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے کس فرقہ سے تعلق رکھتا ہے اور دوستی کی آڑ میں اگر وہ ہم سے کوئی ایسی بات کہلوا دے جس کی حساسیت کا ہمیں دین کی دوری کے سبب اندازہ نہ ہو یعنی وہ ہمیں دائرہ اسلام سے ہی خارج کروادے تو ہمارے پاس ہماری سب سے قیمتی چیز ایمان ہے وہ ضائع ہونے میں دیر نہیں لگے گی ایک تحقیق کے مطابق صحبت کئی قسم کی ہوتی ہے جیسے ایک صحبت وہ ہوتی ہے جس کا تعلق ہمارے پڑوسی ہمارے محلدار ہمارے رشتہ دار ہمارے چوک چوراہے پر ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے جن کے ساتھ ہماری نشست ہو جن کی صحبت کا اثر ہم میں سے کئی لوگ قبول کرلیتے ہیں جبکہ صحبت کی دوسری قسم آج کے دور میں جو بڑی عام ہے وہ ہے سوشل میڈیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب دیکھیں فیس بک کی دنیا الگ واٹس ایپ کی دنیا الگ انسٹاکی دنیا الگ یوٹیوب کی دنیا الگ ٹوئٹر کی دنیا الگ اب ہر شخص نے کسی نہ کسے سے اپنی صحبت قائم کی ہوئی ہے یہ ساری سوشل میڈیا کی اولاد ہیں کسی کے لئے بگڑی ہوئی اولاد تو کسی کے لئے اچھی اولاد اور ان کی صحبتوں کا اثر خاص طور پر ہمارا نوجوان طبقہ جلدی قبول کرلیتا ہے یہ ساری ایجادات انسانوں کی آسانی کے لئیے دنیا میں لائی گئی ہیں لیکن ہمارے نوجوان اس صحبت کا غلط اثر قبول کرکے اپنےایمان کو دائو پر لگانے میں مصروف نظر آتے ہیں لیکن ہمارے درمیان کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کا صحیح استعمال کرکے سوشل میڈیا کے سمندر میں چھلانگ لگا کر اس کے اندر سے قیمتی موتی اور ہیرے تلاش کرنےمیں کامیاب ہوکر اس کی صحبت کا صحیح اور درست اثر قبول کرتے ہیں پھر انہی قیمتی موتیوں اور ہیروں کو دوسروں کی اصلاح اور صحیح راستے کے تعین کے لئے استعمال کرکے اپنے اور دوسروں کے لئے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنانے کی تق و دو میں مصروف عمل رہتے ہیں اور بیشک وہ خوش قسمت لوگ ہیں۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بیشک اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ اگر ہم اپنی نئی نسل کو بری صحبت سے بچانے کی خاطر انہیں سمجھا سکتے ہیں کہ فلاں شخص صحیح نہیں ہے فلاں جگہ بیٹھنے والے لوگوں کے ساتھ صحبت صحیح نہیں ہے لیکن سوشل میڈیا کی غلط صحبت سے بچانا اس دور میں ہمارے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کی سب سے اہم وجہ ہمارے یہاں دین سے دوری ہےاب دیکھیں ہم اپنے بچوں کو اعلی سے اعلی تعلیم دلوانے کے لئے دن رات ایک کر دیتے ہیں تاکہ اس کا مستقبل اچھا ہو لیکن ہم اسے دینی تعلیم کے حصول کے لئے کسی دینی درسگاہ میں اس لئیے داخل نہیں کرواتے کہ ہمارے ذہنوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ ایک عالم دین ایک مولوی یا ایک مفتی کا ہمارے یہاں کیا مستقبل ہے لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اعلی دنیاوی تعلیم حاصل کرکے آج کا نوجوان بغاوت پر اتر آتا ہے اور اس کے سبب کئی نوجوان غلط راستوں کی طرف نکل پڑتے ہیں غلط راستوں سے مراد دین سے بے راہ روی کا شکار ہوجانا ہے اور پھر جب غلط صحبت کا اثر ہم پر ظاہر ہوتا ہے تو پھر پچھتاوے کے سوا ہمارے پاس کچھ باقی نہیں ہوتا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جیسے کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ سوشل میڈیا کا صحیح استعمال ہماری نوجوان نسل کے لئے بلکہ ہر ذی شعور انسان کے لئے ایک بہت بڑی نعمت سے کم نہیں ہمارے یہاں اس کے ذریعے جو دین کا کام ہوتا ہوا نظر آتا ہے وہ قابل تحسین ہے دین کو سمجھنا اور اپنی زندگی کو اس پر ڈھالنا جتنا آسان اس سوشل میڈیا کی وجہ ہوا ہے وہ اس سے پہلے نہیں تھا لیکن اس کی بری صحبت کا اثر اتنا خطرناک ہے کہ اس کے ذریعے جرم کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کرکے ہماری نوجوان نسل کو تباہی کی طرف لے جایا جارہا ہے بڑوں کی عزت نہ کرنا ان کی عزت و احترام میں کمی کا ہوجانا ماں باپ سے بدتمیزی کرجانا یہاں تک کہ بوڑھے ہو جانے پر انہیں اولڈ ہوم میں منتقل کردینا یہ سب بری صحبت کا نتیجہ ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اب سوال یہ ہے کہ اچھی اور بری صحبت کا ہمیں کس طرح علم ہو یعنی کونسی صحبت ہمارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی کا سبب بنے اور کونسی صحبت ہمارے ایمان کے چھن جانے کا ذریعہ بن سکتی ہے تو دیکھیں اس کا آسان سا جواب ہمیں سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے مل جاتا ہے کہ "امام مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ان تک یہ خبر پہنچی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں، اگر انہیں تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی کی سنت"

یعنی زندگی کو صحیح راستے پر چلانے میں قرآن ہمارے لئیے کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے اگر ہم اسکو ترجمعہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھنے لگ جائیں اور اس میں کہے ہوئے اللہ کے احکامات پر عمل شروع کردیں تو ہمیں صحیح راستہ خود ہی مل جائے گا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ قرآن کی صحبت اختیار کرلیں یہ صحبت آپ کی دنیا بھی سنوار دے گی اور آخرت بھی یعنی اچھی صحبت اور بری صحبت کے بارے میں قرآن اور احادیث سے ہمیں بہت کچھ حاصل ہوجاتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اچھی صحبت کے حصول کے لئے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کیا ہیں قرآن مجید فرقان حمید کی سورہ التوبہ کی آیت 119 میں ارشاد ربانی ہے کہ
یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
ترجمعہ کنزالایمان:
"اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو"

اس کی تفصیل میں اللہ تبارک وتعالی کا کہنا ہے کہ ہمیشہ اللہ رب العزت سے ڈرتے رہو اور اسی وجہ سے اگر کسی کی صحبت اختیار کرو تو یہ دیکھ لو کہ وہ سچے ہوں ۔اسی طرح سورہ الکھف کی آیت 28 کے ایک حصہ میں ارشاد باری تعالی ہے کہ
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ
ترجمعہ کنزالایمان:
اور اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی ہی رضا چاہتے ہیں ۔

اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے واضح طور پر ہمیں بتایا کہ اپنی صحبت صرف ایسے لوگوں کے ساتھ اختیار کرو جو صرف اپنے رب کو یاد کرتے رہتے ہیں اور اسی کو پکارتے ہیں اور اپنے ہر معاملہ میں اسی کی رضا چاہتے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہاں اگر آپ کے ذہن میں یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے درمیان ایسے لوگ کون ہیں ؟ تو اس کا جواب بھی اللہ رب العزت نے ہمیں قرآن مجید میں ہی دے دیا سورہ الحجرات کی آیت 13 کے ایک حصہ میں ارشاد ربانی ہے کہ
اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ۔
ترجمعہ کنزالایمان :
بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے بیشک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔
اسی طرح قرآن مجید کی سورہ الجاثیہ کی آیت 19 کے کچھ حصہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

وَ اللّٰہُ وَلِیُّ الۡمُتَّقِیۡنَ
ترجمعہ کنزالایمان :
اور ڈر والوں کا دوست اللہ ہے
ان دونوں آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت کا واضح پیغام ہے کہ جو متقی و پرہیزگار ہیں انہی سے صحبت اختیار کرو کہ اللہ تعالیٰ بھی انہیں اپنا دوست رکھتا ہے ۔
لہذہ ہمارے درمیان کئی ایسے نیکوکار لوگ موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس معیار پر پورا اترتے ہیں اگر نیک اور اچھے لوگوں کی صحبت ہم نے اختیار کی تو ہمیں صحیح راستہ کا تعین بھی ہوگا اور اگر بری صحبت میں وقت گزارا تو ہمارا انجام بھی بروں جیسا ہوگا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی لئے ہمارے اسلاف نے ہمیں بری صحبت اختیار کرنے سے منع فرمایا ۔حضرت مالک بن دینار نے اپنے داماد مغیرہ بن شعبہ سے فرمایا : اے مغیرہ ! جس بھائی اور دوست سے تو اپنے دین کا کچھ فائدہ حاصل نہ کرسکے تو اس کی صحبت ترک کردے تاکہ تو سلامت رہے کیونکہ ایسے شخص کی صحبت تجھ پر حرام ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ایک حدیث مبارکہ جسے روایت کرتے ہیں حضرت ابو اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ سرکار علیہ وآلیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص جو ایک جماعت کے ساتھ ہے مگر اس سے مل نہ سکا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان اس کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے ۔ ( صحیح البخاری 6170)
اس حدیث کی شرح میں بیان کیا گیا کہ انسان دنیا میں جس سے محبت کرے گا جس کی صحبت اختیار کرے گا بروز محشر اسی کے ساتھ ہوگا ۔ اب سوچئیے کہ ہم دنیا میں کن لوگوں کی صحبت اپنے اوپر طاری کرلیتے ہیں اور ہمیں کن لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کا حکم دیا جارہا ہے ۔بری صحبت کے زیر اثر ہم نہ صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دور ہو جاتے ہیں بلکہ رب الکائنات کے حبیب صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی سنتوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور اس کے سبب ہماری دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بری صحبت کے سبب ہونے والے انجام سے خبردار کرتے ہوئے باری تعالٰی نے سورہ المدثر کی آیت نمبر 40 سے 45 تک میں ارشاد فرمایا کہ
فِىْ جَنَّاتٍۖ يَّتَسَآءَلُوْنَ (40) عَنِ الْمُجْرِمِيْنَ (41)
مَا سَلَكَكُمْ فِىْ سَقَرَ (42) قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ (43) وَلَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِيْنَ (44) وَكُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِيْنَ (45)
ترجمعہ کنزالایمان :
باغوں میں پوچھتے ہونگے مجرموں سے تمہیں کیا بات دوزخ میں لے گئی وہ بولے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور مسکین کو کھانا نہیں دیتے تھے اور بیہودہ فکر کرنے والوں کے ساتھ بیہودہ فکریں کیا کرتے تھے ۔

ان آیات مبارکہ کی شرح میں یہ کہا گیا کہ جو لوگ جنت میں ہوں گے وہ جنت کی دیوار سے جھانک کر دیکھیں گے تو انہیں دوزخ دکھائی دے گی پھر انہیں معلوم ہوگا کہ فلاں تو یہاں ہے فلاں تو یہاں ہے تو وہ ان مجرموں یعنی گناہگاروں سے پوچھیں گے کہ تمہارے کن گناہوں کی وجہ سے یہاں داخل کیا گیا تو وہ کہیں گے کہ ہم دنیا میں نماز نہیں پڑھتے تھے نہ ہی کبھی مسکینوں کو کھانا کھلایا اور بری صحبت والوں کے ساتھ مل کر بری باتیں کرنے پر فخر محسوس کرتے تھے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اللہ رب العزت کی طرف سے ملنے والی اس بری صحبت کے بروز محشر انجام کو پڑھ کر ہمیں بری صحبت سے دور رہنا چاہئے اور اپنی صحبت صرف اچھے اور نیک لوگوں کے ساتھ رکھنی چاہئیے تاکہ ہمارا حشر ان مجرموں کی طرح نہ ہو بلکہ باغوں میں رہنے والوں جیسا ہو ہمارے بعض نادان لوگ بدمذہبوں اور بدعقیدہ لوگوں کو اپنا دوست بناکر ان کی صحبت میں وقت گزار کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں تباہ و برباد کررہے ہیں ایسے لوگوں کے بارے میں باری تعالی نے واضح کردیا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں جلنے والے لوگ ہیں اور پھر وہاں سے وہ کہیں گے کہ کاش میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا اس کی صحبت اختیار نہ کی ہوتی اس نے نہ صرف میرا ایمان مجھ سے چھین لیا میری ساری عبادات ضائع کروادی بلکہ مجھے اس نار جہنم میں دھکیل دیا ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اسی بات کو باری تعالی نے قرآن مجید کی سورہ الفرقان کی آیت 28 اور 29 میں ارشاد فرمایا کہ
یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(28)لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ-وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِلْاِنْسَانِ خَذُوْلًا(29)
ترجمعہ کنزالایمان :
وائے خرابی میری ہائے کسی طرح میں نے فلانے کو دوست نہ بنایا ہوتابےشک اس نے مجھے بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے اور شیطان آدمی کو بے مدد چھوڑ دیتا ہے۔
اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ وہ شخص کہے گا کہ کاش میں نے دنیا میں اس شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا اس کی صحبت اختیار نہ کرتا اس نے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے واضح احکامات ہونے کے باوجود مجھے اپنے نظریہ اور اپنی سوچ کے مطابق شیطان کی مدد سے مجھے بہکا کر اپنے راستے پرچلایا اور مجھ سے میرا ایمان ضائع کروا کر مجھے جہنم تک لے آیا ہمارے یہاں بعض لوگ خاص طور پر ہماری نوجوان نسل میں کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ صحبت کا کوئی اتنا گہرا اثر ہوتا ہے جبکہ صحبت کے اثر کو قرآن بھی بتلارہا ہے اور احادیث سے بھی یہ واضح ہے کہ اچھی صحبت کا اثر اچھا اور بری صحبت کا اثر برا ہوتا ہے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں صحبت کا اثر کا موضوع طویل ہونے کی وجہ سے ہم اس پہلے حصہ کو یہاں ختم کرتے ہیں اور دوسرے حصہ لیکر پھر حاضر ہو جائیں گے اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بری صحبت سے ہمیشہ ہمیشہ دور رکھے اور اپنا قرب عطا کرے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کا عشق عطا کرے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم ۔
 

محمد یوسف میاں برکاتی
About the Author: محمد یوسف میاں برکاتی Read More Articles by محمد یوسف میاں برکاتی: 129 Articles with 86640 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.