امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر بیف، کافی اور دیگر اشیائے خوراک پر عائد ٹیرف کم کردیا۔
رائٹرز کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 200 سے زائد غذائی مصنوعات پر عائد ٹیرف واپس لے لیے ہیں، جن میں کافی، بیف، کیلے اور اورنج جوس جیسی عام استعمال کی اشیا شامل ہیں۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عوام میں روزمرہ گروسری کی بڑھتی قیمتوں پر شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔
نئے ٹیکس میں چھوٹ جمعرات کی رات سے ریٹروایکٹیو طور پر نافذ ہوگئی جو ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی سمجھی جارہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ طویل عرصے سے اس بات پر زور دیتے رہے تھے کہ ان کے درآمدی ٹیرف مہنگائی نہیں بڑھا رہے مگر اب انہوں نے اعتراف کیا کہ "کچھ صورتوں میں" یہ قیمتیں بڑھا سکتے ہیں، تاہم ان کا مؤقف تھا کہ امریکا میں مجموعی طور پر تقریباً کوئی مہنگائی نہیں ہے۔
حالیہ ہفتوں میں ورجینیا، نیو جرسی اور نیویارک سٹی کے انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جیت کے بعد بڑھتی مہنگائی اور کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں مرکزی سیاسی بحث بن چکی ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ آئندہ سال کم اور درمیانی آمدنی والے امریکیوں کو 2,000 ڈالر کی ادائیگی کریں گے جو ٹیرف سے حاصل ہونے والی آمدنی سے دی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ ٹیرف ہمیں عوام کو ڈیوڈنڈ دینے کا موقع دیتے ہیں، اب ہم ڈیوڈنڈ بھی دیں گے اور قرض بھی کم کریں گے۔
جاری کردہ فہرست میں 200 سے زیادہ غذائی اشیا شامل ہیں جن میں مالٹے، اکائی بیریز، پپریکا، کوکو، کھادیں، فوڈ پروسیسنگ کیمیکلز اور کمیونین ویفرز تک شامل ہیں۔ ان میں سے کئی اشیا امریکی صارفین گھروں میں روزانہ استعمال کرتے ہیں اور ان کی قیمتیں گزشتہ سال کے مقابلے میں دہرے ہندسوں تک بڑھ چکی ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ارجنٹینا، ایکواڈور، گواتیمالا اور ایل سلواڈور کے ساتھ فریم ورک تجارتی معاہدوں کا بھی اعلان کیا ہے جن کے تحت متعدد خوراکی اشیا پر ٹیرف مکمل طور پر ختم کردیے جائیں گے۔ مزید ممالک کے ساتھ بھی سال کے اختتام تک معاہدوں کی کوششیں جاری ہیں۔
وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر کا فیصلہ اس بات کو دیکھتے ہوئے کیا گیا کہ یہ غذائی اشیا امریکا میں نہ پیدا ہوتی ہیں اور نہ پروسیس کی جاتی ہیں اور اب تک نو فریم ورک اور دو مکمل دو طرفہ تجارتی معاہدے ہوچکے ہیں۔
کئی صنعتی و تجارتی گروپس نے ٹیرف میں نرمی کا خیرمقدم کیا ہے۔ فوڈ انڈسٹری ایسوسی ایشن کی سربراہ لیسلی ساراسن نے کہاکہ یہ اقدام صارفین اور امریکی مینوفیکچررز دونوں کے لیے فائدہ مند ہے، صبح کی کافی اب شاید سستی ہوجائے۔