پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: ’اصل مزہ جیت میں نہیں، اس مارجن میں ہے‘

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے بعد سے مہمان ٹیموں کے یہاں ایک رجحان سا نظر آ رہا ہے کہ وہ یہاں دورے پہ آتے وقت اپنے بہترین وسائل پیچھے چھوڑ آتی ہیں۔
تصویر
Getty Images

جیت کا مزہ تبھی ہے جب صرف نتیجہ ہی مثبت نہ آئے بلکہ حریف کا بھی وہ حال کر دیا جائے جو تیسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کا کیا۔ جو ٹیم اپنے اولین انتخاب کے کم از کم پانچ کھلاڑیوں سے محروم تھی، اسے کسی کم مارجن سے ڈھیر کرنا پاکستان کے بھی شایانِ شان نہ ہوتا۔

پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے بعد سے مہمان ٹیموں کےیہاں ایک رجحان سا نظر آ رہا ہے کہ وہ یہاں دورے پہ آتے وقتاپنے بہترین وسائل پیچھے چھوڑ آتی ہیں۔

آسٹریلیا آئے تو سٹیو سمتھ، مچل سٹارک، ہیزل ووڈ اور کمنز وغیرہ کو ساتھ لانا بھول جاتا ہے، نیوزی لینڈ آئے تو ولیمسن، ساؤدی، بولٹ وغیرہ کہیں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

کبھی اس کی توجیہہ کرکٹ کیلنڈر کی بڑھتی مصروفیت میں بتائی جاتی ہے تو کبھی آئی پی ایل کی چمک دمک کا آڑے آنا بتلایا جاتا ہے۔ مگر وجہ جو بھی ہو، پاکستانی کھلاڑی بہرحال ورلڈ کلاس ٹاپ لیول کرکٹ کے تجربے سے عاری رہ جاتے ہیں۔

تصویر
Getty Images

اپنے بہترین کھلاڑیوں سے محروم یہ ’بی‘ ٹیمیں جب پاکستان کے ہاتھوں اپنی درگت بنواتی ہیں تو شائقین بھی محظوظ ہوتے ہیں، پاکستان کا ٹیم ریکارڈ بھی بہتر ہوتا ہے اور انٹرنیشنل رینکنگ بھی صحت مند ہو جاتی ہے۔

پچھلے ون ڈے ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان فارمیٹ کی رینکنگ میں اول آ چکا تھا اور امام الحق آئی سی سی رینکنگ کے نمبر ون بلے باز بن چکے تھے۔ مگر وہورلڈ کپ جاتے جاتے اپنے ساتھ کپتان کی کپتانی، کوچ کی کوچنگ، ٹیم کی انتظامیہ اور بورڈ کا چیئرمین تک بہا لے گیا۔

گو اگلا ون ڈے ورلڈ کپ ابھی ڈیڑھ سال کی دوری پہ ہے اور اس فارمیٹ کا اپنا مستقبل بھی کسی سنجیدہ بحث کا حصہ نہیں رہا مگر جنوبی افریقہ کے خلاف حالیہ ون ڈے سیریز کی فتح پاکستان کی کرکٹنگ قابلیت میں اضافے کی حتمی دلیل نہیں ہو سکتی۔

جنوبی افریقی ٹیسٹ ٹیم کو چونکہ انڈیا کے مشکل دورے کا سامنا تھا، سو میتھیو بریٹزکے کی قیادت میں جو ٹیم اتاری گئی، اس میں کم ازکم پانچ ایسے کھلاڑی شامل نہیں تھے جو کسی بھی ورلڈ ایونٹ میں جنوبی افریقی الیون کا ناگزیر حصہ ہوں گے۔

جبکہ جس پاکستانی ٹیم نے یہ سیریز اپنے نام کی، لگ بھگ یہی ٹیم اگلے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی حتمی الیون ہو گی۔

سو، اسی ٹیم کے مقابل میدان میں اترتی جنوبی افریقی الیون کے ہاں جب ایڈن مارکرم، ہینرخ کلاسن، ڈیوڈ ملر، کغیسو ربادا اور اینرخ نورکیہ جیسے کھلاڑی نظر آئیں گے تو مقابلے کی سمت جاننے کے لیے کوئی علم نجوم کی مہارت درکار نہیں ہو گی۔

تصویر
Getty Images

فی الوقت پاکستان کرکٹ کی مسابقت اس معیار سے بہت پیچھے ہے جو عالمی کرکٹ کا ’نیو نارمل‘ بن چکا ہے۔ کپتان شاہین آفریدی کے لیے پہلی سیریز فتح نہایت خوش آئند ہے مگر انھیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ پاکستان کرکٹ کو آگے بڑھانا ایسی سیریز کے بس کی بات نہیں ہے۔

اس صورتِ حال سے نکلنے کے دو راستے ہو سکتے ہیں۔

پہلا طریقہ بالکل سادہ ہے کہ اگر کل کلاں یہاں آسٹریلیا دورے پہ آئے اور مچل سٹارک و پیٹ کمنز کو ساتھ نہ لائے تو جواب میں پاکستان کے سکواڈ میں بھی نسیم شاہ اور حارث رؤف کو آرام دے دیا جائے کہ اگر آسٹریلیا پاکستانی بولرز کو سٹیو سمتھ کے خلاف بولنگ کا تجربہفراہم نہیں کرنا چاہتا تو پاکستان کیوں ان کے نوآموز بولرز کو بابر اعظم کے خلاف بولنگ کا تجربہ فراہم کرے؟

مگر یہ عملی طور پہ دشوار ہے کہ اگر پاکستان سکواڈ میں سپر سٹارز نہیں ہوں گے تو سیریز کی مارکیٹنگ اور بورڈ کی معیشت مشکل میں پڑ جائے گی۔

دوسرا رستہ جو نہ صرف عملاً ممکن ہے بلکہ پاکستان کا نصب العین بھی ہونا چاہیے کہ وہ سٹارز سے محروم مہمان ٹیموں کے لیے شکست کا مارجن اس قدر بڑھاتے جائیں کہ متعلقہ کرکٹنگ کلچر کو عزت کے لالے پڑ جائیں اور اگلی بار پاکستان کو اتنا ’ہلکا‘ نہ لیں۔

یقیناً یہ نبھانے کو بہت محنت اور کوشش درکار ہو گی لیکن اگر پاکستان کرکٹ کو اپنے اس گرداب سے نکلنا ہے جہاں وہ ٹاپ فائیو کی مسابقت کے ہم پلہ نظر نہیں آتی،تو اسے اپنا کھیل مزید اٹھانا ہو گا۔

اگر پاکستانی ٹیم بابر اعظم، صائم ایوب، ابرار احمد، نسیم شاہ اور حارث رؤف کے بغیر جنوبی افریقہ کے ہی دورے پہ گئی ہوتی تو یہی برویٹز کی ٹیم نہ صرف اسے کلین سویپ کر دیتی بلکہ کسی بھی شکست کا مارجن تین ہندسوں یا سات وکٹوں سے کم نہ ہوتا۔

جس بھونچال سے پاکستان کرکٹ گزر رہی ہے، وہاں یقیناً ہر جیت قابلِ ستائش ہے مگر جو معیار پاکستان کرکٹ حاصل کرنا چاہ رہی ہے، اس کے اعتبار سے جیت صرف اسی مارجن کو کہلانا چاہیے جو تیسرے ون ڈے میں پاکستان نے حاصل کیا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US