علامہ ناصر عباس اور نامزد اپوزیشن لیڈر محمود خان اچکزئی نے پاکستان میں حالیہ آئینی ترامیم خصوصاً 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف پوری قوم سے اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کرتے ہوئے ملک گیر تحریک کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین، پارلیمنٹ اور جمہوری اداروں کو غیر مستند انداز میں کمزور کیا جا رہا ہے اور عوامی حقوق کو بری طرح مجروح کیا جا رہا ہے — اس کا نتیجہ ملک کے آئینی اور سیاسی ڈھانچے پر سنگین اثرات مرتب ہو رہا ہے۔
علامہ ناصر عباس نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “1971 کے بعد ملک ایک مرتبہ پھر تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔” انہوں نے زور دے کر کہا کہ جمہوری ادارے مفلوج کیے جا چکے ہیں اور طاقتور حلقے مزید طاقت حاصل کرنے کے لئے آئینی قدم اٹھا رہے ہیں۔ اُن کے مطابق یہ اقدامات مارشل لاء کے نفاذ اور عوام پر ظلم کے دروازے کھولتے ہیں جب کہ کوئی بھی انہیں روکنے کے لیے سامنے نہیں آتا۔
نامزد اپوزیشن لیڈر محمود خان اچکزئی نے خبردار کیا کہ “پارلیمنٹ اس وقت بحث و مباحثے کی جگہ محض ایک ڈبیٹنگ سوسائٹی کی مانند کام کر رہی ہے۔ آئین کے ساتھ مسلسل کھلواڑ کیا جا رہا ہے”، اور کہا کہ انہوں سے آئین کے تحفظ کا پانچ بار حلف لیا جا چکا ہے مگر آئین کی پامالی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔
محمود خان اچکزئی نے اعلان کیا کہ تحریک کل رات سے ملک گیر سطح پر شروع ہو چکی ہے اور عوام ایک سو آواز بن کر ہر رات ایک واحد نعرہ بلند کریں گے، جمہوریت زندہ باد — آمریت مردہ باد، علاوہ ازیں تیسرا بڑا نعرہ قیدیوں کی رہائی کے حق میں ہوگا، یعنی قیدی رہائی بھی تحریک کا بنیادی مطالبہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ آئین کی بالادستی بحال کی جائے اور پارلیمنٹ کو طاقت کا مرکزی سرچشمہ بنایا جائے۔ حکمرانوں کی تکبر آمیز پالیسیوں کو عوامی حکمرانی سے بدل دیا جائے۔ ملک میں شفاف اور آئینی طریقے سے فیصلہ سازی کو یقینی بنایا جائے۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ ”جیو اور جنّوں دو“ کی پالیسی برقرار رکھی جائے گی۔
قائدین نے تمام وطن دوست سیاسی جماعتوں، شخصیات اور عوامی دھاروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس تحریک میں حصہ لیں اور آئینی حقوق کے تحفظ کے لیے متحد ہوں۔ انہوں نے اس تحریک کو آئینی بقا اور عوامی حقِ حاکمیت کی بازیابی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
علامہ ناصر عباس نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے اللہ اکبر کہہ کر جو کہا، اس پر عمل کریں گے۔ اُنہوں نے مرد و زن، ہر طبقے اور ہر ضلعی سطح پر اس نعرے کو یکساں طور پر بلند کرنے کی ہدایت دی۔
قائدین کا کہنا ہے کہ اگر پارلیمنٹ اور آئینی ادارے اپنے آئینی کردار کی حفاظت نہ کر سکیں تو عوامی قوت ہی آخری ضمانت ہے۔ تحریک کے اندر شامل گروہ ہر روز، ہر شب مختلف مطالبات اور نعرے کے تحت سڑکوں پر آئیں گے اور حکمرانوں کو پیغام بھیجیں گے کہ پاکستان کی عوام جو چاہے گی وہی فیصلہ ہوگا۔
قائدین نے پارلیمانی اور آئینی ڈھانچے پر حالیہ حملوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ اس تحریک کے بغیر آئین کی بنیادیں مزید متاثر ہوں گی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اب وہ محض بات کرنے کے مرحلے سے آگے بڑھ چکے ہیں اور عملی سیاسی اور عوامی سطح پر احتجاجی لائحہ عمل شروع ہو چکا ہے۔