وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ مذہبی جماعت کی مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جائیں گے اب تک 3800 معاونین کی نشاندہی ہوچکی ہے۔
لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ مذہبی جماعت کے حالیہ احتجاج کے دوران جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے لاشوں کی خبریں پھیلائی گئیں۔ مریدکے واقعے میں تین شہری جاں بحق اور 45 زخمی ہوئے جبکہ پرتشدد مظاہروں میں 110 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ مشتعل افراد نے پولیس موبائلز، ریسکیو گاڑیاں اور سرکاری املاک نذرِ آتش کیں یہاں تک کہ اینٹوں سے بھری ٹرالیاں احتجاجی ریلیوں کے ساتھ چل رہی تھیں۔
وزیر اطلاعات نے انکشاف کیا کہ مذہبی جماعت کے سربراہ کے گھر سے ایک کلو 920 گرام سونا، 898 گرام چاندی، 69 برانڈڈ گھڑیاں، مختلف زیورات اور 50 ہزار بھارتی روپے برآمد ہوئے ہیں جبکہ ان کے 91 بینک اکاؤنٹس سربمہر کیے جا چکے ہیں۔
عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ مذہبی جماعت کی 330 مساجد کا انتظام حکومت نے سنبھال لیا ہے جو اذان اور نماز کے لیے کھلی رہیں گی تاہم لاؤڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے گی۔ مذہبی جماعت کے 223 مدارس کی جیو ٹیگنگ مکمل کرلی گئی ہے جنہیں جلد اہل سنت کے معتدل علما کے حوالے کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیزی پھیلانے والوں کے خلاف بھی دہشت گردی کے مقدمات درج ہوں گے ان کا پولیس ریکارڈ تیار کیا جائے گا۔
وزیر اطلاعات نے مزید بتایا کہ مذہبی جماعت سے منسلک 6 مدارس حکومتی اراضی پر قائم تھے جن کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں اسپیشل پراسیکیوشن سیل بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ مقدمات کو سائنسی بنیادوں پر آگے بڑھایا جا سکے۔
عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب کابینہ نے مذکورہ مذہبی جماعت پر پابندی کی تجویز وفاق کو بھجوائی ہے جس پر ایک دو دن میں حتمی فیصلہ متوقع ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کریک ڈاؤن کے لیے مذکورہ مذہبی جماعت کو تین درجوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے دو درجوں میں قیادت اور تیسرے درجے میں سوشل میڈیا پر اکسانے والے شامل ہیں اور ان سب کے خلاف ریاستی سطح پر سخت کارروائی جاری ہے۔